سوشل میڈیا پرڈاکٹر عامر لیاقت کی والدہ کی تضحیک۔ افسوس ناک عمل
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
میرا ایک کالم بہ عنوان ’’الیکٹرونک میڈیا
اور شتر بے مہا آزادی‘‘( روزنامہ ’جناح‘ میں 27نومبر 2015ء )کو شائع ہوا
تھا جس میں الیکٹرونک میڈیا میں کھلے عام فحاشی، بے حیائی، عریانیت کا رونا
رویا تھا۔ میڈیا کی مادر پدر آزادی نے ہمارے گھروں میں داخل ہوکر مشرقی
روایات اور اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ایک ایسی تہذیب ہمارے گھروں میں گھس
آئی ہے جو نہ صرف اسلامی تہذہب اور شعائر کی دشمن ہے بلکہ حیاداری اور
شرافت کے عام معیار و تصورات سے بھی متصادم ہے۔ یہ بے حیا تہذیب ہمارے
معصوم بچوں اور نوجوان نسل کو ’’نیکی ‘‘ سے دور اور ’’بدی‘‘ کے قریب کررہی
ہے۔یہ سب کچھ پرائیویٹ چینل کے ذریعہ ہورہا ہے۔ ان چینلوں کو تو مخصوص لوگ
اور ادارے چلا رہے ہیں ، جن سے باز پرس کی جاسکتی ہے لیکن ’سوشل میڈیا‘ تو
ہے ہی تمام پابندیوں سے آزاد،نہ کوئی چلانے والا، نہ کوئی مالک، نہ کوئی
ملازم، نہ کوئی روکنے والا ، نہ کوئی دیکھنے والا، جو جس کا جی چاہے کسی کے
بارے میں لکھ دے، جو تصویر چاہی ڈال دی۔ مرد ہے تو عورت کے نام سے چیٹنگ
ہورہی ہے، عورت ہے تو مرد بناہوا ہے۔ کم عمر ہے توعمر پچیس سال لکھ کر
ٹوئیٹ اور فیس بک اور دیگر ویب سائٹ پر جی بھر کے بے حیائی کا مظاہرہ کیا
جارہا ہے۔ یہاں کوئی ضابطہ اخلاق نہیں، کوئی طریقہ کسی کو روکنے کا، منع
کرنے کا نہیں۔کم عمر بچیاں چکمے میں آجاتی ہیں، نتیجہ ماں باپ، بہن بھائی،
گھر ، خاندان کی عزت کا جنازہ نکالنے فیس بک فرینڈ کے نرغے میں آکر عمر بھر
کے لیے خود بھی تباہ و برباد ہوجاتی ہیں ، والدین، بہن بھائی، عزیز رشتہ
دار سب رسواء اورشرم شارہوتے ہیں۔بعض لڑکیوں نے تو خود کشی تک کرلی۔ برائی
کا برا انجام۔
الیکٹرانک میڈیا کی معروف شخصیت ڈاکٹر عامر لیاقت حسین بولنے کے’ ماہر
القادری‘ اور لکھنے کے’ جمیل الدین عالی‘ ہیں، میراان سے کالم نگاری کا
تعلق ہے۔ کبھی کبھار انہیں کسی پروگرام میں دیکھ لیا کرتا ہوں ، جب سے وہ
صبح سویرے ٹی وی پر جلوہ افروز ہونے لگے ہیں تو ان کے دیدار بالکل ہی نہیں
ہوتے۔ اس لیے کہ ہم رات گئے تک لکھتے ہیں ، مجبوری ہے کہ وہی لمحے سکون اور
خاموشی کے میسر ہوتے ہیں، صبح سویرے نماز کے بعد جو سوتے ہیں ظہر کی خبر
لاتے ہیں۔ اس لیے ان سے ٹی وی پر ملاقات نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ہماری اور ان
کی سیاسی سوچ میں فرق ہے، عبادت کی راتوں کے ان کے ٹی وی پروگرام کے ہم
حامی نہیں اس لیے کہ از خود جو وقت عبادت کا ہوتا ہے وہ ان کے سامنے بیٹھ
کر ، ان کی شکل دیکھ کر، ان کی باتیں سن کر اور سب سے بڑھ کر کمرشل بریک
میں بیہودہ اشہارات دیکھنا اچھا نہیں لگتا، شبِ قدر کی رات ہے ، عبادت کرنا
اس رات میں سب سے افضل عمل ہوتا ہے، آپ ٹی پر جلوہ افراز ہیں، چلیں بہت
اچھا پروگرام ، بہت اچھی باتیں آپ کر رہے ہیں، بہت خوب نعتیں آپ پڑھ رہے
ہیں، ہم بیٹھے ہیں ٹی وی کے سامنے ، آپ ہر آدھے گھنٹے بعد کمرشل بریک پر
چلے جاتے ہیں، کیا ٹی وی دیکھنے والے اس وقت اپنا ٹی وی بند کر دیتے ہیں ،
نہیں ہر گز نہیں بلکہ وہ اس دوران انہیں چینل پر چلنے والے فضول حتیٰ کہ
بیہودہ اشتہارات بھی دیکھنا پڑتے ہیں، کیا یہ عبادت کا حصہ ہوتا ہے ۔ خیر
یہ الگ معاملا ہے نہ ہی اس وقت یہ میرا موضوع ہے۔ ان کا ایک کالم جس کا
عنوان ہے ’’تحریک انصاف معافی کب مانگے گی؟‘ ‘(روزنامہ جنگ 30نومبر(2015پڑھ
کر بہت دکھ ہوا ، اسی کرب نے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا۔ ہم آپس میں دست و
گریبا ہوجائیں، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد، حتیٰ کے نوبت پولس، عدالت تک پہنچ
جائے ، جب اور جہاں موقع ملے ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں لیکن کسی بھی
اختلاف اور رنجش کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ماں باپ کو مغلظات بکنا، بے ہودہ
اور نازیبا الفاظ زبان استعمال کرنا، گالی گلوچ کرنا انتہائی گری ہوئی بات
ہے ، ایسا کرنے والا اپنی پست ذہنی کیفیت کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے ، اس کی
تربیت میں کوئی کمی رہ گئی ہے، اس کی پرورش کیسے ہاتھوں میں ہوئی ہے، اس کے
والدین مورد الزام نہیں بلکہ وہ اپنے والدین کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
کسی کے باپ یا ماں کو گالی دینے کے حوالے سے ایک حدیث ا م المومنین حضرت
عائشہ ․صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،
اس کے ساتھ ایک بزرگ بھی تھے۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس شخص سے دریافت کیا کہ تمہارے
ساتھ یہ (بزرگ) کون ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا ۔یا رسول اﷲ ﷺیہ میرے والد
بزرگوار ہیں۔ یہ سن کر آں حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’ والد کے ادب و
احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے ان سے آگے ہر گز نہ چلنا کہ اس سے ان کی بے ادبی
ہوگی۔ اپنے والد کے بیٹھنے سے پہلے ہر گز نہ بیٹھنا اور ان کا نام لے کر
انہیں نہ بلانا اور ان کی وجہ سے کسی کو گالی نہ دینا کہ جواباً وہ بھی
تمہارے والد کو گالی دے ‘۔اب سوشل میڈیا کے وہ صاحب یا صاحبہ جن کا نام
ڈاکٹر عامر نے اپنے کالم میں لکھا ہے، ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ،میرے
محترم یا محترمہ آپ نے ڈاکٹر عامر کی مرحوم والدہ کی شان میں جو بھی زہر
افشانی فرمائی ہے ، دیکھئے حدیث مبارکہ کیا کہتی ہے آپ از خود اندازہ کر
لیجئے۔ ماں کا رتبہ کس قدر بلند اور عظیم ہے اس کا اندازہ اس حدیث مبارکہ
سے بخوبی کیا جاسکتا ہے ’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول
اﷲ ﷺ سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کاسب سے زیادہ حق کس کا
ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ـتمہاری ماں‘ پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں ‘
پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں ‘ اس کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے‘ ۔ ماں خواہ
کسی کی بھی ہو وہ ماں ہوتی ہے۔ ’ماں تو سب کی سانجھی ہوتی ہے‘۔ ماں کے لیے
غلط زبان کا استعمال، گستاخی ، گناہ کے زمرہ میں آتا ہے۔ ڈاکٹر عامرلیاقت
حسین کا اندازِ بیان بتا رہا ہے کہ ان کی ماں کے ساتھ گستاخی پر ان کے اندر
کا انسان لرز گیا ہے، ان کے دل کو ٹھیس پہنچی ہے، وہ شدید دکھ و کرب کی
کیفیت میں ہیں۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے اوسان کھو بیٹھتا ہے
، گستاخی کرنے والا اگر سامنے موجود ہوتو اس کے ساتھ انتہا درجہ کا سلوک
سرزد ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر عامر میں برداشت اور درگزر کا مادہ پایا جاتا ہے،
انہوں نے یہ کالم لکھ کر اپنے دکھ کا اظہارکردیا ہے ،اپنے جذبات کا اظہار
کردیا ہے، ہوسکتا ہے اس موضوع پر وہ اور بھی لکھیں،اگر انہیں ٹی وی کے
پروگرام میں بولنے کا موقع ملا تو وہ اپنے دل کی بھڑاس خوب نکالیں گے۔اس
طرح کہ گستاخی کرنے والے یا کرنے والی کے چارو طبق روشن ہوجائیں گے۔
میں حیران ہوں کہ آخر ڈاکٹر عامر تحریک انصاف سے اس بے ہودہ حرکت پر معافی
منگوانے کی خواہش کیوں رکھتے ہیں؟ بالفرض تحریک انصاف کی جانب سے معافی
مانگ لی بھی گئی تو کیا وہ گستاخانہ الفاظ جو لکھنے والے نے لکھ دیے، وہ آن
لائن ہوگئے ، مٹ سکتے ہیں، وہ گھاؤجو ڈاکٹر عامر کے سینے میں لگ چکا ،
معافی نامے سے بھر جائے گا؟وہ بیہودگی دھل جائے گی، جانے دیجئے ڈاکٹر عامر،
بڑا دل کیجئے، یقین کریں لکھنے والے نے حذبات میں آکر یہ حرکت کر تو دی وہ
اندر سے شرمشار ضرور ہوگا، ندامت اس کے کلیجے کو کچوکے لگارہی ہوگی یہی
نہیں بلکہ جب کبھی اس کے ساتھ زندگی کے کسی موڑ پر کوئی واقعہ پیش آ ئے گا،
اُسے اپنی اس حرکت پر پیشمانی اور خجالت اٹھانا پڑے گی اور وہ بے چین ہوکر
آپ سے از خود معافی طلب گار ہوگا۔
تحریک انصاف کے ان مہربانوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ شدت پسندی ہے، واقعہ در
اصل یہ ہوا کہ ڈاکٹر عامر نے ایک کالم’’ریحام کا شکوہ اور عمران کا جواب
شکوہ’‘(روزنامہ جنگ 23 نومبر) لکھاجس میں بقول ان کے’ ’ان کا دل چاہا کہ وہ
کچھ دیر کے لیے دونوں (ریحام اور عمران) کی زبان بن جائیں اور سابقہ بھابی
نے جو انداز اختیار کیا ہے اُسی کی تقلید میں پہلے (روح اقبال سے معذرت کے
ساتھ) شکوہ اور پھر جواب شکوہ کے چند اشعار دونوں ’علیحدگی پسندوں ‘ کی نذر
کر کے اُ ن سے گزارش کرونگا کہ اب بس کیجئے اور دونوں اپنی اپنی نئی زندگی
کا آغاز کیجئے‘‘۔ اس تمہید کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف نے شاعری فرماتے ہوئے
ریحام کی جانب سے شکوہ اور کپتان کی طرف سے جوابِ شکوہ نظم کیا۔ یہ شاعری
کپتان کے پروانوں، دیوانوں اور چاہنے والوں کے دل پر گراں گزری، کسی نے دل
ہی دل میں برا بھلا کہا ہوگا، کسی نے ایک دوسرے سے مل کر غبار نکال لیا
ہوگا اوریہ موصوف یا موصوفہ زیادہ ہی جذبات میں آگئے اور ڈاکٹر عامر کی
والدہ مرحومہ محمودہ سلطانہ کے بارے میں نازیبا ، غیر اخلاقی ، فحش ،مغلظات
جملے مرحومہ کے لیے لکھے۔ وہ ماں جو اب اس دنیا میں بھی نہیں کے لیے اس طرح
کی بیہودگی ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے، اﷲ اس قسم کی گستاخی کرنے والوں کو
خاص طور پر او ردیگر سوشل میڈیا پر وقت گزارنے والوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔
کپتان کے چاہنے والوں یہ بتاؤ کہ عمران کی ریحام سے طلاق پر کس کس نے اظہار
خیال نہیں کیا؟اخبار کی دنیا کا شاید ہی کوئی کالم نگار ایسا ہو جس نے اس
موضوع پرقلم نہ اٹھایا ہو، ٹی وی ٹاک شو میں شاید ہی کوئی پروگرا م ایسا
ہوا ہو جس میں اس موضوع پر گفتگو نہ کی گئی ہو۔لکھنے والوں نے لکھا، بولنے
والوں نے بہ آواز بلنداپنے خیالت کا اظہار کیا،تحریک انصاف کے متوالے کس کس
کو روکیں گے، کیا جواب ہے اس کا ان کے پاس، ات یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عامر نے
کچھ زیادہ ہی کردیا تھا ، اس لیے یہ نوبت آئی۔ ہم لکھنے والوں اور بولنے
والوں کو کسی کے بھی ذاتی معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور ڈاکٹر
صاحب قبلہ آپ کے اختیار میں تو دونوں ہتھیار ہیں ، محتاط رہنا ہی مناسب ہے۔
نئی نسل کو کیا معلوم کہ’ محمودہ سلطانہ ‘ڈاکٹر عامر لیاقت کی مادر ہی نہیں
یا وہ شیخ لیاقت حسین کی شریک سفر ہی نہ تھیں بلکہ وہ پاکستان کے سیاسی
منظر نامے پر ایک طویل عرصہ تک مسلم لیگی خاتون کی حیثیت سے فعال کردار ادا
کرتی رہی ہیں۔ وہ پاکستان کی ان محترم خواتین میں سے تھیں کہ جنہوں نے قیام
پاکستان ہی نہیں بلکہ تعمیر پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلم لیگی تھیں
اور مرتے دم تک مسلم لیگی رہیں۔ مسلم لیگ کے حوالے سے ان کی خدمات تاریخ کا
حصہ ہیں۔ شیخ لیاقت حسین بھی مسلم لیگی ہی تھے، متحدہ قومی موومنٹ کے لیے
بھی ان کی بہت خدمات ہیں۔ڈاکٹر صاحب خاموش صرف مسلم لیگی ہی نہیں، صرف
متحدہ ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان خاموش ہے۔ کیا بھٹو صاحب سے زیادہ مینڈیٹ
اب تک پاکستان میں کسی کو ملا؟ ابھی تو مینڈیٹ ملا بھی نہیں، شکست پر شکست
، اس پر غرور اور تکبر کا یہ عالم ہے، اگر کہیں مینڈیٹ مل گیا تو کیا عالم
ہوگا۔ ہم نے تو بھٹوصاحب کے عروج کا زمانہ دیکھا ہے، جیالوں کا جو ش و خروش
دیکھا ہے، پاکستان کے کونے کونے ، چپہ چپہ سے جئے بھٹو کی آوازیں گونج رہیں
تھیں، غلطیاں بھٹو سے بھی ہوئیں ،بھٹو کوبھی تنقید کا نشانہ بنا یاگیا،
تنقید آصف علی زردارپر بھی ہوتی ہے، میاں صاحب کو کیا کچھ نہیں کہا جاتا،
ٹی وی پر ان کی ڈمی بنا کر کس طرح کھلے عام طنزکیا جاتا ہے اور کس کس سیاست
داں کا مزاق نہیں اڑایا جاتا۔ لیکن پی پی کے جیالوں ، یا نواز شریف کے
متوالوں نے یہ کچھ نہیں کیا جس کا مظاہرہ کپتان کے شیدائیوں کی جانب سے
سامنے آرہا ہے۔ یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے آج ڈاکٹر عامر کی والدہ کو نشانہ
بنا یا گیا ہے کل کوئی اور کالم نگار نشانے پر ہوگا۔ گویا اختلاف ِ رائے کی
گنجائش ختم کردی جائے۔ تنقید نہ کی جائے ، غلط کو غلط نہ کہا جائے، قومی
لیڈر ملک و قوم کی امانت ہوتا ہے، اس کا کوئی فعل ذاتی نہیں ہوا کرتا، قوم
جب خوشی میں اس کی ساتھی ہوتی ہے تو اس کے دکھ درد میں بھی شریک ہی ہوگی۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ خصم کیا برا کیا ، کرکے چھوڑ دیا اس سے بھی براکیا۔
چنانچہ عمران خان نے شادی کی غلط کیا ، کر کے طلاق دی اس سے بھی برا کیا۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو اپنے ورکرز کی تربیت کی اشد ضرورت ہے،
باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ، ہر سیاسی جماعت میں ٹریننگ مراکز قائم کیے
جائیں۔جہاں پر انہیں اس بات کی تربیت دی جائے کہ سیاسی معاملات میں صبر و
برداشت کس طرح کیا جاتا ہے، دوسروں کو برداشت کرنا سیاست کا لازمی جذو ہے،
سوشل میڈیا پر کس قسم کی زبان استعمال کرنی چاہیے،ٹی وی چینل پر کس طرح
گفتگو کی جاتی ہے،گفتگو کے آداب کیا ہیں، محفل میں کسی بھی موضوع پر کس طرح
بات کرنا چاہیے، لکھنے والوں کو بھی لکھنے کی تربیت دی جائے۔ محض قلم ہاتھ
میں لے کر سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی روش اچھی نہیں۔ اس کے نقصانات تو
ہیں فوائد نہیں۔جلسوں میں ، تقاریب میں قسمت سے بریانی میسر آجائے تو اس پر
گدوں کی ٹوٹ نہیں پڑنا چاہیے، ایک بریانی کی پلیٹ کی کیا حقیقت ہے۔ بیٹھنا
کیسے ہے، نعرے بازی کس طرح کرنی ہے، عوام کو کس طرح اپنی پارٹی کے بارے میں
کنونس کرنا ہے۔ لوگو اچھے اخلاق سے ، اچھے کردار سے آپ کے ہم نوا بنیں گے،
بیہودگی، بد
تہذیبی، غیر شائستگی سے نہیں۔ |
|