ہم بھی کسی سے کم نہیں
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
صحافت کے شعبے میں طبع آزمائی کرنے والے سینکڑوں صحافیوں کی عمریں گزر گئیں لیکن وہ اپنے لئے سائیکل ‘ موٹر سائیکل تک نہیں خرید سکے- نہ ہی ان کے پاس ذاتی مکان ہیں- کرایوں کے مکانات میں رہنے والے ایسے صحافی بھی ہیں جن کی پہلی اور آخری دعا اپنے گھر کی ہوتی ہیں -لیکن ہمارے ہاں ایسے بھی صحافی ہیں جن کے کئی کئی پلازیں ہیں جنکی دکانیں ہیں-جن کی رینٹ کی گاڑیاں چلتی ہیں- جواعلی حکومتی اہلکاروں کو بلیک میل کرکے کام نکالتے ہیں-ان کے بنگلے ‘ گاڑیاں اور بچے ایسے تعلیمی اداروں میں پڑتے ہیں جہاں پر ایلیٹ کلاس کے لوگوں کے بچے ہی پڑھتے ہیں- ایسے لوگ بھی اب صحافی بن بیٹھے ہیں جو کسی زمانے میں دو سو روپے ز کے ٹھرے کا بوتل لوگوں سے فراڈ کرکے پیتے تھے لیکن اس فیلڈ میں آنے کے بعد اب وہ انگلش وھسکی پیتے ہیں- بازار کے تھڑوں پر ایسے لوگ بھی اپنے آپ کو صحافی کہلواتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے جو سارا دن چھابڑی فروشوں کو دھمکاتے رہتے ہیں اور میں مفت میں ایک روز کی سبزی اور ایک ہزار روپے لیکر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے معاشرے کو بے وقوف بنا لیا ہے- |
|
پشتو زبان کی ایک مثل مشہور ہے کہ چھان (
آٹا چھاننے کیلئے استعمال ہونیوالی چیز) اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے لوٹے کو
کہہ دیا کہ تم میں تو سوراخ ہے ‘ اور لوٹا اسے دیکھتا ہی رہ گیا-کیونکہ وہ
دیکھ رہا تھا کہ چھان کو اپنے بے شمار سوراخوں کا پتہ ہی نہیں تھا یا پھر
اسے اپنے سوراخ نظر ہی نہیں آرہے تھے-کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے صحافیوں کی
بھی ہیں - ساری قوم ‘ دنیا کو نصیحت کرنے والوں کی اپنی کیا اوقات ہیں اگر
کوئی ان کے اجلے کپڑوں کو دیکھے اور ان کی باتیں سنے تو دل اس بات پر خوش
ہوتا ہے کہ یہی ہے بڑے نامور صحافی ‘اور ان کی وجہ سے اس دنیا کا نظام
تبدیل ہوگا لیکن جب ان کے چہروں پر منافقت کی پڑی دیوار گرتی ہیں تو پھر دل
ان منافق زدہ چہروں پر تھوکنے کو بھی نہیں کرتا‘ کیونکہ یہی لوگ سیاستدانوں
پر تنقید کرتے ہوئے اپنی اوقات بھول جاتے ہیں - جم ہوریت کے نام پر اس ملک
کو لوٹنے والوں میں نام نہاد صحافی بھی شامل ہیں جو "جم ہوریت "کے نام پر
لفافے وصول کرتے ہیں اور اپنی کمیونٹی اور عوام کو بے وقوف بناتے ہیں- ٹی
وی کے سکرینوں پر آنے والے یہ مکروہ چہرے ‘ اپنے خبروں ‘ تجزئیوں میں اپنے
آپ کو فرشتے بتاتے ہوئے الزام تراشی بھی کرتے ہیں لیکن ان کی حرام خوری
پوری صحافتی برادری کو بدنام کرتی ہیں ور ساری دنیا یہی سمجھتی ہیں کہ ہر
ایک صحافی لفافے کے بغیر کام ہی نہیں کرتا-
ہمارے صحافتی برادری بھی ایسی ہیں یہاں پر ایسے صحافی بھی موجود ہیں جنہوں
نے کسی زمانے میں اخبارات سے وابستہ رہ کر کام کیا لیکن اب اسی وابستگی کی
بناء پرمختلف اداروں میں بیٹھ کر کچھ نہ کرتے ہوئے بھی گریڈ اٹھارہ سے بھی
زیادہ کما رہے ہیں- کچھ لوگوں کیلئے غیر قانونی کاموں میں مصروف عمل ہیں -
شناختی کارڈ کے اجراء سے لیکر پاسپورٹ بنانے کیلئے کمیشن کار بنے ہوئے
ہیں-کچھ لوگ اخبارات کے نام پر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ر بدلے میں روزانہ
پندرہ سو دو ہزارروپے حرام کی وصول کرکے یہ طرم خان سمجھتے ہیں کہ ہم نے
زمانے کو بے وقوف بنا لیا ہے - اس شعبے میں ایسے نام نہاد صحافی اب بھی
موجود ہیں جن کا کام فراڈ ہی کرنا ہے ‘ کسی اخبار سے وابستگی نہ ہوتے ہوئے
بھی پولیس کے اعلی افسران سے لیکر وزراء تک آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے ان کی
بڑی ڈیمانڈ ہے- کیونکہ یہ پیسے کیلئے پولیس اہلکاروں کے تبادلوں سے لیکر ان
کی تعیناتیاں بھی کرتے ہیں- یہاں ایسے صحافی بھی موجود ہیں افغانیوں کو
پاکستانی بنانے کا کام بھی کرتے ہیں-یہاں ایسے بھی صحافی اور اداروں کے
ایڈیٹر بن بیٹھے ہیں جنہیں لکھنا بھی نہیں آتا - لیکن ان کے تعلقات
اختیارات اور پیسہ اتنا ہیں کہ ہم جیسے دو ٹکے کے صحافی انہیں دیکھ کر ہر
وقت حیران رہتے ہیں کہ آخر یہ پیسہ ان لوگوں کے پاس کیسے آگیا-
صحافت کے شعبے میں طبع آزمائی کرنے والے سینکڑوں صحافیوں کی عمریں گزر گئیں
لیکن وہ اپنے لئے سائیکل ‘ موٹر سائیکل تک نہیں خرید سکے- نہ ہی ان کے پاس
ذاتی مکان ہیں- کرایوں کے مکانات میں رہنے والے ایسے صحافی بھی ہیں جن کی
پہلی اور آخری دعا اپنے گھر کی ہوتی ہیں -لیکن ہمارے ہاں ایسے بھی صحافی
ہیں جن کے کئی کئی پلازیں ہیں جنکی دکانیں ہیں-جن کی رینٹ کی گاڑیاں چلتی
ہیں- جواعلی حکومتی اہلکاروں کو بلیک میل کرکے کام نکالتے ہیں-ان کے بنگلے
‘ گاڑیاں اور بچے ایسے تعلیمی اداروں میں پڑتے ہیں جہاں پر ایلیٹ کلاس کے
لوگوں کے بچے ہی پڑھتے ہیں- ایسے لوگ بھی اب صحافی بن بیٹھے ہیں جو کسی
زمانے میں دو سو روپے ز کے ٹھرے کا بوتل لوگوں سے فراڈ کرکے پیتے تھے لیکن
اس فیلڈ میں آنے کے بعد اب وہ انگلش وھسکی پیتے ہیں- بازار کے تھڑوں پر
ایسے لوگ بھی اپنے آپ کو صحافی کہلواتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے جو سارا
دن چھابڑی فروشوں کو دھمکاتے رہتے ہیں اور میں مفت میں ایک روز کی سبزی اور
ایک ہزار روپے لیکر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے معاشرے کو بے وقوف بنا لیا ہے-
ایسے بھی صحافی ہیں جنہیں اپنی آمدنی کا بھی نہیں پتہ-کہاں سے آگیا اتنا
پیسہ ‘ کیا صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد کیلئے پیسے درختوں پر اگتے ہیں-
یہ ایک ایسا سوال ہے جو اس شعبے میں پندرہ سال گزرنے کے باوجود بھی میں
ذاتی طور پر نہیں سمجھ سکا -اخبارات کی تنخواہوں پر زندگی گزارنے والے ایسے
صحافی بھی ہیں جو شرم کے مارے کسی کو اپنی تنخواہ بھی نہیں بتا سکتے -عام
لوگوں ‘ سیاستدانوں ‘ ملٹری ‘ جوڈیشری ‘پولیس کو ہدف تنقید بنانے والوں کی
اندرونی حقیقت کا کسی کو پتہ ہی نہیں- بعض صحافی ان کے بارے میں بات کرنے
اور لکھنے کے عمل کو برا سمجھتے ہیں کیونکہ بقول ان کے ایسا کرنے سے پوری
کمیونٹی بدنام ہوتی ہیں لیکن اس کمیونٹی میں حرام کے پیسوں سے شراب پینے
والوں سے لیکر پرائی کمپیوٹر اپنے پیاروں کو دینے والے افراد کی تعداد بہت
کم ہیں اوریہی لوگ مطلب براری کیلئے بہت کچھ کرتے تھے اور کرتے ہیں یہی وجہ
ہے کہ کئی سالوں سے ایک ہی جگہوں پر بیٹھے ہوئے ہیں- اور انہی لوگوں کی وجہ
سے پوری برادری بدنام ہورہی ہیں-
دوسروں کو ہدف تنقید بنانے والوں کا احتساب کون کریگا-کیا صحافی آسمان سے
اترے ہوئے فرشتے ہیں- ۔معاشرے میں اچھائی کا درس دینے والوں کی اوقات بھی
تو سامنے لائی جائے کہ اس شعبے میں آنے سے پہلے لوگ کیا تھے ‘ ان کے اثاثے
کیا تھے اور اب ان کے اثاثے کہاں تک پہنچے ہیں- ہیں کوئی منافقوں کی اس
دنیا میں منافقوں کو پکڑنے والا- کوئی احتساب کرنے والا ہے- اگر زمین والے
احتساب کرتے ہوئے ڈرتے ہیں تو پھر احتساب کرنے والا خود ہی احتساب کریگا
جہاں پر کوئی آئین کی شقوں کی من پسند تشریح کرسکے گا اور نہ ہی ثبوت کی
ضرورت ہوگی کیونکہ اس دنیا کے تخلیق کار کو اپنے بندے کے کرتوتوں کا سب سے
زیادہ پتہ ہے- |
|