یوم انسانی حقوق اور اسلام کا سب سے پہلا منشور اعظم

 ۱۰؍ دسمبر 1949ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے توثیق کردہ انسانی حقوق کا آفاقی منشور

انسانی حقوق کا دن دنیا بھر میں ۱۰؍ دسمبر کو منایا جاتا ہے۔اس تاریخ کے انتخاب کا مقصد ۱۰؍ دسمبر 1949ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے توثیق کردہ انسانی حقوق کا آفاقی منشور (Universal Declaration Of Human Rights)کی یاد تازہ کرنا اور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کروانا ہے۔ اسے عالمی سطح پر انسانی حقوق کا پہلا اعلان تعبیر کیا جاتا اور اقوامِ متحدہ کی ابتدائی بڑی کامیابیوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ یومِ انسانی حقوق کا رسمی تعین 4 دسمبر 1950ء کو جنرل اسمبلی کے 317؍ویں اجلاس میں ہوا، جب جنرل اسمبلی نے قرارداد 423(V) پیش کی، جس کے تحت تمام رکن ممالک اور دل چسپی رکھنے والی دیگر تنظیموں کو یہ دن اپنے اپنے انداز میں منانے کی دعوت دی گئی۔عموماً اس دن اعلیٰ سطحی سیاسی کانفرنسوں اور جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور تقریبات و نمائش کے ذریعے انسانی حقوق سے متعلقہ مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر ۱۰؍دسمبر ہی کو انسانی حقوق کے میدان میں پانچ سالہ اقوامِ متحدہ انعام اور نوبل امن انعام بھی دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق سرگرم عمل کئی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں اس دن کو منانے کے لیے کئی خصوصی تقریبات منعقد کرتی ہیں۔جنرل اسمبلی میں منشور کی منظوری کے وقت اسے ’’تمام افراد اور تمام اقوام کے لیے حصولِ مقصد کا مشترک معیار‘‘ قرار دیا گیا۔ اس موقع پر 48؍ رکن ممالک نے اس کی حمایت کی جب کہ آٹھ ممالک نے حق رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔

اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کی آواز آج سے چھ دہائی پیشتر بلند کی مگر انسانی حقوق کوپیغمبراسلامﷺنے چودہ صدیوں قبل باضابطہ پیش بھی کیااور عملی نمونہ بھی بتایا۔خطبۂ حجۃ الوداع کواسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔خطبۂ حجۃ الوداع بلاشبہ انسانی حقوق کااوّلین اورمثالی منشوراعظم ہے۔اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کاسب سے پہلامنشورانسانی حقوق ہونے کااعزازہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی،قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کاکوئی شائبہ نظرتک نہیں آیا۔ ذی قعدہ ۱۰؍ہجری میں آقاﷺنے حج کاارادہ کیا،یہ حضورﷺ کا پہلااورآخری حج تھا۔ اسی حوالے سے اسے ’’حجۃ الوداع‘‘کہاجاتاہے۔یہ ابلاغ اسلام کی بنیادپر’’حجۃ الاسلام‘‘،’’حجۃ التمام‘‘اور’’حجۃ البلاغ‘‘کے نام سے بھی موسوم ہے۔ اس حج کے موقع پرآقاﷺنے جوخطبہ ارشادفرمایااسے’’ حجۃ الوداع‘‘ کہتے ہیں۔آپﷺ کے حکم سے قصوء اونٹنی پرکجاواکساگیااورآپﷺ قصواء اونٹنی پرسوارہوکر بطن وادی میں تشریف لے گئے اسوقت آپﷺکے گردایک لاکھ چوبیس ہزاریاایک لاکھ چوالیس ہزارانسانوں کاسمندرٹھاٹھیں ماررہاتھا۔آپ ﷺنے ان کے سامنے ایک جامع خطبہ ارشادفرمایا۔یوم انسانی حقوق کے موقع پراس خطبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کا مکمل متن قارئین کی خدمت میں پیش کیاجارہاہے تاکہ مصطفی کریمﷺکے ان ارشادات کا مطالعہ کریں جس میں نوع انسانی کے جملہ حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے۔

آپ ﷺنے اﷲ پاک کی حمدوثناء کرتے ہوئے خطبہ کی ابتداء یوں فرمائی۔’’اے لوگو!بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بیشک تمھارا باپ(آدم علیہ السلام)ایک ہے۔سن لو،کسی عربی کوکسی عجمی پر،کسی سُر خ کوکسی کالے پراور کسی کالے کوکسی سُرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔اس طرح زمانۂ جاہلیت کے خاندانی تفاخراور رنگ ونسل کی برتری اور قومیت میں اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بُتوں کوپاش پاش کرتے ہوئے مساواتِ اسلام کاعَلم بلند فرمایا۔فرمایا:اے لوگو!تمھاری جانیں اور تمھارے اموال تم پر عزت وحرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو،یہ اس طرح ہے جس طرح تمھارا آج کا دن حرمت والاہے۔اور جس طرح تمھارا یہ شہر حرمت والاہے۔بے شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔سنو!اﷲ کاپیغام میں نے پہنچادیااورجس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہواس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچادے۔ سارا سود معاف ہے لیکن تمھارے لئے اصل زر ہے،نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔

اﷲ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیاہے کہ کوئی سود نہیں۔سب سے پہلے جس ربا(سود،بیاج)کو میں کالعدم کرتاہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کاسود ہے۔یہ سب کاسب معاف ہے۔زمانۂ جاہلیت کی ہر چیزکو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام خونوں میں سے جوخون میں معاف کررہاہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے بیٹے ربیعہ کاخون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھااور ہذیل قبیلہ نے اس کوقتل کردیا۔اے لوگو!شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ اس زمین میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی،لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہوشیاررہنا۔پھرفرمایاکہ جس روز اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا،سال کوبارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب)ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔

اے لوگو!اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،میں تمھیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ تمھارے زیرِ دست ہیں،وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمھارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور اﷲ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمھارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اوران کے تم پر بھی حقوق ہیں۔تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر کی حرمت کو برقراررکھیں اور ان پریہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو،پھر اﷲ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا تم مار سکتے ہولیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔

اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اﷲ کا پیغام تم کو پہنچا دیاہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اﷲ تعالیٰ کی کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی کی سنتﷺ۔اے لوگو!میری بات غور سے سنواور اس کو سمجھو تمھیں یہ چیز معلوم ہونی چاہئے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔جان لو کہ دل ان تینوں باتوں پرحسد وعناد نہیں کرتے۔کسی عمل کوصرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا۔حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی نصیحت کرنا۔مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ شامل رہنااور بے شک ان کی دعوت ان لوگوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے علاوہ ہیں۔جس کی نیت طلب دنیاہواﷲ تعالیٰ اس کے فقروافلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے عیاں کردیتاہے اور اس کے پیشہ کی آمدنی منتشر ہوجاتی ہے اور نہیں حاصل ہوتااس کواس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیاہے اور جس کی نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور اس کا پیشہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور دنیا اس کے پاس آتی ہے اس حال میں وہ اپنی ناک گھسیٹ کرآتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری بات کو سنااور دوسروں تک پہنچایا۔بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا جاننے والاہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتااور بسا اوقات حامل فقہ کسی ایسے شخص کو بات پہنچاتاہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔تمھارے غلام،جو تم کھاتے ہوان سے ان کو کھلاؤ۔جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہناؤ،اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کردو۔اے اﷲ کے بندو!ان کو سزا نہ دو۔میں پڑوسی کے بارے میں تمھیں نصیحت کرتاہوں(یہ جملہ سرکار دوعالمﷺنے اتنی بار دہرایاکہ یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ حضورﷺپڑوسی کو وارث نہ بنادیں)اے لوگو!اﷲ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے،اس لئے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کرے۔بیٹا،بستر والے کا ہوتاہے یعنی خاوند کا اور بدکارکے لیے پتھر۔جو شخص اپنے آپ کواپنے باپ کے بغیرکسی طرف منسوب کرتا ہے اس پر اﷲ تعالیٰ،فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔نہ قبول کرے گا اﷲ تعالیٰ اس سے کوئی بدلہ اور کوئی مال۔جو چیز کسی سے مانگ کرلواسے واپس کرو،عطیہ ضرور واپس ہونا چاہئے اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرناچاہئے اور جو ضامن ہو اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے۔(بخاری و مسلم وابوداؤد)

اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایاکہ تم سے میرے بارے میں دریافت کیاجائے گا،تم کیا جواب دوگے؟انہوں نے کہاں ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اﷲ کا پیغام پہنچایا،اس کو ادا کیااور خلوص کی حد کر دی۔حضور ﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا،پھر لوگوں کی طرف موڑااور فرمایا:اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا‘‘۔(بحوالہ:ضیاء النبیﷺ،ج۴،ص؍۷۵۳تا۷۵۸،سیرت مصطفیﷺ۳۹۹،سیرت رسول اکرمﷺ۲۷۷)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 675024 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More