کیا ہر ہاشمی "سید" ہے ؟

صدرِ اول میں "سید" کا لفظ تمام بنو ہاشم کے لئے استعمال ہوا کرتا تھا چاہے وہ علوی ہوں یا عباسی، جعفری ہوں یا عقیلی، اس میں اولادِ فاطمی کی تخصیص نہیں ہوتی تھی ، بعض شہروں میں اسے علوی اولاد اور بعض میں عباسی اولاد کے لئے بھی استعمال کیا گیا لیکن بعد میں یہ لفظ سیدنا امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنھما کی اولاد کے لئے مختص ہوگیا اور اب عرف میں اس کا اطلاق نبئ رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے انہی دو مبارک نواسوں اور ان سے جاری تمام اولاد پر کیاجاتا ہے۔ انہیں فاطمی اولاد بھی کہتے ہیں۔
سیّد عربی زبان کالفظ ہے جوکہ لغۃً متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ لسان العرب میں ہے،
" والسید یطلق علی الرب والمالک والشریف والفاضل والکریم والحلیم ومحتمل أذی قومہ والزوج والرئیس والمقدم، وأصلہ من ساد یسود فہو سیود۔ "
یعنی لفظ سید کا اطلاق رب ، مالک ،شرافت دار،علم والے، عزت والے، بردبار ، اپنی قوم سے تکلیف کو دورکرنے والے ، شوہر، قوم کے سردار اور پیشوا پر ہوتا ہے اور اس (لفظِ سید ) کی اصل (باعتبارِ صرف) ساد یسود فہو سیودسے ہے۔
(لسان العرب ۔ جلد03 ۔ صفحہ 228 ۔ دار صاد ۔ بیروت )

صدرِ اول میں "سید" کا لفظ تمام بنو ہاشم کے لئے استعمال ہوا کرتا تھا چاہے وہ علوی ہوں یا عباسی، جعفری ہوں یا عقیلی، اس میں اولادِ فاطمی کی تخصیص نہیں ہوتی تھی ، بعض شہروں میں اسے علوی اولاد اور بعض میں عباسی اولاد کے لئے بھی استعمال کیا گیا لیکن بعد میں یہ لفظ سیدنا امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنھما کی اولاد کے لئے مختص ہوگیا اور اب عرف میں اس کا اطلاق نبئ رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے انہی دو مبارک نواسوں اور ان سے جاری تمام اولاد پر کیاجاتا ہے۔ انہیں فاطمی اولاد بھی کہتے ہیں۔

(1) امام عبد الرحمن جلال الدین سیوطی شافعی (متوفی : 911 ھ) رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسا لہ ا لعجاجۃ الزرنبیۃ فی السلالۃ الزینبیۃ میں ارقام کرتے ہیں،
" إن اسم الشریف کان یطلق فی الصدر الأول علی کل من کان من أہل البیت سواء کان حسنیا أم حسینیا أم علویا، من ذریۃ محمد بن الحنفیۃ وغیرہ من أولاد علی بن أبی طالب، أم جعفریا أم عقیلیا أم عباسیا۔۔۔۔ فلما ولی الخلفاء الفاطمیون بمصر قصروا اسم الشریف علی ذریۃ الحسن والحسین فقط، فاستمر ذلک بمصر إلی الآن ۔ "
یعنی بے شک سیّد کا اطلاق قرونِ اولی میں ہر اُس شخص پر ہوتا تھا جو اہلِ بیت کرام سے ہو، چاہے وہ حسنی ہو ،حسینی ہو ،یا علوی ہومحمد بن حنفیہ کی اولاد اور دیگر اولادِ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، یا جعفری ہو یا عقیلی ہو یاعباسی۔۔۔ جب مصر میں خلفاءِ فاطمیین کو حکومت ملی تو انہوں نے سیّد کا لفظ فقط امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے لئے مختص کردیاتو یہ تخصیص اس دور سے اب تک قائم ہے ۔
(الحاوی للفتاوی للسیوطی ۔ جلد02 ۔ صفحہ39 ۔ دارالفکر ۔ بیروت)

(2) تقریبا یہی کلام امام عبدالروؤف مناوی (1031 ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا۔
آپ کے الفاظ یہ ہیں : " وھم- يعني الأشراف. ولد علي وعقيل وجعفر والعباس كذا مصطلح السلف وإنما حدث تخصيص الشريف بولد الحسن والحسين في مصر خاصۃ من عهد الخلفاء الفاطميين"
(فيض القدير شرح الجامع الصغير ۔ جلد 01 ۔ صفحہ 522 ۔ المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

(3) امام شمس الدین سخاوی (متوفی : 902 ھ) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں،
" عمر بن أَحْمد بن يُوسُف العباسي الْحلَبِي الْحَنَفِيّ وَيعرف بالشريف النشابي جَريا على مصطلح تِلْكَ النواحي فِي عدم تَخْصِيص الشّرف ببني فَاطِمَۃ بل يطلقونه لبني الْعَبَّاس بل وَفِي سَائِر بني هَاشم "
یعنی عمر بن احمد بن یوسف العباسی الحلبی الحنفی (شریف) سید نشابی کے نام سے معروف ہیں ان علاقوں کی اصطلاح کے مطابق کہ (سید کے اطلاق میں) اولادِ فاطمی کی تخصیص نہیں کرتے بلکہ بنی عباس بلکہ تمام بنی ہاشم پر سید کا اطلاق کرتے ہیں۔
(الضوء اللامع لأهل القرن التاسع ۔ جلد 06 ۔ صفحہ 73 ۔ منشورات دار مكتبة الحياة - بيروت)

(4) امام ابن حجر عسقلانی (متوفی : 852 ھ) رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں ،
" الشريف هُوَ سُلَيْمَان بن يزِيد الْأَزْدِيّ ولقب بِهِ كل عباسي بِبَغْدَاد وَكَذَلِكَ كل علوي بِمصْر "
یعنی سید وہ سلیمان بن یزید الازدی ہیں اور بغداد میں ہر عباسی کا لقب سید ہے اور اسی طرح مصر میں ہر علوی کا۔
(نزهة الألباب في الألقاب ۔ جلد 01 ۔ صفحہ 399 ۔ مكتبة الرشد - الرياض)

(5) الفقيہ النسابة أحمد بن محمد الحموي الحنفي( متوفی : 1098ھ) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ،
" الشريف في العرف الآن ہو من ينتسب إلي الحسنين ۔۔ الخ"
یعنی اب عرف میں سید وہ ہے جس کا نسب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے ملتا ہے۔
(الدر النفيس في نسب الإمام محمد بن إدريس ۔صفحہ 9 ۔ مخطوطہ مکتبہ ملک عبدالعزیز ۔ ریاض)

(6) مسائل کثرحولھاالنقاش والجدل میں ہے،
والمراد بالشریف المنسوب الی الحسن والحسین رضی اللہ عنہما۔
یعنی سید سے مرادہے کہ جن کا نسب سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے منسوب ہو ۔
(مسائل کثر حولھا النقاش والجدل ۔ صفحہ 134 ۔ دارغار حرا ۔ دمشق)

(7) فتاوی رضویہ میں ہے،
سبطین کریمین (رضی اللہ عنہما) کی اولاد سید ہیں۔
(فتاوی رضویہ ۔ جلد 13۔ صفحہ361 ۔ رضا فاؤنڈیشن ۔ لاہور)

علماء اسلام کی مذکورہ بالا تصریحات سے واضح ہوا کہ "سید" ابتداءً ہر ہاشمی کو کہا جاتا تھا ، اس اعتبار سے ہر ہاشمی "سید" تھا ، مگر بعد میں عرف الناس نے اس لقب کو سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے لئے مختص کردیا لہذا اب عرب و عجم میں سیّد کا لفظ اولادِ فاطمی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ لفظ سن کرذہن اسی نسلِ پاک کی طرف منتقل ہوتا ہے لہذا ہمارے دور میں سیّد سے مراد فاطمی اولاد ہیں ۔

فتاوی اہلسنت میں ہے،
حضرت علی کر م اللہ تعالی وجہہ الکریم کی جو اولاد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ہیں ان کو اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد کو سید کہا جاتا ہے، ہر سید ہاشمی ضرور ہے مگر ہر ہاشمی سید ہو یہ ضروری نہیں۔
(فتاوی اہلسنت ۔ کتاب الزکوۃ ۔ صفحہ 425 ۔ مکتبۃ المدینۃ ۔ کراچی)

اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا ، اگر کسی نے وصیت کی کہ اتنے مال سے سید زادوں کو حصہ دیا جائے تو اس سے مراد تمام اہل بیت نہیں بلکہ اولادِ حسن و حسین ہی ہوں گے۔
امام سیوطی اسی مسئلہ کو یوں ذکر فرماتے ہیں ،
أن الوصایا والأوقاف تنزل علی عرف البلد، وعرف مصر من عہد الخلفاء الفاطمیین إلی الآن أن الشریف لقب لکل حسنی وحسینی خاصۃ فلا یدخلون علی مقتضی ہذا العرف۔
یعنی وصیت اور وقف شہر کے عرف پر مبنی ہوتے ہیں، اور مصر کا عرف خلفاءِ فاطمیین کے زمانے سے اب تک یہ ہے کہ سیّد بطورِ خاص ہرحسنی و حسینی کا لقب ہے پس اس عرف کا تقاضا ہے کہ دیگر اہل بیت کرام اس میں داخل نہ ہوں۔
(الحاوی للفتاوی للسیوطی ۔ جلد02 ۔ صفحہ41 ۔ دارالفکر ۔ بیروت)

اشکال : بعض احباب سمجھتے ہیں کہ علوی ، عباسی وغیرہ اولادیں بھی سید ہوتی ہیں اور جب علماء دین سے سادات کرام کے فضائل سنتے ہیں تو مذکورہ اولادوں کو بھی ان فضائل میں شامل کرلیتے ہیں ، کیا یہ درست ہے ؟

جواب : جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اب ساداتِ کرام سے مراد فاطمی اولاد ہی ہیں لہذا جب علماء دین اہلِ بیت کے عمومی فضائل بیان کریں تو اس سے فاطمی و غیر فاطمی ہر ہاشمی اولاد مراد ہوتی ہے، لیکن جب سادات کرام کے خصوصی فضائل بیان ہوں جس میں عذاب سے محفوظ رہنا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسلِ پاک کہلانا وغیرہ تو اس سے اولادِ فاطمی ہی مراد ہوتی ہیں ، لہذا کوئی علوی ، جعفری ، عباسی خود کو سید گمان کرکے ان خصوصی فضائل کو خود پر منطبق کرے تو یہ طریقہ نادرست ہوگا۔ مثال کے طور پر :
امام ابو القاسم طبرانی (متوفی : 360 ھ) رحمۃ اللہ علیہ بسندِ صحیح روایت کرتے ہیں ،
قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم لفاطمۃ: «إن اللہ عز وجل غير معذبك، ولا ولدك»
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا ، بیشک اﷲ تعالٰی نہ تجھے عذاب فرمائے گا نہ تیری اولاد کو ۔
(المعجم الكبير للطبرانی ۔ جلد 11 ۔ صفحہ 263 ۔ حدیث : 11685 ۔ مكتبۃ ابن تيميۃ - القاهرۃ)

یہاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمی اولاد کی جو رفعتِ شان بیان فرمائی ، ظاہر ہے اس سے مراد وہی ہیں جنہیں اب ہم سادات کرام کہتے ہیں ، علوی ، عباسی ، جعفری اگرچہ ہاشمی ہیں اور بڑی شان کے مالک ہیں مگر وہ ان فضائل میں داخل نہیں ہیں ۔
ہماری گفتکو کا خلاصہ یہ کہ اگرچہ صدرِ اول میں ہر ہاشمی "سید" کہلاتا تھا مگر اب عرب و عجم میں لفظ "سید" فاطمی اولاد کے لئے مختص ہوگیا ہے اور یہی عوام و خواص میں معروف ہے۔

فقیر ابو محمد عارفین القادری
Muhammad Arfeen
About the Author: Muhammad Arfeen Read More Articles by Muhammad Arfeen: 4 Articles with 10894 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.