حضرت آدم علیہ السلام صرف پہلے انسان
ہی نہیں بلکہ وہ خدا کے اولین پیغمبر بھی تھے ۔آپ کو خالقِ کائنات نے
انسانی زندگی گزارنے کا طریقہ بذریعہ وحی سکھایا۔ تب سے آج تک کچھ عمل وہ
ہیں جو حرام قرار دئے گئے ہیں،جنہیں محرمات ابدیہ کہا جاتاہے۔ مثلاً قتل،
زنا، شرک ، سود وغیرہ ان محرمات میں شامل ہیں۔ روز اول سے آج تک سو د حرام
رہا ہے۔کسی دور میں کبھی بھی کسی پیغمبر نے کسی قوم کے لئے سود کو حلال
قرار نہیں دیا۔ چنانچہ اﷲ کی آخری کتاب جو سارے انسانوں کے لئے ہدایت ہے
نظامِ زندگی کے طور پر آخری نبی سید المرسلین کے اوپر نازل فرمائی گئی۔ اس
میں ربوٰ(سودکو عربی میں ربوٰ کہا جاتاہے) سود کی حرمت ہمیشہ کی طرح برقرار
رکھی گئی۔ بلکہ قرآن مجیدمیں تو اس قدر ہولناک وعید ہے کہ سود خور طبقہ کو
اﷲ کی طرف سے اعلان جنگ کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں
۔ بنی اسرائیل کے انبیاء کرام کی سخت تنبیہ کے باوجود یہود نے مختلف
خوبصورت الفاظ میں سود کو عملاً حلال کر لیا تھا۔ اس لئے آخری نبی پر جو
کلام الٰہی نازل ہوا ہمیشہ کے لئے غضب خدا وندی ، لعنت اور جنگ کی وعید ثبت
کر دی گئی۔اس کے پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ترجمہ : اے لوگو، جو
ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہاراسود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ
دواگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجاؤکہ
اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔( سورہ البقرہ،آیت
۲۷۸،۲۷۹)
اس آیت کے نازل ہوتے ہی حضور ﷺ نے عرب کے ان قبیلوں کو جو سود کھاتے تھے ،آگاہ
کر دیا کہ اگر وہ سودی کاروبار اور لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف
جنگ کی جائے گی۔ بعض فقہا نے لکھا ہے ،جو سود خوری اور اس کے کاروبار سے
باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ بعض فقہانے لکھاہے ،اسے قید کرنے
پر اکتفا کیا جائے جب تک وہ سودی کاروبار سے بازنہ آجائے۔ سودی خرابیوں کا
ذکر قرآن میں متعدد جگہ آیا ہے۔ ہر طرح کے سود سے منع کیا جارہا ہے۔ زمانہ
جاہلیت میں سود کا یہ رواج عام تھا کہ جب ادائیگی کی مدت آجاتی اور ادائیگی
ممکن نہ ہوتی تو زیادہ سود کے ساتھ مدت بڑھادی جاتی۔ یہاں تک کہ وہ رقم
دوگنی تین گنی سے بھی زیادہ ہوجاتی جسے سود مرکب کہا جاتا ہے۔ یعنی موجودہ
Compound Interestجو پوری رقم پر لاگو ہوتا ہے۔ اس ظالمانہ نظام کو اسلام
نے ختم کر دیا اور حکم دیا ،اگر اس سے باز نہ آئے تو اس عذاب میں مبتلا کئے
جاؤگے جو کفار کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ دنیا کے لوگ دولت کی فراوانی کو
کامیابی سمجھتے ہیں خواہ اس کے لئے جائز ناجائز ،حلال و حرام کی تمیز کئے
بغیر حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔مسلمانوں کو آگاہ کیا جارہا ہے اس میں
فلاح نہیں ۔فلاح متقی بننے یعنی خدا کے خوف میں ہے۔ سودی خرابیوں سے بچنے
کے لئے زبردست تاکید ہے اور احادیث و قرآن میں اس کی خرابیوں اور وبال سے
آگاہی دی گئی ہے۔ شرک کے بعد سود خوری کے لئے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف
سے جس لب و لہجے کا استعمال کیا گیا وہ کسی اور گناہ کے متعلق نہیں کیا گیا۔
اعلان جنگ کی بات کوئی معمولی بات نہیں ہے۔حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت
ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے ، سود کی تحریر لکھنے
والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اگرچہ
مختلف مراتب کے ہیں مگر نتیجتہً گناہ میں سب برابر کے شریک ہیں۔(مشکوٰۃ،
مسلم ۲/۲۷)
سود کا وبال:
سود کے وبال ۷۳قسم کے ہیں۔ سود کی خرابیوں کے۷۳ قسمیں ہیں۔ ان خرابیوں میں
سے ادنیٰ اور کمتر قسم ایسی ہے جسے کوئی شخص (معاذ اﷲ) اپنی ماں کے ساتھ
منھ کالا (زنا) کرے۔ (المستدرک۲/۳۷) حضرت عبداﷲ بن مسعور رضی اﷲ عنہ سے
مروی حدیث پاک میں سو دکے بارے میں سخت وعید کے الفاظ آئے ہیں۔حضرت عبداﷲ
بن سلام رضی اﷲ عنہ حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں: ایک درہم کوئی سود حاصل کرے،
اﷲ کے نزدیک مسلمان ہونے کے باوجود ۳۳ بار زنا کرنے سے بھی زیادہ بڑا جرم
ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی :۴/۳۹۲) بخاری و مسلم کی ایک روایت میں رسول اﷲ ﷺ
نے امت کو سات ہلاک وبرباد کرنے والی چیزوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور
ان سات چیزوں میں (۱) شرک(۲) جادو(۳) قتل ناحق(۴) میدانِ جنگ سے فرار(۵)
تہمت لگانا(۶)یتیم کا مال ناحق کھانا(۷) سود خوری کا ذکر صریح سے
فرمایا(بخاری جلد اول ، حدیث ۳۸۸)۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ حضور ﷺ سے
روایت کرتے ہیں کہ چار شخص ایسے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم
فرمالیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں
کا ذائقہ چکھائیں گے۔(۱)عادی شرابی(۲) سود کھانے والا(۳)ناحق یتیم کا مال
اڑانے والا(۴) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا(المستدرک : ۳۷/۲)
سود کے۷۲ گناہ ہیں۔ ان میں سب سے چھوٹا گناہ اس شخص کے برابر ہے جو مسلمان
ہوکر اپنی ماں سے زنا کرے ۔ اور ایک درہم سود کا گناہ اور زیادہ ۳۰ زنا سے
زیادہ بدتر ہے۔ حضرت حنظلہ (شہید ِ اسلام، غسیل الملائکہ، جن کو فرشتوں نے
غسل دیا تھا) کے صاحبزادے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ
نے فرمایا : سود کا ایک درہم جسے کوئی جانتے ہوئے استعمال کرے ۳۶ مرتبہ زنا
سے زیادہ شدید (بڑا) جرم ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ
کے رسول ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ کوئی بھی ایسا نہ
ہوگا جو سود کھانے والا نہ ہو اور اگر کوئی سخت احتیاط کرے گا بھی کہ سود
اپنے اختیار سے نہ کھائے تب بھی سود کے غبار اور اثر سے محفوظ نہ رہ سکے
گا۔(رواۃ احمد، ابوداؤد و نسائی)
چودہ سو سال پہلے اﷲ کے بھیجے ہوئے بشیر ونذیر نبی ﷺ نے جو پیشن گوئی
فرمائی تھی آخر کار وہ گھڑی آن پہنچی کہ آج روئے زمین پر (کچھ ہی متقی
لوگوں کو چھوڑ کر) پوری اولادِ آدم اس لعنت میں گرفتار ہے ۔ عالمی تجارت کی
بنیاد سود ی بینک پر منحصر ہے ۔ تجارت ہو زراعت ہو یا صنعت یا مزدوری ہو ۔
اس سود سے کسی نہ کسی پہلو سے ضرور ہی غبار آلود ہے۔ تجارت کا کوئی شعبہ
بھی بغیر سودی بینک کے سہارے آگے نہیں بڑھتا۔کھلے سودی کاروبار کے علاوہ
یہود اور اہرمن نے گھٹہ جوڑ کر کے اس سود کوایسے حسین لفظوں میں ڈھال کر
میٹھی گولی کی شکل دے دی ہے جیسے قتل اولاد کو خاندانی منصوبہ بندی، پریوار
کلیان یا فیملی پلاننگ کی پر فریب اصطلاحوں میں چھپا کر نہ صرف اس بدترین
درندگی کو گوارا کر لیا ہے بلکہ اسے ترقی اور روشن خیال بنا دیا گیا ہے اور
پوری دنیا ئے انسانیت ظہر الفسا د فی البر و البحر کی چکی میں پس رہی ہے
اور کراہ رہی ہے۔
سود اور بدکاری قہر الہٰی کا موجب:
Indian Centre for Islamic Financeکے مطابق آج دنیا ایک معاشی اور مالیاتی
بحران سے دوچارہے ۔ لندن، پیرس، نیو یارک، ہانگ کانگ ، سنگاپور اور سوئٹر
لینڈ و امریکہ میں حاشیہ پر زندگی گزارنے والے عوام نے اپنی ضرورتوں
اورمکانوں کے لئے قرضہ لیا اور پھر ان پر سود در سود کی ادائیگی میں ناکامی
کے پیچیدہ عمل نے بڑے بڑے سرمایہ داراداروں اور بینکوں کو دیوالیہ ہونے کے
دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اس بحران نے ایک طرف جدید معاشی سودی نظام کے
منفی اثرات اور نقصاندہ نتائج کو دنیا کے سامنے ابھار کرپیش کر دیا ہے اور
دوسری طرف اس نے اسلامی نظامِ معیشت جو کہ بلا سودی طریقہ پر مبنی ہے ،
پوری دنیا کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور اس پر عمل کرنے دعویٰ پیش کیا
ہے۔ سود کی بے برکتی اور نحوست کے وبال کو قرآن مجید نے اس طرح بیان
فرمایاہے:اﷲ تعالیٰ سود کو ہلاک (مٹاتا) کرتا ہے اور بڑھاتا ہے خیرات کو
اور اﷲ تعالیٰ دوست نہیں رکھتا ہے ، پسند نہیں کرتا ہے ہر ناشکرے گنہگار کو
(القرآن، البقرہ آیت ۲۷۶) ۔سوداور صدقہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔صدقہ
میں اپنا مال دوسرے کو دیا جاتا ہے اور سود میں دوسرے کا مال بلا مالی
معاوضہ کے لے لیا جاتا ہے۔ صدقہ کی غرض رضائے الٰہی اور ثوابِ آخرت ہوتی ہے
جبکہ سود کی غرض اﷲ کے غضب سے نڈر ہوکر اپنی دولت بڑھانے کا لالچ ہوتا
ہے۔نتیجہ کا فرق قرآن بتاتاہے۔ اﷲ سود سے حاصل ہونے والے مال و دولت کی
برکت و خیر کو ختم فرما دیتاہے جبکہ صدقہ کرنے والے مال کو اور اس کی برکت
کو بڑھا دیتاہے۔ سودخور محروم کردیا جاتاہے۔ اﷲ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں : سود
کا مال اگرچہ بڑھ جاتا ہے مگر اس کا انجام ہمیشہ بے برکتی اور کمی کی شکل
میں آتاہے۔ چونکہ سود حرام ہے اور حرام میں برکت نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے
رسول ﷺ نے فرمایا: حلال گرچہ کم ہو لیکن اﷲ نے اس میں برکت رکھی ہے۔
بے حیائی کا وبال:
بے حیائی اور زنا سے سو طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔خاندان و معاشرہ
بربادہوتاہے ۔مرد اور عورت کے تعلقات میں تناؤ اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔
نسل و نسب کی خرابی پیدا ہوتی ہے، آزادانہ بے حیائی ،زنا کاری سے جو
بیماریاں پیدا ہورہی ہیں وہ کینسر سے بھی خراب ہوتی ہیں۔ AIDSاورHIVکے
بیمار دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، خاندانی رشتہ دار بھی ان سے ڈر اور خوف
کی وجہ سے منھ موڑ لیتے ہیں کہ کہیں وہ اس کے شکارنہ ہوجائیں ۔ ارشاد رب
العزت ہے: زنا کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے بہت بڑا فعل ہے اور بڑا
ہی برا راستہ ہے۔(القرآن سورہ بنی اسرائیل ،آیت ۳۲) دوسری جگہ ارشاد باری
تعالیٰ ہے: مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم
گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے۔ اﷲ کو ا ن کے کاموں کی خبر
ہے ۔اور مومن عورتوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرم گاہوں
کی حفاظت کریں۔ (القرآن سورہ نور،آیت ۳۰)اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب کسی
قوم میں سود اور زنا عام ہوجائیں تو وہ خود کواﷲ کے عذاب کا مستحق بنا لیتی
ہیں۔آج یہی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ سود کے لین دین اور بدکاری کے فروغ نے
Whatsapp،فیس بک وغیرہ وغیرہ جس میں ۸۰ فیصد سے زیادہ ننگی تصویریں دیکھی
جاتی ہیں(حالیہ اخباری رپورٹ)۔ اس کا اثر سماج میں دیکھا جا رہا ہے ۔ ہر
روز ریپ کیس اخبارات اور ٹی وی میں سنے اور دیکھے جارہے ہیں۔ اچھے اور نیک
لوگوں پر لرزہ طاری ہوجاتاہے۔ عام لوگوں کے لئے یہ روز کی روٹین میں شامل
ہوگئی ہے۔ ہماری انہی بد اعمالیوں کا خمیازہ قدرتی آفات کی شکل میں ظاہر
ہورہی ہیں۔ احادیث کی صراحت کے مطابق کسی قوم ، خطے اور معاشرے پر اجتماعی
آفت و عذاب کے آنے کا ایک بنیادی سبب سودی کاروبار ، سودی لین دین اور بے
حیائی و بے شرمی ، زناکاری کا عام چلن ہوتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں فحاشی
کا جو سیلاب بلا خیز آیا اور چھایا ہوا ہے وہ قرب قیامت کی علامت ہے جس کی
پیشن گوئی احادیث مبارکہ میں جا بجا فرمائی گئی ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا
گیا ہے کہ ایسی عورتیں کثرت سے ہوں گی جو بظاہر لباس میں ہوں گی مگر لباس
اتنا باریک ہوگا اور چست ہوگا کہ اس سے جسمانی خد و خال اس درجہ نمایاں ہوں
گے کہ درحقیقت وہ برہنہ ہوں گی۔ وہ خود مردوں کی طرف مائل ہوں گی اور مردوں
کو بھی اپنی جانب مائل کریں گی۔ ایسی عورتیں جنت کی خوشبو سے بھی محروم کر
دی جائیں گی۔ (مسلم جلد اول /۳۹۴) یہی وجہ ہے بے حیائی، بے پردگی اور
بدکاری کی لعنت اﷲ کے عذاب کو دعوت دیتی ہے۔ اسلام نے حیا اور پردہ کا
معقول انتظام انسانیت کو دیا ہے اور ہر راستہ بے حیائی کا بند کر دیا ہے۔
قرآن مجید نے زنا کو صاف الفاظ میں بے حیائی کا عمل اورناپسندیدہ قرار دیا
ہے۔ بے حیا انسان کے لئے اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا اور ایمان کے
درمیان گہرا رشتہ ہے ۔بے حیا مومن نہیں ہوسکتا اورمومن بے حیا نہیں
ہوسکتا۔(الادب المفردللاامام بخاری،باب اطبا)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شرم و
حیا کے بغیر انسان کی زندگی ایسی ہے جیسے چھلکے کے بغیر لکڑی یعنی انسان
بالکل ننگا اور بے پردہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ بہت ساری برائیوں میں گرنے سے
روکنے والی چیز حیا ہوتی ہے ۔ حیا ایمان کا حصہ ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
بے پردہ ہونے سے بچو ، یقینا تمہارے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں جو تم سے صرف اس
وقت الگ ہوتے ہیں جب تم قضائے حاجت کے لئے جاتے ہواور جب تم اپنی بیوی کے
پاس جاتے ہواس لئے ان فرشتوں سے حیا کرو اور ان کی عزت کرو۔
اس دنیامیں ہمارا وجود عارضی اورچند روزہ ہے۔ یہاں کی رنگینیاں محض چندروزہ
ہیں،ابدی زندگی صرف آخرت کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کامیاب دراصل وہ ہے
جو وہاں جہنم کی آگ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔(القرآن، آل
عمران،آیت ۱۸۵)
ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارا نفس ، نفس مطمئنہ ہو۔ اﷲ تبارک و
تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نفس کی لغزشوں ، شرارتوں اور شیطان کی چالوں
سے محفوظ رکھے۔ ہماری غلطیوں پر پردہ ڈال دے اور خطاؤں سے درگزر فرمائے۔
آمین!آمین!! |