میرے بچپن کی بات ہے جب پاکستان میں صرف
ایک ٹی وی چینل تھا سارا گھر اسی کے پروگرام دیکھتاتھا زیادہ سے زیادہ
اختلاف یہ ہوسکتا تھا کہ کوئی حالات حاضرہ کے پروگرام کے وقت اٹھ جاتا تھا
کیونکہ اُسے دلچسپی نہیں ہوتی تھی یہی حال ڈرامے یا دوسرے پروگراموں کا تھا۔
اس دور کی خاص بات یہ تھی کہ ہر پروگرام ،ہر ڈرامے کو خاص احتیاط سے تیار
کیا جاتا تھا اشتہارات کے علاوہ دو پروگراموں کے بیج کے دورانیے میں فلرز
کے طور پر گیت ،نغمے اور قومی نغمے چلائے جاتے تھے مقبول نغمے بار بار بھی
چلائے جاتے تھے اور بڑے شوق سے سنے جاتے تھے۔ یہی گیت سکولوں اور کالجوں
میں بڑے شوق سے گائے جاتے تھے اور وطن کی محبت کا بھر پور اظہار کرنے والے
یہ گیت لہو گرما دیا کرتے تھے ۔ جیوے جیوے پاکستان، سوہنی دھرتی، تیرا
پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے، میں بھی پاکستان ہوں، وطن کی مٹی گواہ رہنا
، اپنا پرچم اپنا قائداعظم ، اور جُگ جُگ جیے اس طویل فہرست میں سے چند ایک
گیت ہیں۔ ساتھ ہی وقتاََ فوقتاََ کلام اقبال بھی نشر ہوتا رہتا تھا یوں
تفریح کے ساتھ ساتھ قومی جذبہ بھی فروغ پاتا تھا۔ اس کے لیے نہ کسی موقع کا
انتظار کیا جاتا تھا اور نہ محل ڈھونڈا جاتا ، وطن سے محبت کسی موقع محل کی
پابند نہیں ہوتی تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ میڈیا بے تحاشا پھل پھول گیا
موضوعات بارش کی طرح برس گئے، ڈرامہ صبح سے شام تک چلنے لگا، حالات حاضرہ
کے پروگرام میدان جنگ بن گئے، موسیقی بے ہنگم شور میں تبدیل ہوگئی ایسے میں
جذبہء حُب الوطنی اور قومی شعور سب کچھ ایک طرف ہوکر رہ گیا اور کمرشل ازم
ایک طرف ۔ اب ڈراموں ،سٹیج شوز اورمارننگ شوز میں کسی میں زبان کا احساس ہے
نہ بیان کا، یہی حال قومی نغموں کے ساتھ بھی کیا گیا۔ دل دل پاکستان اور
میرا پیغام پاکستان شاید آخری ایسے گیت تھے جو عوام میں ہر سطح پر مقبول
ہوئے۔ ان مقبول گیتوں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو خاص موقعوں پر ریلیز ہوئے
لیکن یہ کام تسلسل سے ویسے بھی جاری رہا، جو کہ اب اس طرح سے نہیں ہو رہا۔
16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پشاور پر دہشت گرد حملے کے بعد آئی ایس پی آر
نے بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے ریلیز کیا اس نے مقبولیت کے
نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس انتہائی اندوہناک حادثے کی برسی پر بھی کچھ ترانے
بنائے گئے جن میں مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھاناہے اور یہ جنگ بھی ہم ہی
جیتیں گے شامل ہیں ۔ اِن گیتوں نے فوج اور حکومت کے ارادوں کو دنیا تک
پہنچایا اور یہ باور کرایا کہ ہم ہر محاذ پر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں۔
بات گیتوں اور نغموں کی نہیں بات اُن جذبات اور احساسات کی ہے جو قوم میں
ان سے جاگتے ہیں اے پی ایس کے شہدا کی برسی کے موقع پر یادگار شہدا کے سٹیج
پر کھڑے بچے قوم اور دنیا کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ دشمن سے نہیں دشمن
اُن سے ڈرتا ہے اور میں سوچ رہی تھی کہ اگر الفاظ ایسے ہی قوم پر اثر کریں
اور ایسے ہی جذبات دلوں میں پیدا ہوں تو کچھ بعید نہیں کہ ہم سیدھے رستوں
پر چل پڑیں۔ اس پہلوپر اگر سنجیدگی سے کام کیا جائے اور ہم اس ذریعے کو بھی
بھر پور طور پر استعمال کریں تو کیا ہم مثبت رویوں کو رواج نہ دے سکیں گے ۔
لیکن افسوس ہی اس بات کا ہے کہ ہم اپنے ذرائع کو استعمال کیے بغیر نتائج کی
توقع رکھتے ہیں۔ ہم یہ تو ضرور کہہ رہے ہیں کہ اے پی ایس پر حملے نے پوری
قوم کو یکجا کیا بالکل ایسا ہی ہے ہم نے دہشت گردی کے خلاف کم از کم ایک
متفقہ موقف اپنا لیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اب بھی بہت سارے معاملات
پر ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنا کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بھی فرقے
اور مذہب کے نام پر کئی فساد ہوئے ایسے میں خوش فہمی میں مبتلاء ہو جانے سے
بہتر ہے کہ اس میدان میں مزید اور ہر طرح سے کام کیا جائے۔ ہمارا الیکٹرانک
اور سوشل میڈیا اگر سنجیدگی دکھائے تو ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بیٹھے لوگ مثبت اور موثر پیغامات دیں۔ آج کل مزاحیہ خاکوں کا
ایک بخار سب کو چڑھا ہوا ہے اگر انہی کو حب الوطنی کا جذبہ ابھارنے کے لیے
استعمال کیا جائے تو کچھ بعید نہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے خاکے چند لوگوں کو ہی
سہی سیدھے راستے پر ڈال دیں۔ تاریخ میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جب لکھنے
والوں نے قوموں کی سوچ کا دھارا موڑا خود ہماری تاریخ میں اقبال کی شاعری
نے جو کردار ادا کیا وہ بذات خود ایک تاریخ ہے۔ آج بھی ہم اگرجنگ ستمبر کی
طرح اس محاذ پر بھی ڈٹ جائیں تو ہم قومی سوچ میں تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔
تبدیلی کے لیے ہر ہر زاویے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی سے لے کر جہالت
اور اندرونی سے لے کر بیرونی دشمن تک کے خلاف فتح میں ہی ہماری بقاء ہے اور
اس فتح کے لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے محاذ پر ڈٹا رہے ۔ہمیں
حب الوطنی اور یگانگت و یکجہتی کے جذبے کو فروغ دینا ہوگا ۔جب ہم میں سے ہر
ایک خود کو ملک کی بہتری اور ترقی کے لیے ذمہ دار قرار دے گا اور اس ذمہ
داری کو نبھائے گا تو ہی ہم اس مائنڈ سیٹ کو شکست دے سکیں گے جس نے ہمارے
ملک کے امن اور چین کو تباہ کر رکھا ہے ۔جب حکومتی اہلکا ر سے لے کر فوجی
جوان تک، ڈاکٹر انجنئیر سے لے کر مزدور تک اور ادیب اور شاعر سے لے کر
فنکار اور مغنی تک ہر سُر اور ہر لے تک سب بیک آواز اس جنگ کو جیتنے کے عزم
کا اظہار کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم کامیاب نہ ہوں۔ |