تیرے سائے میں کوئی اوربھی تھے۔
(Muhammad Asif Mehmood, Karachi)
انسانی شخصیت کے چند ایک پہلووں پر بات ہے |
|
بانو قدسیہ اشفاق صاحب سے سوال کرتی ہیں کہ"
آپ نے شائد یہ محسوس کیا ہوکہ اگر بہت بڑا درخت ہو اور اس کے نیچے اسی درخت
کی پنیری لگ جائے تو،تاوقتیکہ اسے نکال کر کسی دورسری جگہ نہ لگائیں، وہ
بڑا درخت نہیں بن پاتا، وہ پنپتا نہیں۔ جب کسی گھر میں ایک چھتنار درخت
پیدا ہوجائے اور وہ بہت بڑا آدمی بن جائے چاہے وہ کسی بھی فیلڈ کا ہو، تو
اس گھر میں" بونے" جنم لینے لگتے ہیں اور انکی شخصیتوں میں پنپنے کی وہ
صلاحیت نہیں رہتی۔وہ بات نہیں بن پاتی۔آپکے ہوتے ہوئے میرا نہیں خیال کہ
ہمارے گھر میں کوئی اور اتنی قدآور شخصیت پیدا ہوسکتی ہے۔ جیسے مجھے اس
احساس سے کئی بار ٹکرانا پڑا کہ میں اپنی اولاد کے لیے سب سے بڑا مقابلہ
ہوں، انکے لیے کمپیٹیشن ہوں۔وہ چیز جس سے انکو باہر نکل کر سامنا کرنا تھا
وہ ان کو گھر میں ہی مل گئی۔ جس سزا کو انھوں نے باہر جھیلنا تھا گھر پر ہی
جھیلنا پڑا،۔ وہ جب مجھ سے بات کرتے ہیں تو ڈرے ہوئے رہتے ہیں کہ ہم ایک
بڑی عورت سے بات کر رہے ہیں۔ہمیں الفاظ کا چناو دیکھنا ہوگا۔وہ میرے پاس
بچوں کی طرح نہیں آتے۔ بانو قدسیہ یہاں اشفاق صاحب سے دوبارہ مخاطب ہوتی
ہیں اور پوچھتی ہیں کہ کیا کبھی رات کے پچھلے پہر، کسی تنہائی کے دوران،
کسی چائے خانے میں بیٹھے ہوئے، استغراق کی حالت میں آپ کو یہ خیال گزرا کہ
آپ بھی ایسے ہی چھتنار درخت ہیں اور آپ نے تین شخصیتوں پر کمبل ڈال رکھے
ہیں؟؟؟ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ ایسا تلخ اور کڑوا سوال شائد ہی میری زندگی
میں مجھ سے کسی نے کیا ہو۔ اور میں بہت ندامت کے ساتھ اس بات کا اقرار کرتا
ہوں کہ میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔اور نہ ہی ایسا امکان ہے کہ کبھی
ایسا سوچ سکوں۔میں بس یہی سوچتا رہا کہ بس میری زات ہو میرا نام ہو میری
رونمائی ہو۔ مگر ایسا شعوری طور پر نہیں لاشعوری طور پر ہوا ہے،۔ یہ گفتگو
اپنے اندر ہمارے معاشرے کے کئی ایسے پہلو لیے ہوئے ہے جن سے اشفاق احمد کی
طرح ہم شعوری اور لاشعوری طور پر ناآشنا ہیں۔ ہم کئی حوالوں سے ایسے ہی
چھتناور درخت ہیں اور ایسے کئی چھتناور ہمارے نیچے قدآور درخت بننے کو مچل
رہے ہوتے ہیں مگر ہمارے روائتی کم نظری و کم شناسی ایسی کئی جوہروں کو لعل
بننے سے روک دیتی ہے۔ ایک باپ ، ایک کامیاب انسان چاہے وہ کاروباری حوالے
سےہو یا کسی بھی حوالے سے، اپنے بہت سےخواب اپنی آنے والی نسل میں انکی
تعبیر ڈھونڈنے لگتا ہے۔ وہ اپنی لگائے ہوئی پنیری کو اپنے نیچے ہی قدآور
بنتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے یہ گوارہ نہیں کہ میں اس درخت کو نئی جگہ دوں،
نیا ماحول دوں اور وہ اس پنیری کو اپنی اور شائد معاشرتی قائم کردہ حدودو
قیود میں رکھ کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی خواہش کر بیٹھتا ہے۔ جیسے اشفاق
صاحب فرماتے ہیں کہ یقینا شعوری یا لاشعوری طور پر ایسا ہوا مگر سوال یہ کہ
اس پنیری کا مستقبل کیا ہے؟ دونوں صورتوں میں وہ مستقبل کی قدآور شخصیت جسے
ہم وہ مناسب موقع نہ دےسکے مناسب سہولیات سے مزین نہ کرسکے، اسکی تلافی
کیسی ہوسکے گی؟ اس بات میں دو رائے نہیں ہیں کہ کسی بھی خاندان یا گھر کا
بڑا چاہے گا کہ اس کی اولاد نام پیدا کرے۔ لیکن کیا واقعی وہ ایسا چاہ رہے
ہوتے ہیں؟ اگر صورتحال ویسی ہو جیسی یہاں بیان کی جارہی ہے تو قصوروار کسے
ٹھہرایا جائیگا؟؟ شائداس چیز کے جیسے میں نے پہلے عرض کی بہت سے پہلو ہو
سکتے ہیں۔ البتہ بذات خود چھتناور یا قدآور ہونا بھی ایک الگ موضوع کا
متقاضی ہے۔ ضروری نہیں چھتناور درخت کے نیچے لگنے والی پنیری میں بھی وہ
صلاحیت موجود ہو جتنی اس کو سایہ دینے والے میں تھی۔ ایسے درخت کی مثال ہر
بڑے شخص کے لیے بھی نہیں دی جاسکتی، کیوں کہ ہر کوئی قدآور نہیں ہوتا۔ درخت
کے مقابلے پر کسی شخصیت کی تعمیر اور اسکی پنیری میں تعمیریت کا داخل کرنا
ایک جہد مسلسل ہے۔ درخت اپنی غذا قدرتی طور پر حاصل کرتا ہے مگر شخصیت کی
تعمیر میں ایک پورا معاشرہ اور اسکے بہت سے بیرونی عوامل داخل ہوتے ہیں۔
بعض اوقات واقعی کوئی شخص اپنی زات کی تکمیل کرتے کرتے، اپنی محنت اور
صلاحیت سے قدآور بن جاتا ہے مگر معاشرہ ہی اسے وہ مقام نہیں دیتا جس کا وہ
حقدار ہے۔ مرحوم جاوید اقبال، اپنی زات میں ایک ادارہ ایک خوبصورت زہن اور
روشن دماغ کے ساتھ ساتھ عصرَ حاضر اور خاص کر مسلم امہ کے بہترین نبض شناس
جاوید اقبال نہ بن سکے۔ فرزنداقبال ہی رہے۔ چھتناور نے قدآور بننے کا ہر
مرحلے پر موقع دیا مگر معاشرہ اُس حیثیت اور اس مقام کا تعین نہ کر سکا۔
آخری وقت تک مرحوم و مغفور کو گلہ ہی رہا کہ پاکستانی قوم انھیں وہ مقام نہ
دے سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ یہاں ضمنا یہ سوال بھی آسکتا ہے کہ کیا سوسائٹی
ہی کسی انسان کے شخصیت کے قدآور ہونے کا فیصلہ کریگی؟ میری ناقص رائے میں
شائد فی الحال ایسا ہی ہے۔ اور اس اصول کو ماننے کے ساتھ ساتھ ہمیں معاشرے
میں اس عمل اور خیال کو فروغ دینا ہوگا کہ زہنی آسودگی اور خیال آفرینی
ہماری شخصیت کی تعمیر میں استعمال ہونےوالے عنصر ہیں۔ جب یہ عناصر عملی طور
پر کسی شکل میں ظاہر ہوں توانسان تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔ ہمیں ایسے ہے
بڑے اور چھتناوردرخت درکار ہیں جو چاہے تو شعوری یا لاشعوری، پنیری کو وہ
ماحول دیں جو انکی ضرورت ہے۔ راستہ بغیر راہنما کے طے کرنا منزل سے دور بھی
کر سکتا ہے۔ چھتناور ہر حال میں درکار ہیں۔ پنیری اس حقیقت سے کبھی فرار
نہیں لے گی۔ |
|