حکایات الصالحین

روضتہ الاحباب میں حضرت سعد بن وقاص سے منقول ہے کہ حضرت صفیہ بنت عیس خادمہ تھیں حضرت امیر المومینن امام الاشجعین عمرابن خطاب ؓ کی ۔ مدینہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں۔ نہایت صابر اور مستقل مزاج تھیں۔ اپنا واقعہ خود بیان کرتی ہیں کہ میں ایک روز حضور سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سلام کیا اس کے بعد میں نے کہا۔ یا رسول اللہ آج ایک تعجب کی بات میں نے دیکھی ہے حضور ﷺ نے فرمایا وہ کیا ہے میں نے کہا کہ میں صبح لکڑیاں لینے گئی تھی جب میںنے بوجھ باندھ لیا تو میںنے اندازہ کیا کہ میں اسے اٹھالوں گی۔ لیکن بوجھ زیادہ تھا۔ سوچنے لگی کیا کروں؟ اتنے میں میں نے ایک سوار دیکھا کہ آسمان سے زمین پر آیا اور مجھے سلام کیا۔ اس نے یہ محسوس کیا کہ میں وہ لکڑیاں نہیں اٹھا سکتی۔ اس نے کہا۔ یا صفیہ وہ لکڑیاں پتھر نہ چھوڑو اور اس نے پتھر سے کہا کہ اے حجر یہ لکڑیاں عمر ؓ کے گھر تک لے جا۔ پتھر معہ لکڑیوں کے روانہ ہوا۔ اور اس نے وہ لکڑیاں حضرت عمر ؓکے گھر تک پہنچا دیں۔ اس کے بعد وہ سوار غائب ہوگیا سرکار دو عالم ﷺ اٹھے اور صفیہ کے ساتھ عمر ؓ کے گھر کی طرف آئے۔ پتھر کے آنے کا اثر دیکھا اور فرمایا۔ الحمد للہ حق تبارک و تعالی نے میری امت میں سے ایک عورت کو مریم کے درجہ پر پہنچایا۔

حضرت شیخ ا مسام الدین تریزی بیان فرماتے ہیں کہ جیلان کا ایک باشندہ قاسم بن محمود طالب معرفت تھا۔ اور قرآن شریف حفظ کرنا چاہتا تھا لیکن دماغ کی کمزوری کی وجہ سے وہ اس مقصد میںکامیاب نہ ہوسکا۔ ایک روز وہ خدمت میں حضرت غوث الثقلین ؓ کے حاضر ہوا۔ حضرت نے کھجور منگا کر چبائی اور اس کو اس کے منہ میں ڈال دیا۔ پھر برکت کی دعا دی۔ اس کھجور کو کھاتے ہی قاسم بن محمود کے دل میں نور باطن چمکنے لگا اور اس نے چند روز میں قرآن شریف حفظ یاد کرلیا۔

روضتہ الشہدامیں حضرت جابربن عبد اللہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ امیرالمومنین اما م المسلمین حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالے وجہہ جس دن شہید ہوئے میں اس دن کوفہ میں موجود تھا۔ ۱۹ رمضان کو حضرت امیر ؓ مسجد میں تشریف لائے۔ اور نماز میں مشغول ہوگئے جب اول سجدہ بجالائے ظالم ابن ملجم نے قاتلانہ حملہ کیا۔ پہلی تلوار مسجد کے طاق پر لگی اور سرا ٹوٹ گیا۔ جو نہی حضرت نے سرسجدہ سے اٹھایاابن ملجہ نے دوسرا وار کیا۔ حضرت شدید طور پرزخمی ہوگئے۔ لوگوںنے ابن ملجہ کو گرفتار کر لیا حضرت امیرؓ کی نظر اس پر پڑی۔ فرمایا شاید میں برا امیر تھا۔ ا س نے کہا معاذ اللہ یا امیر المومنین حضرت امیر نے فرمایا اسے قید میں لے جاؤ لیکن جب تک میں زندہ ہوں کھانے پینے کے سلسلہ میں اسکو تکلیف نہ ہو۔ حضرت امیر اپنے دست مبارک سے اپنے سر کا خون پونچھتے جاتے۔ اور فرماتے تھے میں اسی حالت میں سرکار دوعالم ﷺ کے سامنے جاؤں گا اور اسی حالت میں فاطمہ زہراؓ سے ملوںگا۔ پھر فرمایا اے رب تو علیم وبصیر ہے کہ جس دن سے میں نے اول جوانی میں سرکار دو عالم کے ساتھ ادا کی اس دن سے آج تک سیر کرے مجھے خواب غفلت میں ہوتا ہو ا نہیں پایا۔ اے رب! میں جس دن سے تیرے حبیب کے ہاتھ پر ایمان لا یا جو کچھ تو نے فرمایا۔ بجا لایا۔ اور جس بات سے منع کیا اس سے پرہیز کیا۔ حضرت امام حسن ؑاور حضرت حسین ؑ اشکبار تھے حضرت امیر نے انکو قریب بلایا۔ سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا صبر کرو میں تمہاری ماں فاطمہ زہرؓاکے پاس جاتا ہوں۔ اسی شب کو میں نے سررکار دو عالم ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے سرکار اپنی آستین سے میرے چہرے کا غبار صاف فرما رہے تھے کچھ دیر کے بعد عمر بن طاہر جراح حاضر ہوا۔ اس نے زخم کا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ جس تلوار سے حملہ کیا گیا تھا وہ زہر میںبجھی ہوئی تھی۔ لہذا زخم مرہم پذیر نہیں ہے۔ ۲۱ رمضان کو حضرت امیر نے جام شہادت نوش کیا جس حجرے میں حضرت امیر ؓ کا وصال ہوا تھا وہ دلآویز خوشبووں سے مہک رہا تھا۔ مسلسل لا الہ الا اللہ کی صدائیں آرہی تھیں۔ حالانکہ امیر جوار رحمت میں پہنچ گئے تھے۔ ناگاہ ایک آواز آئی کوئی کہتا ہے سب باہر جاؤ۔ اس آفتاب معرفت کو تنہا چھوڑدو۔ اس آواز کو سنکر سب لوگ حجرے سیے باہر چلے گئے۔حجرے کا دروازہ خودبہ خود بند ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد آواز آئی۔ نماز جنازہ کی تیاری کرو۔ اس کے بعد حجرے کا دروازہ خود بخود کھل گیا۔ سیدنا امام حسنؑ اور امام حسین ؑاور دیگر خدام حجرے میں حاضر ہوئے حضرت امیرؑ کو شاندار اور خوبصورت کفن میں لپٹا ہوا دیکھا۔ باقاعدہ نما ز پڑھی گئی اسی حجرے میں ایک نورانی تختی پائی گئی۔ جس پر بخط کوفی لکھا ہوا تھا۔ اس آفتاب معرفت کو نجف میں دفن کرو۔ وہاں ایک سفید پتھر ملے گا جو نور سے چمک رہا ہوگا۔ اس پتھر کو ہٹاؤ وہاں کشادگی پاؤ گے۔ وہاں اس باب علم کو دفن کرو۔ ہاتف غیبی کی اس ہدایت پر عمل کیا گیا حضرت امیر ؑ کا جنازہ لیکر نجف پہنچے وہاں ایک سفید پتھر نظر آیا جس سے نور چمک رہا تھا۔ اسے ہٹایا گیا اور وہاں کشادگی پائی گئی۔ یہ ایک نورانی قبر تھی جو خوشبوؤں سے مہک رہی تھی ۔ جسم اقدس کو دفن کیا گیا کوئی دلکش آواز میں یہ آیت کریمہ پڑھ رہا تھا لا یستوی اصحاب النار واصحاب الجنۃ اصحاب الجنۃ ھم الفائزون۔ (نہیں ہیں برابر دوزخ والے اور جنت والے جنت والے ہی ہیں مراد پائے۔ اسے لیکن پڑھنے والا کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔

حضرت شیخ ابو الفتح برہان الدین لکھتے ہیں کہ بہت کم اصحاب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ نعمان ؓ بن ثابت جس طرح ظاہری علوم ومعارف کے آفتاب تھے ایسی طرح باطنی علوم سے بھی واقفیت تامہ رکھتے تھے۔ تذکرۃ السالکین میں لکھا ہے کہ حضرت ابوحنیفہؓ قرآن وحدیث کے زبردست ماہر تھے۔ رموز شریعت تک انکی عقل سلیم کی رسائی تھی۔ حضرت امام ؓ نے قرآن و حدیث کا خوب مطالعہ کر کے مسلمانوں کی آسانی کے لئے تمام مسائل شرعیہ کو نہایت تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا۔ اور شریعت کے تمام اسرارو معارف کو قلم بند کیا۔ آپ نے ہزاروں علماء کو دین کی نعمتوں سے مالا مال کیا۔ ان کا حلقہ درس نہایت وسیع تھا۔ اور امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ جیسے مجتہدین ان کے شاگرد تھے درس و تدریس سے فارغ ہو کر حضرت امام صاحب زیادہ تر ریاضت و مجاہدے میں مشغول رہتے تھے۔ اور امور معرفت میں بھی درجہ رفیع رکھتے تھے۔ حضرت امام جعفر صادق ؓ اور حضرت خواجہ فضیل بن عیاضؒ اور حضرت ابراہیم ادہم ؒ اور حضرت بشرسانی ؒ اور حضرت داؤد طائی رحمتہ اللہ تعالی علیہم سے گہری عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔ آپ کی روحانی عظمت کی یہ کیفیت تھی کہ آپ جب سرکار دو عالم ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضر ہوئے اور کہا۔ السلام علیک یا سیدالمرسلین ۔ روضئہ اقدس سے جواب آیا۔ علیک السلام یا امام المسلمین۔ حضرت ابو حنیفہ پر عالم وجدوکیف طاری ہوگیا۔ بہت دیر تک مقدس جالیوں سے اپنا چہرہ مبارک ملتے رہے۔ اور درودشریف پڑھتے رہے۔ اسی شب کو زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ سرکار ﷺ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اور برکت کی دعا دی۔

ایک دفعہ عیالدار شخص شام کی نماز پڑھ کر جب گھر کو جانے لگا تو اس کا دل بہت رنجیدہ تھا۔ کیونکہ تمام دن اسے کچھ نہیں ملا تھا۔ اور وہ حیران تھا کہ بال بچوں سے کیا کہوں گا۔ اس نے حضرت ابراہیم بن ادہم ؒ کو نہایت اطمینان اور فارغ دلی کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا۔ اس نے کہا کیوں ابراہیم ؒ تم تو ایسے مطمئن بیٹھے ہو اور میں اس قدر پریشان و مضطرب ہوں حضرت نے فرمایا کہ میں نے تمام عمر میں جس قدر عبادت اور خیرات کی ہے وہ سب تم کو دیتا ہوں اس کے معاوضہ میں تم اس اندوہ وغم کا ایک حصہ مجھے دے دو۔

حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ شب کو عبادت میں مشغول تھے۔ لیکن سچا ذوق پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آپ نے پریشان ہو کر خادم سے فرمایا کہ دیکھو گھر میں کیا چیز ہے؟ اس نے دیکھ بھال کر انگور کا ایک خوشہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کسی کو دیدو کیونکہ ہمارا گھر میوہ فروش کی دوکان نہیں ہے۔ اسکے بعد آپکو اطمینان قلب نصب ہوا اور آپ عبادت الہی میں مشغول ہوئے۔ حضرت سلیمان دارانیؒ کے سامنے جب گناہ کا ذکر آتا تو آپ زارزار روتے اور فرماتے کہ خدا کی قسم میں طاعت میں اتنی آفتیں دیکھتا ہوں کہ معصیت کی حاجت نہیں۔ آپ لوگوں کو نصیحت کرتے کہ آنکھ کو رونے کی اور دل کو غوروفکر کی عادت ڈالنی چاہیے۔ انسان کو رونے کے لئے اپنی بربادشدہ عمر کا تصور ہی کچھ کم نہیں ہے۔

ایک دن سادات نیشا پوراحمد حرب ؒ کی ملاقات کو گئے۔ آپ کے فرزند ایک رند مشرب نوجوان تھے۔ وہ ہاتھ میں رباب لئے ہوئے گزررہے تھے۔ کہ سادات نے ان کو دیکھا انہوں نے سادات کی طرف کچھ التفات نہ کیا۔ اس بے التفاتی سے سادات کو بہت رنج پہنچا ۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ لوگ رنجیدہ نہ ہوں جس دن اس بچہ کا حمل قرار پایا اس دن ہم میاں بیوی نے جو غذا کھائی تھی وہ پاک و حلال نہ تھی اور تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ کھانا سلطان وقت کے مطبخ سے آیا تھا۔ ایک روز حضرت معروف کرخی ؒ قیمتی کھانا کھا رہے تھے کسی نے عرض کیا کہ آپ کیا کر رہے ہیں فرمایا کہ میں مہمان ہوں مجھ کو جو کچھ دیا جاتا ہے وہ کھانا کھاتا ہوں۔

حضرت سری سقطی ؒ کو جب کوئی سلام کرتا تو آپ کے چہرے پر بے لطفی کے آثار نمایاں ہوتے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے آپ نے فرمایا کہ جب دو شخص باہم سلام کرتے ہیں تو اللہ تعالی کی طرف سے سورحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان میں سے نوے رحمتیں اس شخص کو ملتی ہیں جس کا چہرہ شگفتہ ہوتا ہے پس میں اس وقت ترش رو ہو جاتا ہوں تاکہ میرے مخاطب کو مجھ سے زیادہ اجر ملے۔

ایک دفعہ حضرت فتح موصلی ؒ کے پاس ایک شخص پچاس درہم لایا آپ نے فرمایا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کسی شخص کو بے طلب کچھ دیا جائے اور وہ اسے رد کرے تو گویا وہ خدا کے عطیہ کو رد کر رہا ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے ایک درم لے لیا اور باقی واپس کر دیئے۔ حضرت یٰٰحیی معاذ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک دفعہ ایک دوست کو ایک خط لکھا کہ یہ دنیا خواب ہے اور آخرت بیداری ہے۔ اگر خواب میں کوئی غم کی بات دیکھتے ہیں تو بیداری میں اس خیال سے ہنستے ہیں کہ تعبیر برعکس ہوتی ہے پس تم کو چاہیے کہ دنیا میں گریہ وزاری کروتاکہ آخرت میں ہنسی اور خوشی نصیب ہو۔ حضرت ابو حفصؒ کی صحبت میں ایک مرید تھا جب حضرت نے بغداد میں حضرت جنید ؒ سے ملاقات کی تو حضرت جنیدؒ نے فرمایا کہ یہ مرید بہت مودب اور شائستہ ہے۔ حضرت ابو جعفر ؒ نے فرمایا کہ اس نے میرے لئے ۱۷ ہزار دینار اپنی ذات سے خرچ کر کے اور ۱۷ ہزار دنیار قرض لے کر میرے لئے اٹھائے ۔ لیکن آج تک ایک حرف بھی اپنی زبان سے نہیں کہا۔ حضرت ممدون قصارؒ سے اکابروعلماء نے عرض کیا کہ آپ وعظ فرمایا کریں۔ یہ سنکر ارشاد کیا کہ میرا دل دنیا اور جاہ دنیا میں اسیر ہے میری باتیں لوگوں کے لئے مفید و موثر ثابت نہ ہوں گی اور ایسی حالت میں کچھ کہنا گویا علم کا مذاق اڑانا ہے۔ اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم جب سوتے تو زمین پر اپنے نیچے کچھ نہیں بچھاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم خاک ہی سے پیدا ہوئے اور خاک ہی میں جانا ہے۔ حضرت سفیان ثوری ؒ نے ایک دن شب کو کھانا پیٹ بھر تناول کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ جب گدھے کو دانہ گھاس زیادہ دی جاتی ہے تو اس سے کام بھی زیادہ لیا جاتا ہے یہ کہکر عبادت الہی میں مشغول ہوگئے۔ اور تمام رات جاگتے رہے۔ ابو الجویریہؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کی خدمت میں چھ ماہ حاضر رہا۔ آپ کا دستور تھا کہ نصف شب عبادت کرتے تھے۔ لیکن ایک دفعہ کچھ لوگوں نے آپ کے متعلق مشہور کیا کہ یہ شخص تمام رات عبادت میں بسر کرتا ہے حضرت نے یہ سنا تو اس خیال سے کہ لوگ وہ صفت آپ کے متعلق بیان کرتے ہیں جو آپ کے اندر نہیں ہے تمام رات عبادت کرنے لگے۔ حضرت ابو محمد مرتعشؒ سے کسی نے کہا کہ فلاں شخص پانی پر چلتا ہے اور ہوا پر اڑتا ہے حضرت نے فرمایا کہ خواہش نفسانی کو روکنا اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ حضرت ابوالحسن خرقانی ؒ کے پاس ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے خرقہ عنایت کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کی اوڑھنی اوڑھے تو وہ عورت بن جائے گا یا نہیں؟ اس شخص نے کہا کہ نہیں وہ مرد ہی رہے گا پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اگر کوئی عورت مرد کی چادر اوڑھ لے تو کیا وہ مرد بن جائے گی؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں آپ نے فرمایا کہ تم خرقہ کی خواہش نہ کرو جب تم اس میدان کے مرد نہیں ہو تو خرقہ پہن لینے سے مرد نہیں بن سکتے۔
سید قمر احمد سبزواریؔ
About the Author: سید قمر احمد سبزواریؔ Read More Articles by سید قمر احمد سبزواریؔ: 35 Articles with 61876 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور
روزنامہ الجزائر ل
.. View More