اقوام ِ عالم پر اگر نظر دوڑائی جائی تو یہ بات روزِ روشن
کی طرح عیاں ہو گی کہ مسلمان جہاں جہاں بستے ہیں وہ ممالک کسی نہ کسی مسئلے
کا شکار نظر آتے ہیں ۔ پوری دنیا میں مسلمان ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں
۔ جزیرہ نما ء عرب جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ تھا آج وہاں بھی جنگ و جدل
جاری ہے ۔ پہلے یمن اور شام کا تناذعہ اور اب سعودی عرب اور ایران کا ۔ایرا
ن اور سعودی عرب دو بڑے اسلامی ممالک ہیں ۔ دونوں میں بسنے والے باشندوں
میں ننانوے فی صد مسلمان ہیں اور دونوں ہی ملک عالم ِ اسلام کے ستون کی
مانند ہیں ۔ اگر سعودی عرب کی جانب دیکھا جائے تو مسلمانوں کا قبلہ ، روضہ
رسول ﷺ ، شہرِ مکہ ، شہر ِ مدنہ اس ملک کو پورے عالم اسلام تو کیا پوری
دنیا کے مسلمانوں کے لیے مقد س بناتے ہیں ۔ اس ملک میں سنی مسلمانوں کی
اکثریت ہے اور حکومت بھی اہل ِ سنت کے پاس ہے ۔ اس کے برعکس اگر ایران کی
جانب دیکھا جائے تو مسلم دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت جس کے پاس بے ببہا
قدرتی وسائل خصوصا معدنی تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں اس ملک میں اہل ِِ
تشیعہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ، بعض اصحابہ کرام ؓ کی قبور کی اس ملک
میں موجودگی اس ملک کو فقہ ء جعفریہ کے مسلمانوں کی توجہ کا خصوصی مرکز
بناتی ہیں ۔ فرقہ کوئی بھی ، دونوں ممالک کے مکین مسلمان ، ہیں اور دونوں
ہی اسلامی ملک ہیں ۔ اگر دونوں کے درمیان کشیدگی جنم لیتی ہے تو نقصان مسلم
امہ کا ہے ۔اگر خدا نخواستہ دونوں ممالک آپس میں دست و گریباں ہو جائیں گے
توبہنے والا خون عالمِ اسلام کا ہوگا ۔دونوں ملکوں میں سے جس بھی ملک کو
شکست ہوگی وہ مسلمان ہے ۔ جس بھی ملک کو معاشی اور معاشرتی نقصان اٹھانا
پڑے گا وہ نقصان امت ِ مسلمہ کا ہوگا ۔ اور اس جنگ ، کشیدگی کا فائدہ ان
تنظیموں ، اسلام دشمن عناصر کو ہو گا ۔
حال ہی میں سعودی عرب نے کچھ دہشت گردوں کوان کے جرم کی پاداش میں پھانسی
دی ان دہشت گردوں میں ایک شیعہ عالم بھی شامل تھے ۔ جن کا نام نمر الباقی
تھا ، کی پھانسی نے ایران میں شیعہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا دیا
اورمشتعل عوام نے سعودی سفارتخانہ پر حملہ کر دیا ۔ اس حملے میں سعودی
سفارت خانہ کو آگ لگا دی گئی اور اس کے گارڈ کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا
۔اس حملے کے بعد سعودی عرب نے اپنے سفارت خانہ کے عملہ کو واپس بلا لیا
اورجواباایران کے سفارتی عملہ کو بھی ملک سے نکل جانے کے احکام جاری کیے ۔
ایرانی سفارت خانہ کے عملہ کو نکل جانے کے لیے اڑتالیس گھنٹے کا وقت دیا
گیا ۔ جس نے دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات کو عارضی طور پر منقظع کر
دیا ہے ۔ سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر پہلے سوڈان پھر دیگر
ممالک نے سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرد ئیے ۔ امریکہ اور
برطانیہ ایران کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ بہت سے ممالک نے ایران کا ساتھ
دینے کا اور بہت سے ممالک نے سعودی عرب کا ساتھ دیتے ہوئے ایران سے سفارتی
تعلقات ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ پوری مسلم امہ واضع طور پر دو حصوں میں
بٹ گئی ہے ۔ اس کشیدگی سے مسلم امہ کو نقصان اور ان اسلام دشمن تنظیموں
کوفائدہ پہنچے گا ۔
دونوں ممالک کے دمیان کشیدگی کے بڑھتے ہی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے
بیانات کے سلسلہ کا آغاز ہو چکا ہے ۔یہاں حسن نصر اﷲ۔ سیکریڑی حزب اﷲ لبنان
کا بیان ملاحضہ ہو۔شیخ نمر الباقر کی پھانسی کا بدلہ لیں گے ۔ سعودی عرب کو
خون میں نہلا دیں گے ۔ مدینہ کی گلیاں خون سے سرخ نہ کر دیں تو حزب اﷲچھوڑ
دوں گا ۔ یہ وہ حزب اﷲہے جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور جن کا کہنا ہے کہ
وہ نفاذِ اسلام کے لیے جہاد کررہے ہیں ۔ ایسا شہر جس کی ناموس پورے عالم
اسلام کے اہم ہے ۔جو کہ محترم ترین شہر ہے ۔ جس کو خود خدا نے امن والا شہر
قرار دیا اس کے بارے میں اس طرح کے بیانات صرف اور صرف مسلمانوں کے جذبات
کو مزید بھڑکانے کی ایک سازش ہے ۔اس طرح دونوں بڑے فرقے آمنے سامنے آن کھڑے
ہوں گے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس عالم دین کو پھانسی کی سزا دی گئی آیاوہ
عالم دین تھے بھی یا نہیں ؟ وہ اس جرم میں ملوث تھے یا نہیں ؟پہلی صورت میں
دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا دینا سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے ہر ملک
کو اپنی سرزمین پر امن وا مان قائم کرنے کے لیے حق حاصل ہے کہ وہ مجرموں کو
قرار واقعی سزا دے ۔ ہر ملک اس معاملے میں آزاد ہے کہ وہ اپنے آئین کے
مطابق فیصلے کرے ان فیصلوں کو عالمی سطح پر اچھالا جانا اورمذہبی فرقہ
واریت کا رنگ دینا کسی صورت مناسب نہیں ہے ۔ یہ فیصلہ کرنا کہ نمر الباقر
دہشت گرد تھے یا نہیں یہ سعودی قانون پرمنحصر ہے اور سعودی قانوں کے مطابق
انھیں اگر سزا دی گئی ہے توکسی ملک عوام کویہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ سعودی
عرب کے سفارت خانہ پر حملہ کرے ۔اگر ایران یا کسی بھی ملک کو اس پھانسی پر
شکوک و شبہات تھے تو اسے چاہیے تھا کہ وہ سعودی سفارت کار کو طلب کر کے
ملکی سطح پر جرم ثابت کرنے کے لیے ثبوت مانگتے ۔دوسری صورت میں اگروہ دہشت
گردی کے جرم میں ملوث تھے اور یہ فیصلہ حق پر کیا گیا تو سعودی عرب از خود
کو اس کے ثبوت ایران کو فراہم کرنے چاہیں تاکہ ایران میں لوگوں کے جذبات کو
ٹھنڈا کیا جا سکے ۔ عالمی سطح پر ایسے تمام حقائق جس میں ثابت ہو کہ وہ
عالم دین واقعتا دہشت گردی یا دہشت گردوں کی مدد میں ملوث ہیں میڈیا کے
سامنے لائے جائیں تاکہ دونوں ممالک میں موجود خلیج کو کم کیا جاسکے۔ اگر یہ
پھانسی مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر دی گئی ہے تو یہ قطعا غلط ہے اور
اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس صورت میں سعودی عرب کو ایران سے معافی
مانگنی چاہیے تاکہ اسلام کے دو بڑے فرقوں کو آپس میں دست و گریبان ہونے سے
روکا جا سکے ۔جس طرح بھی ممکن ہو عالم اسلام کو جنگ سے بچانا ہر ملک کی
اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا اس صورت حال میں موقف کیا ہو ؟ یہ
انتہائی نازک وقت ہے اور اس نازک وقت میں پاکستان کی وزارت ِ خارجہ کی جانب
سے کسی قسم کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا دو دن بعدپاکستان کے سیکرٹری وازرت
خارجہ نے بیان دیا ہے کہ اس معاملے کو اس کی حساسیت کے مطابق دیکھا جارہا
ہے ۔ وزیر ِاعظم پاکستان اس نازک موقع پرسری لنکا کے دورے پر ہیں ۔ ان کی
جانب سے بھی کسی قسم کا کوئی بیان نہیں آیا ۔ پاکستان کی اعلیٰ قیادت کی یہ
خاموشی اس وقت عالم اسلام میں پاکستان کی حیثیت کو مشکوک کر دے گی ۔ یہاں
یہ بات واضع ہونی چاہیے کہ پاکستان کی قیادت ، افواج ِ پاکستان یا عوام
کوئی نہیں چاہتا کہ وہ ان دونوں ممالک کی آگ میں جھونکے جائیں ۔پاکستان از
خود دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے جس میں بے بہا جانی اور مالی نقصانات ہوئے
ہیں اور ہو رہے ہیں ۔آپریشن ضرب ِ عصب اور کراچی میں آپریشن جاری ہے ۔اس
صورت حال میں افواج ِ پاکستان کسی بھی ملک میں جا کر لڑنے سے قاصر ہیں اور
ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے بھی حکومت کو گریز کرنا ہو گا۔
اس کشیدگی کو مذکرات اور مصالحت کے ذریعے ختم کیا جانا ضروری ہے اورتمام
اختلافات کو مذکرات کی میز پر حل کیا جاناچاہیے تاکہ دونو ں ممالک کے مکین
اور ان کی معیشتیں محفوظ رہیں ۔ پاکستان کا اس وقت وہ مقام ہے کہ دونوں ہی
ممالک میں ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے ۔پاکستان کو دونوں ممالک میں اپنے
سفارتی تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے اس بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کی کوشش
کرنی چاہیے ۔تاہم اگر کوئی تنظیم یا ملک مسلمانوں کے مقامات ِ مقدسہ کو
نشانہ بنانے کی کوشش کرے تو اس کو تمام امت مسلمہ کا فرض ہے کہ اس تنظیم یا
ملک کو آہنی ہاتھوں سے پکڑا جائے ۔ مقامات ِ مقدسہ کا احترام اور حفاظت ہر
مسلمان کا اولین فریضہ ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی میں تمام امت ِ مسلمہ کو
یک جان ہونا چاہیے تاکہ کسی میں بھی ان مقامات کی جانب بری نظر سے دیکھنے
کی ہمت نہ ہو ۔
|