روشنی کا گہوارہ آکسفورڈ
ایک دفعہ سینیگال میں خاکسار کے پاس ایک احمدی ممبر آف پارلیمنٹ اپنے ایک
عزیز مسڑ کاباکے ہمراہ تشریف لائے۔ تعارف پر معلوم ہوا کہ یہ صاحب ڈاکار
یونیورسٹی میں فزکس پڑھاتے ہیں نیز فرانس میں بھی کسی یونیورسٹی میں تدریسی
فرائض سرانجام دیتے ہیں۔میں نے فزکس کے حوالے سے انہیں پوچھا ۔کیا آپ نوبل
انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔مکرم کابا صاحب بے
اختیار بول اٹھے ،کہ اس صدی میں جو آدمی ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں نہیں
جانتا ۔میرے نزدیک وہ تو انسان کہلانے کا بھی حق دار نہیں ہے۔
ایسی ہی کچھ اہمیت آکسفورڈ کی ہے۔دنیا کا ہر ذی شعور انسان اس شہر کے نام
سے تو کم از کم آشنا ہے۔اس طرح جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے۔ آکسفورڈ شہر
کی عظمت و اہمیت کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اورسن رکھا ہے۔ لیکن حدیث نبوی ﷺ
کے مطابق لیس الخبر کالمعاینۃ کی حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے۔
پروگرام
اسی جذبہ کے تحت جامعہ کے اساتذہ کرام نے بھی ایک تفریحی و مطالعاتی
پروگرام ترتیب دیا۔ جس میں نو اساتذہ کرام شریک سفر تھے۔مکرم حمیداللہ صاحب
نے ڈرائیونگ کی خدمات سر انجام دیں۔فجزاہ اللہ
آغاز سفر
صبح ساڑھے نو بجے دعا کے بعد جامعہ احمدیہ کے نو اساتذ کرام کا ایک گروپ
جامعہ احمدیہ کی وین جس کو مکرم حمیداللہ صاحب ڈرائیو کررہے تھے۔آکسفورڈ کو
روانہ ہوا۔
آکسفورڈ میں آمد
تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر طے کرکے آکسفور ڈمیں جماعت کے مرکز میں
پہنچے۔جہاں پر مکرم بسرا صاحب مربی سلسلہ اور مکرم ڈاکٹر منور احمد صاحب
صدر جماعت نے بڑے پر تپاک انداز میں خوش آمدید کہا۔
مشن ہاؤس
آکسفورڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی ایک خوبصورت مسجد ہے۔جس
میں نمازیوں کے لیے ایک مردانہ اور ایک زنانہ حال ہے۔اور اس میں مکرم مربی
صاحب کا آفس اور رہائش گاہ بھی ہے ۔
آکسفورڈ کی تاریخ
آکسفورڈ دریائے آکس کے کنارے، انگلستان کاایک شہر ہے۔ اس کے معنی (دریائے
آکس کا گھاٹ) کے ہیں۔ اس جگہ انگلستان کا مشہور اور قدیم دارالعلوم واقع ہے۔
اس کی بنیاد قدیم زمانے میں رکھی گئی تھی۔ لیکن منظم تدریس کا آغاز 1133ء
سے ہوا جب پیرس کے رابرٹ پولین نے یہاں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس نے
یونیورسٹی کی صورت 1163ء میں اختیار کی۔ اس میں اٹھائیس کالج ہیں جن کی
اقامت گاہیں بھی ہیں۔ لیکن تدریس کا تمام کالجوں کے مشترکہ لیکچروں کی صورت
میں ہوتی ہے۔ اورکالجوں کے ٹیوٹر اپنی اپنی اقامت گاہوں پر بھی تعلیمی
رہنمائی کرتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی شہرہ آفاق بوڈیلین لائبریری دنیا
بھر کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ اس کی مزید توسیع 1946ء میں جدید بوڈیلین
لائبریری کی شکل میں ہوئی۔
ماضی کی امتیازی پالیسی
آکسفورڈ یونیورسٹی اور کیمبرج کے دروازے 1854 تک ان لوگوں کے لیئے بند تھے
جو پراٹسٹنٹ مذہب یعنی چرچ آف انگلینڈ کے 39 اصولوں پر ایمان نہ لاتے ہوں۔
1871 تک ان دونوں یونیورسٹیوں میں کسی ایسے شخص کو کسی قسم کا امتیاز، یا
وظیفہ تعلیم بھی نہیں مل سکتا تھا۔
شہر کی موجودہ آبادی
کہتے ہیں ۔آجکل شہر کی کل آبادی ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اور اس میں سے چالیس ہزار
طالب علم ہیں ۔
ساؤتھ پارک
ہماری پہلی منزل ساؤتھ پارک تھی۔گائیڈ مکرم بسرا صاحب ہمیں ایک پارک میں لے
گئے۔سڑک کے کنارے پر گاڑی پارک کی۔پھر وہاں سے پیدل پارک کی ایک جانب
پہنچے۔سامنے حد نگاہ تک وسیع وعریض میدان ہی نظر آتا تھا۔ احباب سامنے کو
چل پڑے۔اور پھر چلتے ہی گئے۔یہاں پر وفد میں پہلی بارتفریق پیدا ہوئی۔اور
ہم لوگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ نوجوان گروپ آگے چلا گیا اور بزرگ گروپ
نے اپنے تجربہ کی روشنی میں سوچ سوچ کر قدم اٹھا نے شروع کردیے۔
کیونکہ منزل کا کوئی علم نہ تھا ۔
آگے مسلسل چڑھائی تھی۔
فضا میں خنکی بھی تھی ۔
بزرگوں کےدل و دماغ میں میں مسلسل جنگ ہورہی تھی ۔کہ آگے جائیں کہ نہ جائیں۔
تقریباً وسط میں جاکر احباب کھڑے ہوگئے۔تو پھر پیچھے رہنے والے احباب نے
کسی بھی جذبہ کے تحت ایک نئے جوش اور ولولہ سے قدم اٹھائے اور پھر جلد ہی
یاران سست گام نے محمل کو آلیا۔
پارک کا یہ حصہ یہ قدرے اونچی جگہ ہے۔جہاں سے آپ پورے آکسفورڈ کے اہم
مقامات کا بھر پورنظارہ کر سکتے ہیں۔
لائبریریاں اور کتب خانے
شہر بھر بے شمار لائبریریاں ہیں ۔ہر کالج کی الگ الگ لائبریری ہے۔بعض
لائبریریان صرف ان کے اپنے طلبہ اور سٹاف کے لیئے مخصوص ہیں اور بعض صلائے
عام ہے یاران نکتہ دان کے لیئے۔
ممکن ہے دنیا میں سب سے زیادہ کتب بھی اسی شہر میں ہوں۔
معروف بک شاپ
شہر میں بے شمار کتب خانے ہیں ۔ان میں سے ایک معروف بک شاپ BLACKWELLدیکھنے
گئے۔جس میں بلا مبالغہ دنیا کے موضوع پر لاکھوں کتب ہوں گی۔جو اس دور کی
جدید ترین سہولوتوں سے آراستہ و پیراستہ تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ
BADBLEILکالج بھی اس شہر کے اہم تعلیمی مراکز میں سے ایک ہے جوشہر کےوسط
میں واقع ہے۔اس کالج کے ساتھ سب احمدیوں کا ایک خاص رشتہ ہے۔اور اس کو
دیکھنے ضرور جاتے ہیَں ،کیونکہ ہمارے تیسر ے خلیفہ حضرت میرزا ناصر احمد
صاحب ؒ نے یہاں بھی اعلی تعلیم کی کچھ منازل طے کیں۔
قتل مرتد
اس کالج کے مین گیٹ کی بائیں جانب کی دیوار میں ایک کنندہ سلیٹ ہے۔جس پر اس
شہر میں جنم لینے والی ایک درد ناک کہانی مختصر الفاظ میں رقم ہے۔اس دیوار
میں کنندہ پلیٹ کے عین سامنے ،سڑک کے درمیان ایک جگہ اس دلخراش واقعہ کی
نشان دہی کے لیئے جگہ چھوڑ رکھی ہے۔جہاں پر ۱۹۵۵ میں چار بہت اہم پروٹسٹنٹ
شخصیات کو ارتداد کے جرم میں زندہ جلادیا گیا تھا۔
ان درد ناک اور دلخراش واقعات کو ۔بک آف مارٹرز۔میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔
سائیکل
شہر میں سیر کے دوران ایک چیزخصوصی توجہ کا مرکز و محوربنی ۔وہ تھے،رنگ
برنگے ان گنت سائیکل۔چونکہ یہ ایک طالب علموں کا شہر ہے ۔اس لیئے فراٹے
بھرتی کاریں بہت کم نظر آئیں۔اس شہر میں اس کثرت سے سائیکلوں کو دیکھ کر
ربوہ کی یاد تازہ ہوگئی۔جہاں ہر چھوٹا بڑا سائیکل لیئے آ جا رہا ہوتا ہے۔
تعلیمی ادارے
کہتے ہیں اس شہر میں بنیادی دو یونیورسٹیاں ہیں ۔ایک کا نام آکسفورڈ
یونیورسٹی ہے۔ اور دوسری بروکرزہے۔
ان یونیورسٹیوں کے زیر سایہ بہت سےکالج ہیں۔
ان درس گاہوں میں چالیس ہزار کے قریب طلبہ کسب فیض کررہے ہیں۔
نوجوانوں کا شہر
جیسا کہ پہلے عرض کی ہے کہ اس شہر میں ڈیڑھ لاکھ کی آبادی میں سے چالیس
ہزار کے قریب طالب علم ہیں۔اس لیئے غالب امکان ہے کہ نوجوانوں کی شرح دوسرے
شہروں کی نسبت سے اس شہر میں سب سے زیادہ ہے۔
بنگلہ مسجد
آکسفورڈ کی ہائی اسڑیٹ پر،ایک عمارت ہے۔جس میں ایک کمرہ کو مسجد کے طور پر
استعمال کیا جاتا ہے۔وہاں پر بلا تمیز مذھب و مسلک کوئی بھی مسلمان بھائی
اپنے طریق پرنماز ادا کرسکتے ہیں۔ہم لوگوں نے بھی نماز ظہر وعصر اسی مسجد
میں ادا کی۔اس دوران اور کئی لوگ انفرادی طور پر اور کچھ لوگ با جماعت نماز
ادا کرہے تھے۔
ڈاکٹر سلام صاحب کی وفات
دنیائے احمدیت کے عالمی شہرہ یافتہ سپوت مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے بھی
زندگی کے آخری ایّام سی شہر میں گزارے۔اور ادھر ہی ان کا وصال ہوا۔
میوزیم ( داستان عالم)
ہمارے اس تفریحی سفر کی آخری منزل آکسفورڈ کا نیچرل سایئنس میوزیم تھا۔
مکرم بسرا صاحب کی قیادت میں ادھر پہنچے۔بڑا تاریخی ،قیمتی اورقابل قدر
خزانہ محفوظ ہے۔ اس کے مشاھدہ کے لیئے تو عمر ِخضر ہونی چاہیے۔شام ہو چکی
تھی اور اندھیروں کے دامن وسیع سے وسیع تر ہوتے جارہے تھے۔
تھوڑے سےمیسر وقت میں ،جو ممکن ہوا ،اپنے اجداد اور ان کی ہم عصر مخلوق کا
انجام دیکھ کر جلدی سےایک سرسری سی نظر دوڑائی اور باقی عندالتلاقی کہہ کر
کے واپس آگئے۔
کالا سفید
کہتے ہیں۔نومولود بچے کو دو ہفتوں کے لیئے ہر چیز بلیک اینڈ وائٹ ہی نظر
آتی ہے۔اس کے بعد اس میں مختلف رنگوں میں امتیاز کرنے کی اہلیت اور
استعدادپیدا ہوتی ہے جس سے وہ اشیاء کو ان کے اصل رنگ وروپ میں مشاھدہ کرکے
لطف اندوز ہوسکتا ہے۔یہی کیفیت ہماری تھی ۔آکسفورڈ میں اپنی کم عمری کے
باعث ابھی بلیک اینڈ وائٹ میں ہی تھے ۔اورخدا تعالی کے تخلیق کردہ
باقیماندہ خوبصورت رنگوں کو دیکھنے کے قابل نہ ہوئے تھے کہ واپسی کا بگل
بجا دیا گیا۔
واپسی کا سفر
میوزیم کے بعد مسجد میں واپس آئے۔ نماز مغرب و عشاء مکرم حافظ ظیب احمد
صاحب کی اقتداء میں ادا کی۔جس میں انہوں بڑی خوش الحانی سے تلاوت
فرمائی۔فجزاھم اللہ۔
ا بسرا صاحب کی دعا کے بعد لندن کو عازم سفر ہوئے،راستہ میں مکرم نسیم
باجوہ صاحب نے بڑی پر سوز آواز میں درثمین سے ایک نظم سنائی۔پھراحباب کی پر
لطف باتوں ،خوبصورت چٹکلوں اور دلچسپ واقعات نے ایسا کرشمہ دکھایا کہ سفر
کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ بفضل تعالیٰ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ہم بخیریت
جامعہ میں پہنچ گئے۔الحمدللہ
شکروامتنان
من لا یشکرالناس لا یشکراللہ کے ارشاد ربانی کے مطابق ہم سب افراد قافلہ
اپنے میزبانوں مکرم بسرا صاحب مربیّ سلسلہ اور مکرم ڈاکٹر منوراحمد صاحب
صدر جماعت آکسفورڈ کے بھرپورتعاون ،راہنمائی اور شاندارمہمان نوازی کے لیئے
تہہ دل سے ممنون ہیں اور ان کے لیئے خدا تعالی ٰکے حضور دست بدعا ہیں۔کہ
باری تعالی انہیں اجر عظیم سے نوازے ۔آمین
|