زبان وبیان کی اہمیت

’’لْغات واصطلاحات‘‘ کےعنوان تلے عربی اردو وغیرہ کے وہ اسماء،الفاظ اور لغات واصطلاحات جو روزمرہ کےعام بول چال اور میڈیا میں زیر گردش ہوتے ہیں، لیکن ان کالُغوی،عُرفی و اصطلاحی پس منظر اوجھل ہوتاہے،خاص کر بچوں کےنام،اداروں کے مارکے وغیرہ،ان کے متعلق ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات ، یہ سب ہمیں اس ایمیل([email protected])پر بھیجیں اور روزنامۂ جنگ کےاسی پیج (إقرأ) میں اس کے تحقیقی جوابات پڑھئے۔ ادارہ جنگ۔

روزنامہ جنگ میں شائع شدہ اس سلسلے کا پہلا کالم

لُغات واصطِلاحات

)’’لْغات واصطلاحات‘‘ کےعنوان تلے عربی اردو وغیرہ کے وہ اسماء،الفاظ اور لغات واصطلاحات جو روزمرہ کےعام بول چال اور میڈیا میں زیر گردش ہوتے ہیں، لیکن ان کالُغوی،عُرفی و اصطلاحی پس منظر اوجھل ہوتاہے،خاص کر بچوں کےنام،اداروں کے مارکے وغیرہ،ان کے متعلق ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات ، یہ سب ہمیں اس ایمیل([email protected])پر بھیجیں اور روزنامۂ جنگ کےاسی پیج (إقرأ) میں اس کے تحقیقی جوابات پڑھئے۔ ادارہ )

انسان کی سب سےبڑی خصوصیت بولنے کی صلاحیت ہے،صرف آواز نکالنا کوئی کمال نہیں،نطق وکلام پر قادر ہونا اور اگلے کی بات کو سمجھنا یہ انسانی امتیاز ہے،اسی کو إدراک کہاجاتاہے،شعور کا درجہ اس سے کم تر ہے،چنانچہ حیوانات میں شعور ہوتاہے إدراک نہیں ہوتا،انسان باشعور بھی ہے اور صاحبِ إدراک بھی ہے،اسی إدراک کی وجہ سے وہ متعدد ذمہ داریوں میں مسؤل ہوتاہے اور اسی لئے وہ مکلَّف بھی ہے،لہذا جو انسان بولنے اور سمجھنے کی جتنی زیادہ استعداد کا حامل ہوگا،اُتنا ہی وہ دیگروں سے ممتاز ومنفرد ہوگا،کسی کے ساتھ بات کرنے میں قوّتِ فصاحت وبلاغت اورکسی کی بات سننے میں قوتِ فہم وإدراک سے انسانی سوسائٹی کے افراد تولے اور ناپے جاتے ہیں،زبانوں کا چونکہ بنیادی تعلق سماعت اور سننے سے ہے،اب اگر الفاظ یا لب ولہجے میں سننے والے کا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑگیاہو، جو غیر فصیح ہوں،تو اس کے تکلم کے وقت اس کےبرے اثرات سننے والوں پر پڑتے جاتے ہیں،اور وہ ان کے اذہان میں غلط راسخ ہوجاتے ہیں،اس لئے بعضے اچھے خاصے فصیح وبلیغ اشخاص کوبسا اوقات تلفظ کی غلط ادائیگی کی وجہ سے مجلس میں خفت اٹھانی پڑتی ہے۔

ہمارے یہاں پاکستان میں بولی کی زبان اردو ہے،جس میں عربی،ترکی،فارسی اور ہندی نیز جدید اردو میں انگریزی کے لغات واصطلاحات بکثرت پائے جاتے ہیں،بچوں کے نام تو عربی ہی میں رکھے جاتے ہیں،قدیم اداروں کے بہت سے نام عربی میں ہوتے ہیں،علمی ومذہبی اصطلاحات بھی عربی ہی سے مأخوذ ہیں،پھرانٹر نیٹ کی دنیا نے ہمیں عربوں کے قریب تر کردیا ہے،اوپرسےسہولیات کی بُہتات نے اسفار بھی آسان کردیئے ہیں،اب لوگ حج ،عمرہ اور دیگر ضروریات کے لئے دنیا بھر میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ آتے جاتے ہیں،جب اس میل ملاپ میں لوگ صحیح تلفظ کے ساتھ اپنے ناموں یا دیگر اصطلاحات کو ادا کرتے ہیں،تو اگلے پر اس کا اچھا اورعمدہ اثر پڑتاہےاور جب غلط سلط الفاظ بولیں گے،تو ظاہر سی بات ہے کہ اگلے کی پیشانی پر دل گرفتگی کے آثار نمایاں ہوں گے،اس لئے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ آدمی زبان وبیان کی اصلاح پر توجہ دے،تاکہ اسے اپنے مافی الضمیر کے اظہار اور سامنے والے کی گفتگو کا اچھی طرح إدراک ہو۔
ناموں اور الفاظ میں یہ تصحیح وترمیم کارِ ثواب اور باعثَ أجر ہے،کیونکہ یہ ایک سنت عمل ہے، حضورِ أکرمﷺ کے سامنے جب کسی کانام لیاجاتا،یا کوئی اپنا نام بتاتااور اس میں کوئی لفظی یا معنوی غلطی ہوتی،تو آپ ﷺ یا اس کا نام بالکل تبدیل فرمادیتے،یااسی میں إصلاح فرماتے،آج ڈاکو منٹس کا زمانہ ہے،بعد میں اصلاح مشکل ہوتی ہے،قانونی مسائل بھی ہوتے ہیں،اس لئے بروقت صحت کا خیال رکھنا لازمی ہے،اصطلاحات میں بھی آپ ﷺ إصلاح فرماتے،عِشاء کی نماز کو (صلاۃ العَتَمَۃ/اندھیری والی نماز)کہا جانے لگا،تو آپﷺ نےسختی سے اس پر نکیر فرمائی،اور إرشاد ہوا کہ عِشاء کی نماز کو کوئی عتمہ ہرگز نہ کہے،عِشاء ہی کہاجائے۔ لغوی لحاظ سے صحیح لیکن معنوی اعتبار سے غلط کچھ ناموں کے متعلق آپﷺ نے تصریح فرمائی،کہ یہ نام نہ رکھے جائیں،مثلاً:أَفلَح(سب سے زیادہ کامیاب)،بَرّہ(نیک،پارسا)وغیرہ نام رکھنے سے آپﷺ نے منع فرمایا۔
عارفہ کریم پاکستان کی ایک ٹیلنٹڈ پھول جیسی بچی تھی،جو پوری طرح کِھل جانے سے قبل ہی مُرجھاکر اپنے خالق حقیقی سے جاملی،پنجاب میں (ع) اور (الف) دونوں مشکل سے ادا ہوتے ہیں،اسی لئے پنجابی لہجے نے عارفہ(مادہ: ع،ر ف/جاننا) اَرفہ بنادیا،میڈیانے اسے أرفع(رف ع/اُٹھانا) بنادیا،یہاں اس غلط ادائیگی سے چار خرابیاں پیدا ہوئیں،مادّے کی تبدیلی،معنے کی تبدیلی ،اسم فاعل سے اسم تفضیل کی تبدیلی اورتذکیر وتانیث کی تبدیلی،اصلی نام میں یہ چاروں چیزیں درست ہیں،جبکہ تبدیل شدہ میں یہ نام غلط ہوجاتاہے۔
عرب ممالک کے اخبارات میں اس سلسلے کو لُغویاّت ومصطلحات بھی کہتے ہیں،اور بعض جگہ یہ مسائل ( المفتیی اللغویی) کے عنوان تلے مذکور ہوتے ہیں،کسی بھی جدید نام و اصطلاح کے لئے ہمارے یہاں کی ’’مقتدرہ‘‘ کے مانند وہاں مجمع اللغۃ العربیۃ (عربک لینگویج بورڈ) ہوتاہے،مثلاً:جہاز ایک نئی چیز دنیا میں آئی، تو بورڈ نے اس کا نام اس کے عمل کی مناسبت سے ’’طَائِرِۃ/اُڑنے والی‘‘ رکھااور اصطلاح کو’’طَیرَان‘‘ بولاگیا، چونکہ ایئر پورٹ جہاز کے اڑنے کی جگہ ہے،تو اسے ’’مَطَار/اُڑان کی جگہ‘‘ کہاجانے لگا۔ گاڑی کی ایجاد ہوئی تو اسے ’’سَیَّارَۃ/بہت چلنے والی‘‘ سے متعارف کرایا،علیٰ ہذا القیاس۔اردو میں لغوی اور عُرفی یا اصطلاحی معنوں میں اس مناسبت کا چنداں خیال نہیں رکھاگیا،اسی لئے اردو میں گاڑی کو گاڑی اور جہاز کو جہاز کیوں کہتے ہیں،اس کی کوئی توجیہ نہیں ہو سکتی،عربی میں یہ مناسبت ضرور ہوتی ہے۔انگریزی،فارسی اور پشتو میں بھی اس مناسبت کا کچھ نہ کچھ اعتبار کیا گیا ہے۔

ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ہم سب کا فرض بنتاہے کہ تہذیبوں کی عالمگیر جنگ میں ہم اپنے تہذیبی وثقافتی ورثے کو محفوظ کریں اوراس پر توجہ دیں،رواروی میں اغیار کی پیروی سے اجتناب کریں،کیونکہ اب ہمارے پاس صرف اسلامی نام ہی رہ گئے ہیں،سیاسی،حکومتی،تجارتی اور تنظیمی سطح پر اس میدان میں ہم مار کھاچکے ہیں،اداروں،دکانوں،مصنوعات اور عہدوں کے نام ہمارے ہاں سب انگریزی میں ہیں،اب تو رشتوں کے لئے بھی امپورٹڈ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں،کچھ ممالک میں تو مسلمان بچوں سے اسلامی نام بھی چھِن گئے ہیں،ہمارے یہاں تخصص فی الادب العربی میں دو طالب علم رنگون کے ہیں،عثمان اور ایوب،لیکن ان کے ملک کے قانون کے مطابق ان کے نام ڈاکومنٹس میں چیٹ کوکو اور نیمیو ہیں،اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اغیار کس طرح ہماری تہذیب کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں،گلوبلائزیشن کے اس دور میں اگر ہم نے بر وقت وبر محل اس مشکل کا سدِّباب نہ کیا،تو کل کو ہمارے یہاں پاکستان میں عجیب وغریب ناموں کی تلاش میں سرگرداں لوگ اپنی اولادوں کو وہ نام دینا شروع کردیں گے ،جن کا ہماری تہذیب وثقافت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہوگا،پھرجنریشن گیپ سے اس وباء کی ہلاکت خیزی میں مزید نقصان کا اندیشہ بھی ہے۔

اگلے کالم میں ہم عامر،وردہ، انابیہ،الوینہ،افراء،اروا،لائبہ اورارحم جیسے ناموں پر روشنی ڈالیں گے إن شاء اللہ تعالیٰ۔
 

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 818431 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More