آج سارے دوست اس کا مذاق اڑا رہے تھے کہ
’’تم کیسے پاس ہوگئے ،تمہیں جس نے پاس کیا ہے وہ بڑا جاہل ہے یا تمہارارشتہ
دار ہے ورنہ تم اس قابل نہیں تھے کہ امتحان میں پاس ہوجاتے ۔‘‘گلزار کا ما
تھا ایک لمحے کیلئے ٹھنکا ،مگر فورـــــــــــــــ خود کو سنبھال لیا اور
کہا :’’دوستو!اب وہ دِن گئے جب تمہارے طعنے سننے پڑتے تھے ،ہر امتحان کے
بعد شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی ،والدین کی ڈانٹ کھانی پڑتی تھی ،اساتذہ کلاس
میں بے عزتی کرتے تھے اور میں تھا کہ سب کان دَبا کرسنتا تھا،مگر اب وہ دِن
ہوا ہوگئے،اب میں نے زندگی کا گوہر نایاب پالیا ،میں نے زازِ حیات ڈھونڈ
نکالا ہے،اب میں تمہارے طعنے سنوں گا نہ والدین کی باتیں،اساتذہ کے ہاتھوں
کلاس میں بے عزت ہوں گا نہ محلے میں بدنام کہ ہر امتحان میں فیل ہوتاہے
۔‘‘تمام طلبہ ہمہ تن گوش گلزار کی طرف دیکھنے لگے ،ہر ایک سوچ رہا تھا کہ
ہر امتحان میں فیل ہونے والے اس نالائق طالب علم نے آخر ایسا کیا گر سیکھ
لیا کہ نہ صرف امتحان میں پاس ہو گیا بلکہ کلاس میں دوسری پوزیشن بھی حاصل
کرلی ۔
تمام طلبہ کو متوجہ پایا کر گلزار کو پہلی مرتبہ اپنی اہمیت کا احساس ہوا ،وہ
دِل میں ایک سرور سامحسوس کرنے لگا کہ کل تک جو لڑکے اس کا مذاق اڑا رہے
تھے وہ آج اسے ایک اتالیق کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے ،گلزار نے بھی پرانے
بدلے چکانے کی ٹھان کی ،سب کو ایک لائن میں کھڑے ہونے کا حکم دیا ،طلبہ نے
کچھ لیت ولعل سے کام لینے کی کوشش کی تو گلزار نے بلند آواز سے کہا :’’جس
نے میری بات نہیں مانی وہ سُن لے میں اپنے پاس ہونے کا گر اس کو نہیں بتاؤں
گا۔‘‘تمام طلبہ بادل نخواستہ لائن میں کھڑے ہوگئے ،گلزار نے سب سے باری
باری معافی منگوائی کہ آج تک انہوں سے اسے طعنے تشنے دیے۔اسے نالائق طالب
علم کہا۔سب کو مجبورا معافی مانگنی پڑی ۔ اب سب یہ جاننے کو بے چین تھے کہ
آخر وہ کیا گر ہے جس کو اپنا کر گلزار جیسا نالائق طالب علم بھی اتنے مشکل
امتحان میں پاس ہوگیا صرف پاس ہی نہیں پوزیشن بھی لے گیا اور آج ان کو لائن
میں کھڑا کرکے معافی منگوانے پہ مجبور کر رہا ہے ۔
گلزار نے اپنے ساتھوں کو خوب تھکادینے کہ بعد کہا :’’آج مجھے ضروری کام سے
کہیں جاناہے میں کل آپ لوگوں کو اپنی زندگی کی کامیاب سفر کے آغاز کے بارے
میں بتاؤں گا۔‘‘یہ کہہ کروہ مجلس سے اٹھنے لگا ۔تمام طلبہ حیرت اور خاموشی
سے اسے جاتا دیکھتے رہے، گلزار شاہانہ چال چلتا باہر نکل گیا۔
اگلے دن سب طلبہ انتظارمیں تھے ،بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور
گلزار بڑے فاخرانہ انداز میں آتا دِکھائی دیا:
’’دوستو!میں ایک عرصے امتحانات میں فیل ہوتارہا ،مجھے والدین ڈانٹتے رہے ،اساتذہ
بھی خوب باتیں سناتے رہے ،دوستوں نے بھی بہت مذاق اُڑایامگر میں نے کوئی
سبق حاصل نہیں کیا ،میں نے اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی لانے کی کوشش نہیں
کی ،ایک دن میں نہر کے کنارے بیٹھا تھا کیا دیکھتاہوں ،ایک چیونٹی ہے جس نے
ایک تنکا اُٹھا رکھا ہے ،وہ ا یک پتھر پہ چڑھنے کی کوشش کررہی ہے،ناکام ہو
کر گر جاتی ہے ،پھر اُٹھ کر چڑھنا شروع کرتی ہے ،پھر کئی بار کی کوشش کے
بعد بالآخر وہ پتھر پرچڑھ گئی ،میں نے اس چیونٹی کو دیکھا توخود سے سوال
کیا۔ کیا میں نے کسی امتحان میں ناکام ہونے کے بعد کبھی یہ کوشش کی کہ
آیندہ ناکامی سے بچنے کے لیے ــ’’محنت‘‘کو شعار بناؤ ں۔جواب نفی میں تھا ،بس
اسی دِن میں نے ایک فیصلہ کیا اور روز کا سبق روز یاد کرنے لگا،ہفتے میں
ایک بار گزشتہ سبق بھی دہرانے لگا ،شروع شروع میں یہ بہت مشکل لگا مگر بہت
جلد عادت بن گئی ۔‘‘گلزار نے اپنی بات کو سمیٹنے ہوئے کہا :دوستو!میری
کامیابی کا راز ،میری زندگی میں تبدیلی کا سبب،میرا ایک نالائق طالب علم سے
پوزیشن ہولڈرا سٹوڈنٹ بننے کا راز صرف اور صرف ’محنت‘ہے ۔‘‘ |