وہ درسِ الفت بھلا دیا ہے!

انسان جس بھی مقام تک پہنچے اسے اس مقام و مرتبہ تک پہنچانے میں اس کے اساتذہ کا بڑا ہاتھ شامل ہوتا ہے۔کیونکہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو تعلیم کے قیمتی زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی ،علمی،و روحانی تربیت بھی کرتا ہے۔اس لئے تو استاد کو انسان کے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔جو بناء ستائش و توصیف کی تمنا کے اپنا فرض عبادت سمجھ کر ادا کرتا ہے۔بیشک استاد ہی فرش سے عرش تک لے جاتا ہے۔پر آج کی گریڈز، نمبرز،ڈگریز کی جاری دوڑ نے استاد اور مقام ِاستاد کو فراموش کر دیا ہے۔سرکاری سکولوں پر نظر دوڑائی جائے تو ’’مار نہیں ،پیار‘‘ کی پالیسی نے طلباء کی اخلاقی تربیت پر برا اثر ڈالا ہے۔انسان جب غلطی کرے تو اس غلطی کی سزا اسے سکھاتی ہے ۔جب استاد کے ہاتھ ہی باندھ دئیے گئے ہیں تو نئی نسل کے طوفان ِ بد تمیزی پر نوحہ کناں ہونا فضول ہے۔جب کہ چند دہائیوں پہلے والدین خود اساتذہ کے پاس جا کر اپنے بچوں کی شکایتیں کرتے تھے کہ آپ اسے یہ سمجھائیں، فلاں نصیحت کریں ،خواہ ہاتھ اٹھائیں وغیرہ وغیرہ کیونکہ وہ جانتے اورمانتے تھے کہ بچوں کو استاد ہی سدھار سکتا ہے۔پر اب تو شاگرد ذرا سی ڈانٹ کی شکایت لگا کر اپنے والدین کے ہاتھوں اپنے استاد کو سکھاتے ہیں۔ایسے طلباء عزت و احترام سے محروم تباہ کردار کے مالک بنتے ہیں۔اگر پرائیوٹ سکولز کی بات کی جائے تو وہاں بھاری فیسوں اور تنخواہوں کے بوجھ نے استاد کو شیوہ پیغمبری بھلا دیاہے۔اے لیول ، اولیول کے ٹرینڈ نے ان ٹیچرز کو روبوٹ بنا دیا ہے۔وہ بس اپنے ادارے کا اچھا رزلٹ دینے کے پابند ہیں۔پرائیوٹ کالجز کے پروفیسرز بھی چندکاغذوں کے عوض اپنی عزت نفس و خودداری بھلائے بیٹھے ہیں۔بس سٹوڈنٹس کو رٹو طوطے بنا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتے ہیں۔یہ بس ڈگری ہولڈرز کی کھپت تیار کر رہے ہیں۔بس ٹیچرز اپنے اپنے نصاب سے تیار کردہ لیکچرز دے دیتے ہیں ۔یہ سوچتے ہی نہیں کہ وہ سکھا کیا رہے ہیں؟علم کی کیا روشنی پھیلا رہے ہیں؟اور ایسے فقط روزی کمانے والے ٹیچرز اس معاشرے کا کوئی بھلا نہیں کر سکتے۔ڈگری حاصل کرنے کو ہی اپنا مقصدِحیات سمجھنے والے پست ذہن ملکی تعمیروترقی میں کیا خاک حصہ لے سکیں گے؟ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کو غلط نہیں کہہ رہی ہوں بس سیکھنے و جاننے کے عمل پر سوال اٹھا رہی ہوں۔ یہ لمحہ ِفکریہ ہے۔لمحہ ِ فکریہ ہے ہمارے لئے کہ ہمیں اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے یا اخلاق و کردار سے عاری مردہ ضمیر معاشرہ تشکیل دینا ہے؟آج ہم طلباء کی تربیت سے پہلے ہمارے اساتذہ کی تربیت ضروری ہے۔ذرا نظر اٹھا کر دیکھئے ہمارے نبی کریم ﷺ معلم تھے ۔بنی نوع انسان کے راہنما ہیں پر غور فرمائیے ان کا لقب ’’امی‘‘ تھا۔شیر ِ خدا نے تو خود کو ایک لفظ سکھانے والے کو اپنا مالک قرار دے دیا۔خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے آپس میں استاد کی جوتی اٹھانے پر لڑتے ہیں کہ دونوں چاہتے ہیں کہ وہ اپنے استاد کی تکریم زیادہ سے زیادہ کر سکیں۔وہ استاد واقعی میں روحانی و علمی تربیت کرتے تھے۔بارِامانت جانتے ہوئے اپنا علم منتقل کرنا اضل سمجھتے تھے۔آج جس پستی کا شکار ہم ہیں اس کی وجہ واضح ہے۔اب یہ ہم پر ہے کہ اپنی بقاء کے لئے اپنا قبلہ درست کرنا ہے یا نہیں!
Noria Mudasar
About the Author: Noria Mudasar Read More Articles by Noria Mudasar: 32 Articles with 25957 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.