’’ دنیا میں نبوت کا سب سے بڑا کام تکمیل
اخلاق ہے۔ چناچہحضورﷺنے فرمایا کہ میں نہایت اعلیٰ اخلاق کے اتمام کے لئے
بھیجا گیا ہوں اس لئے علماء کا فرض ہے کہ وہ رسول اﷲ صلعم کے اخلاق ہمارے
سامنے پیش کیا کریں تاکہ ہماری زندگی حضورؐ کے اسوۂ حسنہ کی تقلید سے
خوشگوار ہوجائے اور اتباع سُنت زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک جاری و ساری
ہوجائے‘‘۔ یہ الفاظ علامہ اقبال ؒ کے ہیں جو انہوں نے 1926ء میں لاہور میں
عید میلاد النبیؐ کے جلسہ میں اپنے خطاب کہے تھے۔ انہوں نے مزید فرمایا ’’
ایک شور برپا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے لیکن جہاں تک میں نے
غور کیا ہے تعلیم سے زیادہ اِس قوم کو تربیت کی ضرورت ہیاور ملّی اعتبار سے
یہ تربیت علماء کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام ایک خالص تعلیم تحریک ہے۔ صدر اسلام
میں اسکول نہ تھے کالج نہ تھے یونیورسٹیاں نہ تھیں لیکن تعلیم و تربیت اس
کی ہر چیز ہے۔ خطبہ جمعہ، خطبہ عید، حج وعظ غرض تعلیم و تربیت ِ عوام کے
بیشمار مواقع اسلام نے بہم پہچائے ہیں لیکن افسوس کہ علماء کی تعلیم کا
کوئی صحیح نظام قائم نہ تھا اور اگر کوئی رہا بھی تو اس کا طریق عمل ایسا
رہا کہ دین کی حقیقی روح نکل گئی۔ جھگڑے پیدا ہوگئے اور علماء کے درمیان
جنہیں پیغمبر علیہ السلام کی جانشینی کا فرض ادا کرنا تھا سر پھٹول ہونے
لگی۔ جس کی تکمیل کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ السلام مبعوث ہوئے تھے اور ہم
ابھی اس معیار سے بہت دُور ہیں‘‘
حکیم الامت نے قوم کے مرض کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ اس کا علاج بھی تجویز
کردیا۔ علما ء کے مابین سر پھٹول کا جو ذکر انہوں کیا وہ دور حاضر میں نہ
صرف جاری بلکہ اس کی شدت مزید بڑھ چکی ہے جس کا تازہ مظاہرہ اسلامی نظریاتی
کونسل کی اجلاس میں ہوا ہے۔ علماء، اساتذہ اور اہل علم و دانش ہی قوم کی
تربیت کرتے ہیں لیکن جب اُن کی اپنی حالت ایسی ہو تو وہ کیسے تربیت کرسکتے
ہیں۔ تعلیم حاصل کرنا جانے اور معلومات کے حصول کا نام ہے لیکن قوم تربیت
سے بنتی ہے جیسا کہ علامہ نے رسول اکرمؐ کے ارشاد سے وضاحت کی ہے۔ قرآن
حکیم مقصد رسالت تذکیہ نفس کو قرار دیتا ہے۔ سورہ جمعہ کی دوسری آیت اور
سورہ البقرہ کی آیت ۱۲۹ اور ۱۵۱ میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ بد قسمتی سے
ہم میں رسمی عبادات اور ظاہریت باقی رہ گئی ہے اور ہم دین کی اصل روح سے
بہت دور ہیں۔ نماز جو نظم وضبط سیکھاتی ہے لیکن نماز سے فوراََ بعد نمازی
مسجد سے نکلتے ہوئے آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں۔ روزہ جس مقصد ہی تقویٰ اور
نظم و ضبط پیدا کرنا ہے وہ محض فاقہ کشی بن رہ گیا ہے۔ حج جیسی عظیم عبادت
سے بھی ہم نے اپنی تربیت کے لیے کچھ نہیں سیکھا۔ ہمارے سیاستدانوں، اعلیٰ
سرکاری افسروں یہاں تک کہ اہل علم کے غیر تربیت یافتہ ہونے کے مظاہرے سامنے
آتے ہیں کہ سر شرم جھک جاتا ہے۔ ہم میں (Mannersٌ) اادب آداب، طور طریقے
اور تہذیب و شائستگی کی بہت کمی ہے۔ یہ فقدان اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے میں
بھی ہے۔ بہت سے چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کا خیال نہیں رکھا جاتا لیکن ان
کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اُن سے کسی کی شخصیت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک دفعہ
استنبول سے سٹاک ہوم ٹرکش ائیر لائن سے آنے کا اتفاق ہوا۔ جہاز میں اکثریت
ترک مسافروں کی تھی۔ فلائیٹ جب سٹاک ہوم ائیر پورٹ پر پہنچی توایمیگریشن
کاؤنٹر پر رش کی وجہ سے مسافروں میں جھگڑا شروع ہوگیا اور نوبت پولیس بلانے
تک پہنچ گئی۔ پولیس نے آتے ہی کہا یہ آرام سے کھڑے ہوجائیں یہ ترکی نہیں
بلکہ سویڈن ہے۔ مغربی حکومتوں کی پالیسیاں ایک طرف لیکن اقوام مغرب نے اپنی
زندگی میں جو نظم و ضبط اور اچھے اخلاق اپنا رکھے ہیں مجھے اُن کا اعتراف
جرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم میں تربیت
اورتہذیب و شائستگی کیوں کمی ہے اور ہم میں کیریکٹر کیوں نہیں ہے۔ہمیں اُن
خوبیوں اور اوصاف کو اجاگر کرنا چاہیے جن سے انسانی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے
اور اُن امور سے دور رہنا چاہیے جو منفی خصوصیات کی حامل ہیں۔
علامہ فرماتے ہیں کہ میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریم ﷺزندہ ہیں اور اِس زمانے کے
لوگ بھی اْسی طرح مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہ اکرامؓہوا کرتے تھے۔
علامہ نے اپنے اردو اور فارسی کلام میں متعدد مقامات پر بارگاہ رسالت ؐمیں
اپنی گذارشات پیش کی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ خوشا وہ دل جو عشق نبویؐکا
نشیمن ہو۔ اسلام بحیثیت دین خدا کے طرف سے ظاہر ہوا لیکن سوسائٹی یا ملت کے
رسول کریم ؐکی شخصیت کا مرہون منت ہے۔معجزے یا پشین گوئیاں نہیں بلکہ نبی
کی تعلیم اور اس کی زندگی نبوت کے لیے حجت ہوتی ہے۔گجرات سے شائع ہونے والے
ایک قدیم رسالہ صوفی کے اکتوبر ۱۹۲۶ء کے شمارہ میں علامہ اقبال کی شائع
ہونے والی تقریر میں انہوں نے حصول تربیت کا جو لائحہ عمل دیا اس کے مطابق
ان جذبات کو قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا طریق درو وسلام ہے جو
مسلمانوں کی زندگی کا جزو لاینفک ہے۔ وہ ہر وقت درود پڑھنے کے طریقے نکالتے
ہیں۔عرب میں کہیں دو آدمی بازار میں لڑ پڑتے ہیں تو تیسرا بلند آواز میں
اللھم صلی علی سیدنا محمد و بارک و سلم پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراََ رُک
جاتی ہے۔ یہ درود کا اثر ہے اور لازم ہے کہ جس پر درود پڑھا جائے اس کی یاد
قلوب کے نادر اپنا اثر پیدا کرے۔ پہلا طریق انفرادی جبکہ دوسرا اجتماعی ہے۔
ییعنی مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص جو حضورؐ آقائے دو جہاں
صلعم کے سوانح زندگی بیان کرے تاکہ اُن کی تقلید کا ذوق و شوق مسلمانوں کے
قلوب میں پیدا ہو۔ اس طریق پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہم سب آج جمع ہیں۔
تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے لیکن بہر حال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے وہ
یہ کہ یاد رسول ؐ اس کثرت سے اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب
نبوت کے مختلف پہلوؤں کا مظہر ہوجائے یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت
حضورسرور کائنات ؐ کے وجود مقدس سے ہویدا تھی وہ آج تمہارے قلوب کے اندر
پیدا ہوجائے۔ حضرت مولانا روم فرماتے ہیں
آدمی دید ست باقی پوست است دید آں ست آنکہ دید دوست است
یہ جوہر انسانی کا کمال ہے کہ اسے دوست کے سِوا اور کسی چیز کی دید سے مطلب
نہ رہے۔ یہ طریقہ بہت مشکل ہے۔ کتابوں کے پڑھنے یا میری تقریرسننے سے نہیں
آئے گا۔ اس کے لیے کچھ مدت نیکوں اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی
انوار حاصل کرنا ضروری ہے، اگر میسر نہ آئے تو پھر ہمارے لئے یہی طریقہ
غنیمت ہے جس پر آج عمل پیرا ہیں۔ علامہ اقبال اپنے خطاب میں مزید فرماتے
ہیں کہ’’ افسوس کہ ہم میں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نہیں ہیں جن سے ہماری
زندگی خوشگوار ہواور ہم اخلاق کی فضا میں زندگی بسر کرکے ایک دوسرے کے لئے
باعث رحمت ہوجائیں۔ اگلے زمانہ کے مسلمانوں میں تقلید رسولؐ اور اتباع ِ
سُنت سے ایک اخلاقی ذوق اور ملکہ پیدا ہوجاتا تھا اور وہ ہر چیز کے متعلق
خود ہی اندازہ کرلیا کرتے تھے کہ رسول اﷲ ﷺ کا رویہ اس چیز کے متعلق کیا
ہوگا۔قرآن و حدیث کے غَوامِض بتانا بھی ضروری ہے لیکن عوام کے دماغ ابھی ان
مطالب عالیہ کے متحمل نہیں۔ انہیں فی الحال اخلاق نبویؐ کی تعلیم دینی
چاہیے‘‘۔ |