ہم نے اپنے رہبر کو لوٹ لیا ہے
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
عموماََ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ
مدارسِ اسلامیہ کا موجودہ نصابِ تعلیم فہمِ قرآن و حدیث میں انتہائی
ممدومعین ہے،نیز یہ اسلاف کا وضع کیا ہوا وہ اِلہامی نصاب ہے، جس سے چشم
پوشی کرنا گمراہی کو دعوت دینا ہے، اس وجہ سے اس نصاب کو درس سے خارج کرنا؛
گویا ان علوم کو ختم کرنا ہے جو عجمیوں کے لیے فہمِ شریعت میں آنکھ کا درجہ
رکھتے ہیں اور ان کے بغیر اصولِ شرعیہ کو سمجھنا گویا محال ہے ، اسی لیے
اربابِ مدارس درسِ نظامی یااس طرز کے موجودہ خود ساختہ نصاب کے محتاج اور
غلام ہیں،حالانکہ جس طرح کسی نظام کے بافعال اور مؤثر ہونے کے لیے کسی اچھے
قائد اور سلجھے ہوئے انسان کی ضرورت ہے، اسی طرح ایک نصاب کے بااثر اور اور
طلبہ کے لیے زیادہ مؤثر ہونے کے لیے یہ بات بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے
کہ اس نصاب کی ترتیب اور اس کے مشتملہ مضامین ان اجزا پر مشتمل ہوں جو فی
زمانہ انسان اور معاشرہ کو درپیش ہو، انسانی معاشرے کے تمام معاملات اور
مسائل کا اس میں حل ہی نہیں ، بلکہ اس کا مکمل جواب ہو،میرے گذشتہ
مضمون’’ذراقرنِ اوّل کو آواز دینا‘‘میں اسی سمت توجہ مبذول کرانے کی کوشش
کی گئی تھی کہ آج کی یہ ترقی یافتہ دنیا ہر چیز میں، ہر میدانِ کار میں
اسلام اور مسلمانوں کی مرہونِ منت ہے ، بلکہ آج کی یہ ترقی یافتہ دنیا اور
اس کے کارنامے ان کے وجود کے بغیر ممکن ہی نہیں تھے۔یہ ایسا اس لیے تھا کہ
اس زمانہ کا نصاب تعلیم چونکہ ان علوم پر مشتمل تھا جو ہر میدان میں
انسانیت کی رہبری اور رہنمائی کے لیے کافی تھے، شرعیت کی افہام وتفہیم کے
لیے بھی ایسی ایسی کتابیں موجود تھیں جوعلومِ شرعیہ کی نزاکت اور ان کی روح
تک پہنچنے میں مکمل رہنمائی کرتی تھیں، دوسری طرف طالبان علومِ شرعیہ کو
مروّجہ علوم کے کسی بھی پہلو سے تشنہ لب نہیں چھوڑتی تھیں، لیکن ہمارے
موجودہ نظامِ تعلیم کی جو نوعیت ہے، اس کا اندازہ لگا کر آپ ہی خود معلوم
کرلیں گے کہ اس نصاب میں کس قدر غیر ضروری کتابوں کی بہتات ہے اور کس قدر
غیر ضروری مضامین کو اس نصاب کے ساتھ شامل کردیا گیا ہے، چنانچہ درجۂ اوّل
سے لیکردرجۂ ششم تک منطق وفلفسہ کی تقریباََ پندرہ کتابیں ابھی داخلِ نصاب
ہیں اور طرفہ کی بات یہ ہے کہ جو کتابیں داخلِ نصاب ہیں ان میں غیر ضروری
مباحث بہت زیادہ ہیں،جیساکہ جعلِ بسیط، جعلِ مرکب، علمِ باری اور کلی طبعی
کا وجود فی الخارج جیسے مضامین کو اس طرح شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے
کہ طالب علم منطق کے اصل اور اہم مسائل سے بہت دور چلاجاتا ہے، اس کے
برخلاف فنِ تفسیر کی صرف دوکتابیں داخلِ درس ہیں؛ بیضاوی اور جلالین شریف،
بیضاوی شریف کے صرف ڈھائی پارے درس میں پڑھاجاتے تھے اب وہ بھی معدوم ہیں،
جلالین شریف مکمل پڑھائی جاتی ہے، لیکن اس طرح پڑھائی جاتی ہے کہ تفسیر کی
روح نکل جاتی ہے اورصرف الفاظ کے معانی ہی تک پر اکتفا کیا جاتا ہے اور یہی
حالت تمام کتبِ احادیث کی ہے کہ اس باب میں استاذ یا شیخ الحدیث اس طرح سبک
اور صبا رفتار سواری کی طرح عبارت خوانی کرواتے ہوئے گذر جاتے ہیں کہ پلک
جھپکنے کی سی دیرمیں دوسرے صفحہ کے سفر کا آغاز ہوچکا ہوتا ہے ۔ شرعیت کو
سمجھنے کے لیے ادب اور عربیت کی مثال شمع اور آنکھ کی طرح ہے ، مگر اختصار
کا عالم یہ ہے کہ بلاغت کی صرف دو کتابیں؛ تلخیص المفتاح اور مختصر المعانی
داخلِ نصاب ہیں اور یہ بھی مکمل نہیں پڑھائی جاتیں، جس کی وجہ سے انسان
عربیت کی روح کیا اس کی تمہیدات کو بھی کما حقہ نہیں سمجھ پاتا اور ادب کا
یہ عالم ہے کہ فضیلت اور عالمیت کی سند حاصل کرنے والے طالبِ علموں میں سے
اکثر نہیں تو عربی بول پاتے ہیں اور نہیں لکھ پاتے ہیں ، بلکہ کبچھ تو
عبارت خوانی اور ترجمہ بھی نہیں کرپاتے ، تنزلی کا عالم یہ ہے کہ تخصص فی
الادب اور تدریب فی الادب کرلینے کے بعدبھی طلباپوری طرح عربیت سے واقف
ہونا تو دور کی بات، اکثر طلبا عربی کی گنتی سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ حقیقت
یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی تو منطق وفلسفہ کی گتھی سلجھانے میں بیکار
ہوجاتی ہے اور اگر کچھ عمر بچتی بھی ہے ، تو علامہ تفتازانی اور سیبویہ کے
دلائل وبراہین یاد کرنے میں گذرجاتی ہے، حالانکہ اگر صرف نفسِ مسئلہ کو
سمجھایا جائے اور طلبا کو عبارت فہمی پر زوردلایا جائے تو جاہل رہبر پیدا
نہ ہوں ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایک طالب علم بھی ذی استعداد نہیں ہوتا، نہیں
ایسا نہیں ہے ، ایک دو تو ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اپنی فطری صلاحیت کو بروئے
کار لاکر اس سمت میں کچھ نمایا کردار اداکرجاتے ہیں، تاہم اکثریت کا نتیجہ
کمزور ہی ہوتا ہے۔ یہ طلبہ کی کاہلی نہیں، بلکہ یہ ذمہ داران اور قائدین کی
نااہلی اور غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے ، کہ وہ اپنے نونہالوں کے مستقبل کی فکر
نہیں کرتے،غیر ضروری باتوں کو طول دیتے ہیں اور اپنی روٹی سینکنے میں
دوسروں کی روٹی جلاڈالتے ہیں۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ مدارس کے طلبا کند
ذہن ہوتے ہیں اور محنت نہیں کرتے ہیں، نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے ، بلکہ
مدارس کے طلبا جس قدر محنت ولگن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور تعلیم میں دلجمعی
اور یکسوئی کا جو نظارہ مدارس کے طلبا میں دیکھنے کو ملتا ہے، وہ اسکولی
طلبا میں دور دورتک نظر نہیں آتا، اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہیں
ہوگا کہ اگر مدارس کے طلبا کی محنت اور ذہانت کو بروئے کار لایا جائے تو وہ
ہزاروں آئی پی ایس کو انگلیوں کے اشارہ پر نچادے، مگر افسوس کہ ان کے لیے
ایسا نظام اور میدانِ کار فراہم نہیں کیا جاتا ہے، جس کے باوصف وہ تاریخ کے
افق پر بے نامی کے نقوش چھوڑ کر غائب ہوجاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں کئی ایک مضامین میں اس احساس کا اظہارکیا گیاکہ آج پوری دنیا
میں اسکول اور کالج کے طلبا بھی نت نئے حالات سے دوچار ہیں، ہر کسی کو کسبِ
معاش کی تلاش ہے اور فکرِ فردا میں ہر کوئی عاشق جوالہ کی طرح وادیِ عشق
میں مارا مارا پھر رہا ہے،مگرکوئی بھی ان پر آنسو نہیں بہاتا، ان کی حالتِ
زار پر کوئی بھی افسوس نہیں کرتا ، آخر آج کچھ لوگوں کو مدارس کے طلبا کی
اتنی فکر کیوں ہوگئی ہے؟اور ان زہر گدازحالات سے صرف مدارس کے طلبا ہی
دوچار نہیں ہیں، بلکہ ہر کوئی اسی کا رونا رورہا ہے؟اوّلا تو ان کی بات ہی
صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ ہم مدارس کے طلبا کو اسکولی طلبا کے ساتھ موازنہ
کیوں کریں، مدارس کے طلبا اور فضلا کا کام تو قوم کی رہبری اور رہنمائی
کرنا ہے، نہ کہ کسی اسکول، مدرسہ، کالج ، کل کارخانہ اور فیکٹری کی چہار
دیواریوں میں مقید ہوکراپنی صلاحیت کو ضائع کرنا ہے، ان کی ذمہ داری
ڈاکٹراور انجینئر سے ہزاروں گنا زیادہ ہے، ان کی سمت اور میدانِ کار تو
متعین ہے، مگر علما کی جہت وسمت اور میدان کار متعین نہیں ہے، علما تو اس
لیے وجود میں آئے کہ وہ خلافتِ الٰہیہ کو زمین پر نافذ کریں اور خدائی
قانون کے نفاذ کے لیے راہ ہموار کرے۔ اورجس کی ذمہ داری قانون کا نفاذاور
حکمرانی کرنا ہو ، اس کے لیے صرف درسِ نظامی کو پڑھ لینا ہی کا فی نہیں
ہوگا، بلکہ ایک انصاف ور اور کارگر حکمراں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام
علوم سے واقف ہو، جو ملک اور عوام کے لیے ترقی کی ساری راہیں ہموار کردے ،
مدارس کے طلبا کے نصاب اور ان کی سند کی منظوری سے میری مراد یہی ہے۔اگر ان
کی بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے، ہر طالبِ
علم مستقبل کا ایک روشن ماہتاب وآفتاب ہے، مدارس، اسکول اور کالج کا ہر
طالب علم وہ کوکبِ دُرّی ہے ، جو رات کی تاریکی میں ایک گم گشتہ قافلہ کو
ان کی سمت کا پتہ بتا سکتا ہے،مگر کیا آفتاب و ماہتاب اور ستاروں کی روشنی
میں کوئی تفاوت نہیں ہے؟ کیا چاند کی روشنی اسی قدر ضو فشانی کرتی ہے ، جس
قدر سورج عالمِ ارضی کو اپنی شعلہ بار کرنوں سے منوراور آنکھوں کو خیرہ
کردیتا ہے اور ریت کوتپادیتا ہے؟ جب ان روشنیوں میں تفاوت اور ان کے مراتب
میں اختلاف ہے ، تو کیا مدارس اور اسکول وکالج کے طلبا کے درمیان تفاوت
نہیں؟کیا دونوں درجات میں برابرہیں؟نہیں، ہرگز نہیں ! بلکہ اگر اسکول کے
طلبا چاند ہیں تو طالبان علوم نبوت سورج ہیں، اگر وہ ستارے ہیں، تو یہ
ماہتاب ہیں، اگر وہ گلاب ہیں، تو یہ خوشبو ہیں، اگر وہ سورج ہیں تو یہ اس
کرنیں ہیں اور اگر وہ ماہتاب ہیں ، تو یہ اس کی چاندنی ہیں، نیز کس طالب
علم کے لیے قرآن وحدیث میں فضیلت آئی ہے؟ وہ کون طالب علم ہے جن کے راستے
میں فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں، مچھلیاں پانی میں اور حشرات الارض زمین پر
کس طالبِ علم کے لے دعا گوہوتے ہیں ؟وہ یہی مفلوک الحال اور گردشِ ایام سے
جھوجھنے والے مدارس کے طلبا ہیں،جن کی دادرسی کرنے اور ان کے حالات کی
ترجمانی کرنے کے لیے کوئی بھی کھڑا نہیں ہوتا، کھڑا کیا ہوتا ، ہر شخص ان
کاتشخص مٹانے کے درپے ہے۔اس کے بالمقابل پوری دنیا اسکولی نظام کو بہتر سے
بہتر بنانے کے پیچھے لگی ہوئی ہے ، نیزاسکولی طلبا کی صلاحیتوں میں نکھار
اور جلا پیدا کرنے کے لیے قوس وقزح کے ہفت رنگ سے رنگا رنگ اسمارٹ کلاسز
،عمومی اور خصوصی لَیب کی سہولت فراہم ہے اور ان کو کارآمدبنانے کے لیے طرح
طرح کے آلات اور حربے استعمال کئے جارہے ہیں، جس کے با وصف نتیجہ اور رزلٹ
آج ہمارے سامنے ہے۔ اگر کسی کی ترقی اور فلاح وبہود کی طرف توجہ نہیں دی
جارہی ہے ،ان کے مستقبل کے لیے کوشش نہیں کی جارہی ہے اور جن کے ساتھ
سوتیلے پن کا سلوک روا رکھا جارہا ہے ، تو وہ مدارسِ اسلامیہ کے طلبا ہیں۔
اس تنزلی کے ذمہ دارہمارے قائدین اور مدارس کے مہتمیمین ہیں۔آج ہمارا یہ
طبقہ ضائع ہورہا ہے اور ہمارے نظام تعلیم سے یہ اپنے مستقبل کی راہ صحیح
طور پر ہموار نہیں کرپارہے ہیں، تو کیا ان کے لیے آواز بلند کرنا ، ان کے
حقوق کی وصول یابی کے لیے کوشش کرنا، نیز طالبانِ علومِ نبوت کو احساسِ
کمتریں کے دلدل سے نکال کر حقیقت وایقان کی راہ دکھانا کیاگناہِ عظیم ہے ،
جس سے توبہ نہ کرنے والا ہمیشہ ہمیش کی آگ کا ایندھن بنے گا؟ اگر ایسا ہے
تومجھے وہ آگ قبول ہے، مگر مجھے یہ کبھی بھی اور کسی بھی حالت میں قبول
نہیں ہے کہ امت کا یہ قیمتی سرمایہ یونہی ضائع ہوجائے اورملت کے مقدر کا
ستارہ طلوع ہونے سے پہلے ڈوب جائے۔ |
|