اﷲ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے
کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔
وطن عزیز گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں سے دہشت گردی اور عدم استحکام کا شکار ہے ۔اور
یہاں روزانہ ہزاروں افراد کو قتل کیا جا رہا ہے ۔سفاک دہشت گرد کوئی بھی
موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں ۔ابھی اے پی ایس واقعے کے زخم بھرے نہیں
تھے کہ ان درندوں نے ایک بار پھر چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں فائرنگ
کر کے 21 افراد کی جان لے لی او درجنوں افراد کو زخمی کر دیا ۔مذہب کا
لبادہ اوڑھے یہ سفاک درندے کسی بھی مذہب کے پیروکار نہیں ہو سکتے۔ اسلام تو
امن و بھائی چارے کا دین ہے۔ اسلام میں انسان تو کیا جانوروں کے ساتھ بھی
رحم کا حکم دیا گیا ہے ۔20 تاریخ کی صبح چار دہشت گردوں نے باچا خان
یونیورسٹی کی دیوار پھلانگ کر پہلے گارڈ کو گولی ماری اور پھر ہاسٹل میں
داخل ہوکر اندا دھند فائرنگ شروع کر کے 21افراد کو شہید کر دیا۔ملک دشمن
عناصر تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا کر ملک کا مستقبل تاریک کرنا چاہتے
ہیں۔دہشت گرد ہمارے علمی اور فکری اثاثوں کے تعاقب میں ہیں۔بدقسمتی سے صوبہ
خیبر پختونخواہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پورا ملک اس واقع پر سوگ کی
کیفیت میں ہے ہر آنکھ اس واقعے پر اشکبار ہے ۔ درجنوں زندگیوں کو موت کے
گھاٹ اتار کر خونی درندوں نے اپنی جہالت اور سنگدل ہونے کا ثبوت دیا۔ماؤں
سے ان کے لخت جگر چھین لیئے گئے ۔قوم کے ان معماروں کا آخر قصور کیا تھا۔ان
کا قصور یہ تھا کہ وہ ان کے نظریات کے خلاف تھے ۔وہ علم کی شمع روشن کر کے
ان درندوں کے عزائم ناکام بنا رہے تھے۔تعلیم چونکہ رواداری کا درس دیتی ہے
تو یہ درس دہشت گردوں کے ایجنڈے میں نہیں ہے ۔ہماری بہادر افواج ان دہشت
گردوں کے خلاف دہائیوں سے بر سرپیکار ہے اور افواج پاکستان بڑی کامیابی سے
آپریشن ضرب عضب کر رہی ہے ۔ہماری افواج، سول سوسائٹی ، او رپولیس نے لاکھوں
جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے او ر اسی طرح لاکھوں افراد زخمی ہوئے ہیں ،
لیکن اس بہادر قوم نے اپنے سر ان ظالموں کے سامنے خم نہیں کیے۔ اور ہردفعہ
قوم نے متحد ہو کر بہادری کے ساتھ ان دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ہے ۔ میں
سلام پیش کرتا ہوں ان والدین کو جنہوں نے اپنے لخت جگر کھو کر بھی صبر،ہمت
و حوصلے کا دامن نہیں چھوڑا ہے ۔میں کل دیکھ رہا تھا کندھوں پہ لاشیں
اٹھائی ہوئی تھی لیکن ان کے عزائم میں کسی بھی طور پر کوئی کمی نہیں
آئی۔دہشت گردوں نے یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان کے وزیر
اعظم میاں محمد نواز شریف اور پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف
نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے اور سفارتی تعلقات کی
بحالی کے حوالے سے بیرون ملک دورہ کیا تھا ۔ پوری دنیا کے میڈیا کی نظریں
پاکستان پر لگی ہوئی تھی ۔پاکستا ن کی امن کوششوں کو پوری دنیا میں سراہا
جا رہا تھا ۔پاکستان نے ہمیشہ ہمسایوں اور خصوصا مسلم ممالک کے ساتھ
خوشگوار تعلقات کی پالیسی کوترجیح دی اور امت مسلمہ کے اتحاد کی بات کی ہے
۔امن پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزرہا ہے لیکن یہ امن ان دہشت گردوں
کو ایک آنکھ نہیں بھایا ہے۔ آج جب پاکستان کا امیج بہتر ہو رہا تھا اور
دنیا پاکستان کی امن کوششوں کو سراہا رہی تھی تو ایسے میں ان ملک دشمن
عناصر نے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیئے خون کی ہولی کھیل کر دنیا کی نظر میں
پاکستان کو پھر سے بدنام کرا نے کی کوشش کی۔ ضرب عضب کے بعد دہشت گردوں کے
گرد گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ لیکن ناپاک بیرونی قوتیں کبھی بھی پاکستان میں
امن نہیں چاہتیں۔بظاہر تو اس حملے کی ذمہ داری منصور نرائے نے قبول کی ہے
منصور نرائے کا تعلق درہ آدم خیل کے ایک گروپ گیدڑیاگیدڑ سے ہے آجکل اسے ٹی
ٹی پی کے موجودہ سربراہ ملا فضل اﷲ کے معتمد کی حیثیت حاصل ہے مبینہ طور پر
یہ گروپ بھارت سے فنڈنگ لے رہا ہے سیکورٹی ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ دہشت گرد
افغانستان سے بزریعہ فون رابطے میں تھے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ دہشت گردوں
نے مبینہ طور پر بھارتی کونسل خانے سے 30لاکھ بھارتی روپیہ رقم بھی وصول کی
ہے۔جیسے کہ خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ اس حملے کے پیچھے بھی بیرونی ہاتھ
لازمی ہوسکتا ہے۔مبصرین کے مطابق چند دن پہلے بھارتی وزیر دفاع نے جودھمکی
دی تھی کہ ہمیں دکھ دینے والوں کو ہم بھی تکلیف دیں گے اوردنیا دیکھے گی کہ
اس بار وقت اور جگہ کا تعین ہم خود کریں گے۔ یہ وحشیانہ حملہ بھارتی انٹیلی
جنس ایجنسیوں کی ایما پر ہو سکتا ہے ۔جو اس خطے کے امن کو تباہ کرنے پر تلے
ہوئے ہیں ۔جیسا کہ اکثر واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ جن میں کسی نہ کسی طرح
بھارت ملوث رہا ہے اور پاکستان بھی اس بات کا کئی مواقع پر اظہار کر چکا ہے
۔ پاکستان نے بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کو بھی فراہم کئے لیکن
افسوس عالمی طاقتوں نے اپنا دہرا معیار اپناتے ہوئے آج تک کوئی ایکشن نہیں
لیا اور بھارت پر کسی قسم کا کوئی پریشر تک نہیں ڈالا گیا ہے بلکہ الٹا
پاکستان سے ہی ڈو مور کا مطالبہ کرتے رہے۔دوسری طرف جب تک افغانستان میں
امن نہیں ہوتا پاکستان میں امن ہونا بہت بڑا چیلنج ہے ۔جب تک افغانستان
انٹیلی جنس اور بھارتی انٹیلی جنس را کا نیٹ ورک کام کرتا رہے گا اس طرح کے
واقعات میں کمی نہیں آئے گی ۔افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے دہشت
گردی کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔آج بھی مولوی فضل اﷲ سمیت انتہائی مطلوب دہشتگرد
وہاں بیٹھے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ۔لیکن وہاں کی حکومتوں نے انہیں
کیفرکردار تک پہچانے میں سنجیدگی سے کام نہیں لیا ۔اور وہاں بیٹھے دہشتگرد
باآسانی پاکستان میں کاروائیاں کر رہے ہیں۔
امن دشمن عناصر تو ہر وقت پاکستان کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن ہمار
ی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ سیکورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر کریں ۔
ہماری انٹیلی جنس کسی بھی واقع سے پہلے الرٹ جاری کر دیتی ہیں لیکن بھر بھی
سکیورٹی کولیپس کیوں سامنے آ جاتے ہیں۔تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کرنے کی
دھمکیوں کے باوجود سیکیورٹی کے موثر اقدامان کیوں نہ کیے گئے ۔حکومت نے اے
پی ایس ، نوشہرہ، اور شبقدر کے حملوں کے بعد بھی سکولوں کالجوں اور
یونیورسٹیوں کی سیکیورٹی کے لئے کیا اقدامات کیے ۔کیا سپیشل برانچ کے ذریعے
انٹیلی جنس نیٹ ورک موثر بن سکا۔ کیا پولیس کی کارگردگی بہتر ہوئی ۔نیشنل
ایکشن پلان پر کیوں عمل نہیں ہو رہا،نیکٹا کو کیوں فعال نہیں بنایا جا
رہایہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے ۔
بحیثت ایک محب وطن پاکستانی میر ے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ ہماری حکومت
2016 کو دہشت گردی سے مکمل خاتمے کا سال کے نعرے لگا رہی ہیں لیکن کیا وہ
عملا بھی اس پر کچھ کر رہی ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ قومی نیشنل ایکشن پلان
کی پوری بیس شکوں پر من و عن عمل کیا جائے اور حکومتی اداروں کی کارگردی کا
جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کہاں پر غفلت برتی جا رہیں ہے اور اپنی
کوہتاہیوں سے سبق سیکھ کر اورماضی کی کمزوریوں پر قابو پا کر اس نا سور کو
ختم کر کے موثر انداز میں دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ لڑے ۔ایک دن حالات کی
بہتری کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو دوسرے دن کوئی بڑا واقع رونماء ہو جاتا ہے
ا مریکی صدر اوباما نے چند دن پہلے کہا تھا کہ پاکستان مسقبل کے چند سالوں
میں بھی عدم اسحقام کا شکار رہے گا اور حا لات ایسے ہیں رہیں گے ۔اگر حالات
ایسے ہی رہے تو پھر یقینا ہمیں اپنوں کی بجائے دوسروں کی باتیں سچ لگنے
لگیں گی ۔جنگ کی صوت میں جس طرح حکومت اور اداروں کو جنگی بنیادوں پر حکمت
عملی بنانی چاہئے ہمارے ہاں اس حکمت عملی کا فقدان ہے ۔ لہذا حکومت کو
چاہئے کہ موثر حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کیا جائے
اور دنیا کو پیغام دیا جائے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی
انجام تک پہچانے کی اہلیت رکھتا ہے اور دنیا کو پاکستان کی مدد کرنی چاہئے
۔ اس جنگ میں سرگرم پاکستان کی افواج تاریخی کردار ادا کر رہی ہے ۔ضرورت اس
بات کی ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر اپنی فوج کی پشت پر کھڑی ہو ۔تاکہ یہ
درندے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں اور ایک بار پھر پاکستان امن
کا گہوارہ بن سکے ) انشاء اﷲ( |