آخر کب تک؟

باچا خان یونیورسٹی کے حوالے سے ہے۔
آخر کب تک ہماری یونیورسٹیاں، کالج اور اسکول نشانہ بنتے رہیں گے؟ کیا ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے؟ ہم اپنے ہی ملک میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم اپنے ہی ملک میں آزادی سے زندگی نہیں گزار سکتے۔ کیونکہ اب یہاں امن نہیں ہے۔ اب ہمارے نزدیک امن کامفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ ایک سانحہ سے لے کر دوسرے سانحے کے بیچ کا جو وقفہ ہوتا ہے، وہی امن کہلاتا ہے۔ ہم ایک ایسی زندگی جی رہے ہیں کہ کہیں جاتے ہیں، تو یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ واپس زندہ آئیں گے بھی کہ نہیں اور یہی حال ہمارے بچوں کا بھی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو ایک ایک کرکے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پہلے انھیں بموں سے اڑایا جاتا تھا، اب اس میں پڑھنے والوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہمارے بچے محفوظ نہیں ہیں۔ہماری مائیں صبح بچوں کو سکول، کالج یا یونیورسٹیوں میں بھیجتی ہیں، مگر ہمارے تعلیمی ادارے انکے لئے محفوظ نہیں ہیں۔ کیا اسکے لئے کچھ نہیں ہو سکتا؟ ہر بار ہماری ماؤں کو کیوں رلایا جاتا ہے؟ ہمارے نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ہماری حکومت اور اس کے ادارے تب جاگتے ہیں جب حملہ ہو جاتا ہے اور یہ پھر آکے ’’آپریشن‘‘ شروع کر دیتے ہیں۔ انکو صرف یہی آتا ہے کیا؟ ہماری حکومت کو تب ہوش آتا ہے جب سانحہ رونما ہوجاتا ہے اور اس میں ہلاکتیں ہو جاتی ہیں۔ ہمارے نوجوان شہید ہو جاتے ہیں۔ بس ان کو صرف یہی کام آتا ہے اور کچھ نہیں آتا۔ کیا ہماری حکومت اپنے ملک اور اپنے شہریوں کے لئے کچھ نہیں کرسکتی؟ یہ حکومت بھی تو ہم عام شہریوں کی وجہ سے بنی ہے۔ہماری وجہ سے آج یہ حکمران ان کرسیوں پہ بیٹھے ہیں، تو کیا یہ ہمیں تحفظ فراہم نہیں کر سکتے؟

قارئین، عجیب بات ہے کہ جب بھی حملہ ہوتا ہے، اسکولوں، کا لجوں اور یونیورسٹیوں پر ہی ہوتا ہے۔ حملہ کرنے والوں کی ہم عوام کے ساتھ دشمنی کی کیا تُک بنتی ہے؟ ہم تو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے برسر پیکار ہیں۔ اس دشمنی کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ چارسدہ سانحہ میں ایک بار پھر اے پی ایس کے واقعے کو دہرایا گیا اور ملک کی ہوا کو سوگوار کیا گیا اور پھر سے ہمارے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔

چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں پختونوں کے مستقبل پر حملہ کیاگیا ہے۔ وہاں پڑھنے والوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ ان کو بندوق کے بجائے قلم ہاتھ میں تھمایا گیا تھا۔ دوسرا ان کا قصور یہ تھا کہ وہ پشتون تھے۔ ابھی آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ کے زخم ہرے تھے کہ چارسدہ میں ہمارے دلوں پر ایک اور زخم لگایا گیا۔ ابھی تو ہم وہ معصوم چہرے بھولے بھی نہیں تھے کہ کچھ اور پھولوں کو پاؤں تلے بے دردی سے روندا گیا۔ میں پوچھتی ہوں کہ آخر کب تک ایسا ہوگا؟ کب تک ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں پر حملے ہوتے رہیں گے؟ کیا ہمارے تعلیمی ادارے اسی طرح نشانہ بنتے رہیں گے؟ اس طرح تو ہمارے بچوں کے دلوں میں ڈر اور خوف بیٹھ جائے گا اور اگر یہ تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے، تو طلبہ وطالبات کا وقت ضا ئع ہوگا اور دوسرا یہ کہ یہ اس سوچ کی پذیرائی کرنی ہے جس کی آج پوری قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ترقی یافتہ قومیں اپنے مستقبل پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتیں۔ حالیہ وسعت اللہ اپنے ایک کالم میں ایک ترقی یافتہ قوم کا حوالہ کچھ یوں دیتے ہیں کہ جاپان کی ہوکائدو ریلوے کمپنی نے تین برس پہلے کامی تیراکی ریلوے اسٹیشن کے لیے اپنی سروس غیر منافع بخش ہونے کی بنا پر بند کرنے کا فیصلہ کیا، مگر پھر یہ فیصلہ ملتوی کر دیا گیا۔ کیونکہ اس سٹیشن سے ایک بچی اسکول آتی جاتی ہے۔ اب ایک ٹرین صبح سات بج کر پانچ منٹ پر صرف اس کم سن مسافر کے لیے آتی ہے اور پھر شام پانج بجے اسے واپس لاتی ہے۔ اس بچی کا تعلیمی سال مارچ میں مکمل ہو جائے گا اور چھبیس مارچ کے بعد کامی تیرا کی ریلوے اسٹیشن کے لیے ہوکائدو ریلوے کی ٹرین سروس بھی بند ہو جائے گی۔ اتنی برف باری میں ٹرین اس واحد طلبہ کو لینے جاتی ہے،اتنی مشکل سے پالتی ہیں کچھ قومیں اپنے طلبہ کو……

مگر ہمارے طلبہ کی تو کوئی اہمیت نہیں رہی ہے۔ انہیں تو بم دھماکوں سے اڑایا جا رہا ہے۔ انکے تعلیمی اداروں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اس لیے وسعت اللہ اپنے کالم کے آخر میں کیا خوب کہتے ہیں کہ ’’شاید جاپان جیسے ممالک کو کبھی ’’ضربِ عضب‘‘ کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘
Shaista Hakim
About the Author: Shaista Hakim Read More Articles by Shaista Hakim: 5 Articles with 5858 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.