دہشت گردی اور تعلیمی ادارے!

 صبح کے وقت بچے سکولوں کے لئے نکلتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ گلشن میں پھول کھلے ہیں، سڑکوں پر تمام سواریوں کا رخ سکولوں کی طرف ہوتا ہے، غریب علاقوں اور دیہات میں بچے پیدل ہی سکول جارہے ہوتے ہیں۔ اور کسی سکول کے صدر دروازے کے پاس کھڑے ہوکر دیکھیں توکیسے سواریوں سے اتر کر بھاگ بھاگ کر سکول میں داخل ہورہے ہوتے ہیں۔ سکول کیا ہے، بچوں کا دوسرا گھر، جہاں استاد اور خواتین ٹیچرز بچوں کو ماؤں بہنوں کی طرح ملتی ہیں، بچے ان کا احترام کرتے اور انہیں آئیڈیل جانتے ہیں، ان کی ایک ایک ادا کو اپنے لئے مثال تصور کرتے ہیں، وہ گھر والوں کی بات پر عمل کریں یا نہ کریں، اساتذہ کے ہر قول وفعل کو اپنے لئے لازم قرار دیتے ہیں۔ بچوں کی یہ مادرِ علمی، ان کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہوتی ہے، چھٹی کے وقت والدین اپنے پھول بچوں کو پھر سے لینے آتے اور ان کی بلائیں لیتے ہیں، کہ آخر وہ پانچ چھ گھنٹے بعد اپنے بچوں سے ملے ہوتے ہیں، اور ماں تو گھر میں انتظار کر رہی ہوتی ہے، اُس ملن کی تو دنیا میں کوئی مثال ہی نہیں۔ یہ سب کچھ روز کا معمول ہے، فطرت کا تقاضا ہے اور روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

2014ء میں سردی کی چھٹیاں ہونے میں چار روز باقی تھے کہ آرمی پبلک سکول میں تاریخ کے جبر نے اپنے جبڑے گاڑ دیئے، یہی دن پاکستان کی تاریخ میں یومِ سیاہ کی حیثیت سے موجود تھا، کہ پاکستان کا ایک حصہ اس سے الگ کردیا گیا تھا، مگر یہ دوسرا بھیانک واقعہ پیش آیا، کہ ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، وہ تو جرم آشنا بھی نہ تھے، انہیں تو دوسروں کو تکلیف دینے کا گُر بھی معلوم نہ تھا، وہ تو ظلم کرنے پر بھی قادر نہ تھے۔ ظالم اور سفاک قاتلوں نے اس قدر فائرنگ کی کہ کلاس روم خون سے بھر گئے، لاشوں کے ڈھیر لگ گئے، فوجی آپریشن کے بعد دہشت گرد جہنم واصل ہوئے، مگر قوم کے دل پر ایسا چرکا لگا گئے کہ نہ زخم مندمل ہوگا، نہ خون رسنا بند ہوگا اور نہ ہی ان کی یاد کے دیئے بُجھیں گے۔ اس سانحے کا فطری نتیجہ یہی تھا کہ سکولوں اور تعلیمی اداروں کو سکیورٹی فراہم کی جائے، ان انتظامات کے ہونے تک حکومت نے سکولوں کو مہینہ بھر کے لئے بند کردیا، منفی نتیجہ یہ نکلا کہ جنہیں دور دراز ہونے کی بنا پر سانحہ پشاور کا درست انداز میں اندازہ بھی نہیں تھا، وہ بھی خوفزدہ ہوگئے، کئی روز کی چھٹیوں کے بعد سکول جاتے ہوئے بچوں نے سوچا کہ کہیں دہشت گرد ہمارے ہی سکول میں نہ گھس آئیں۔ انتظامات تو جیسے کیسے ہونے تھے، قوم اپنے بچوں سمیت خوفزدہ ضرور ہوگئی۔

تمام سکولوں کو سرکاری طور پر احکامات جاری کردیئے گئے، انہیں بتایا گیا کی سکیورٹی کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے ہیں، بیرونی دیوار آٹھ فٹ اونچی ہونی چاہیے، مسلح گارڈ موجود ہو، اس کے ہاتھ میں وہ آلہ بھی ہو جس سے یہ جانچا جاسکتا ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ تو نہیں، کیمرے لگے ہوئے ہوں، گیٹ پر سکول میں داخل ہونے والے ہر فرد کا نام اور وقت وغیرہ درج ہو، پولیس اور متعلقہ ذمہ داروں کے نمبر سکول کے اندر مناسب مقامات پر لگائے جائیں۔ان ہدایات پر عمل کروانے کے لئے حکومت نے ہر شہر میں اس کی متعلقہ انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ خود میدان میں اتریں اور سکیورٹی کے احکامات پر عملدرآمد کا جائزہ لیں، ایسے سکولوں کو سِیل کردیا جائے جو حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ جو میٹل ڈیٹیکٹر اٹھارہ سو روپے میں مارکیٹ میں دستیاب تھا، وہ یار لوگوں نے پانچ ہزار تک کا فروخت کیا، یہی عالم کیمروں کا تھا۔
 
حکومت نے سکولوں کی سکیورٹی کے سلسلہ میں جو احکامات جاری کئے وہ حکومت کی نگاہ میں تو بہت ضروری اور بروقت تھے، مگر بہت سے سکولوں کے لئے مسائل بھی تھے، مثلاً اگر سرکاری سکولوں پر نظر ڈالی جائے تو کون نہیں جانتا کہ بے شمار سکول دیگر بہت سی سہولتوں کے فقدان کے ساتھ ساتھ چار دیواری سے ہی محروم ہیں، ایسے میں کونسی سکیورٹی اور کیسی سکیورٹی؟ اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورت کیا ہوسکتی ہے کہ بغیر چاردیواری والے سکول کو سکیورٹی گارڈ یا دیگر اقدامات کے احکامات دیئے جائیں۔ ایک شہر کے اندر ایک ایسا ہائی سکول بھی تھا جو شہر کا ماڈل سکول تھا، اس کے گیٹ پر سکیورٹی کے مکمل انتظامات تھے، مگر اس کی جو دیوار بڑی سڑک کے ساتھ لگتی تھی وہ تین سے چار فٹ بلند تھی، سکول انتظامیہ کا جواب یہی تھا کہ حکومت فنڈ دے گی تو دیوار بن سکے گی۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ سکیورٹی گارڈ کا بھی ہے، سرکاری سکولوں کا یہی کہنا ہے کہ گارڈ تو حکومت نے ہی دینا ہے۔ ان سرکاری سکولوں کے بعد نجی تعلیمی اداروں کا معاملہ ہے، حکومت نے احکامات تو سب کو دے دیئے، مگر زیادہ تر سکول گلی محلہ میں کھلے ہوئے ہیں، جن کی آمدنی بھی اتنی ہے کہ بس ان کا گزارہ چل رہا ہے، ایسی صورت میں وہ ایک گارڈ یا دیگر اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ حکومت نے سکولوں کی کیٹیگری بھی بنائی، جس میں فیسوں اور تعداد کو مد نظر رکھا گیا۔ اس صورت میں حکومت کا دباؤ مخصوص وقت تک جاری رہا، اور کام ٹھنڈا ہوتا گیا۔ سانحہ پشاور کے موقع پر حکومت نے سکولوں میں مہینہ بھر کی چھٹیاں کردی تھیں، مگر وقت کی ساتھ ساتھ غم کی شدت کم ہوئی اور سکول کھل گئے، اب تقریباً تیرہ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں نے کاری وار کیا، اب ان کا نشانہ سکول نہیں یونیورسٹی تھی، چارسدہ یونیورسٹی میں حملے سے ایک پروفیسر اور دو طالبات سمیت بیس طلبہ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اس غمناک واقعے کے بعد حکومتوں نے ایک مرتبہ پھر سکیورٹی کے لئے اپنے انتظامات کا از سرِ نو جائزہ لیا، اور اُسی شدومد کے ساتھ دوبارہ احکامات جاری ہونے لگے۔ یہ حکومت کا فرض بھی ہے اور فطری ضرورت بھی۔

سکیورٹی کے سلسلہ میں حکومتی اقدامات کو دیکھا جائے تو زمینی حقائق کچھ مختلف ہیں، پاکستان میں کونسی یونیوسٹی ہے، جو کسی چاردیواری میں محصور ہو، کئی مربع کلومیٹرزرعی زمینیں بھی یونیورسٹیوں کی ملکیت ہیں، اس وسیع تناظر میں دیواریں بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ یہاں یہ ستم بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گرد وں نے جہاں بھی حملہ کیا، وہ ائیر بیس ہو یا پولیس کا تربیتی مرکز، عقبی دیوار کو پھلانگ کر ہی اندر آئے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے سکولوں کی سکیورٹی کو مکمل طور پر فول پروف بنانا ممکنات میں سے نہیں۔ فرض کیا کسی سکول میں چاردیواری اور دیگر بندوبست بھی مکمل ہیں، مگر چھٹی کے وقت جب بچے باہر آتے ہیں، ان کے والدین یا دیگر لوگ بچوں کو گھر لے جانے کے لئے جمع ہوتے ہیں، موقع پر سڑک بلاک ہوجاتی ہے، اگر خاکم بدہن ایسے میں کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو ذمہ داری کس کے کندھوں پر آئے گی؟ اب حکومت چونکہ سکیورٹی کے بندوبست والے معاملے کو ناقابل برداشت قرار دے رہی ہے، اس لئے حکومت پنجاب نے اپنے طور پر صوبہ بھر کے اضلاع کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کردیا ہے، اور اسی حساب سے ان کی سکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ چونکہ حکومت کا حکم ہے اس لئے مقامی انتظامیہ بھی حد درجہ جذباتی ہے۔

اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ ضرورت دہشت گردی کے خاتمے کی ہے، سکولوں کو بند نہیں کیا جاسکتا، مساجد میں جانے سے نمازیوں کو روکا نہیں جاسکتا، بازاروں میں لوگو ں نے جانا ہے، دفاتر اور فورسز کے تربیتی مراکز یا دیگر مقامات کی مکمل حفاظت کرنا اور ہر جگہ پر سکیورٹی کے تمام عناصر کا پورا کردینا ممکن نہیں۔ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے تعلیم کا عام کیا جانا ضروری ہے، ترقی کی لہر کو پسماندہ علاقوں کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے،بے روز گاری کا خاتمہ ہو، بنیادی ضرورتیں دستیاب ہوجائیں، تب قانون کی عملداری کا اہتمام ہو، فاٹا کے لوگوں کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ دشمن کی خبر بھی رکھی جائے، دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام کرنے کے بندوبست کئے جائیں۔ پورے ملک کو پرامن بنانے کی ضرورت ہے، نہ کہ ہر شخص یا ہر ادارے کو مسلح کرنے کی۔ حکومت کے اقدامات اور ہدایات اپنی جگہ، مگر یہ صرف دل کو تسلی دینے والی بات ہے۔ کرنے کا اصل کام دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473372 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.