تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی فول پروف بنائی جائے
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد گورنمنٹ
کو تعلیمی اداروں کی حفاطت کا مسٔلہ درپیش آگیاہے ،آرمی پبلک سکول پشاور
اور باچا خان یونیورسٹی پر حملوں نے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی پر سوالیہ
نشان لگا دیا ہے آرمی سکول کے بعد حکومت نے کچھ اقدام کئے مگر انھیں ادھورا
چھوڑ دیا گیا اب باچا خان یونیورسٹی کے بعد مزید تعلیمی اداروں پر حملوں کا
خطرہ بڑھ گیا ہے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج کی
حیثیت رکھتا ہے صوبائی حکومتیں سیکیورٹی کے حوالے سے ہاتھ کھڑی کرتی نظر
آرہی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت تمام تعلیمی اداروں کو سیکیورٹی فراہم
نہیں کر سکتی۔دوسری طرف اسلامی تحریک طلبہ ،اسلامی جمعیت طلبہ،جے ٹی آئی
س،ف،ایم ایس ایم،ایم ایس ایف،اے ٹی آئی سمیت پاکستان کی تمام طلبہ تنظیموں
کا مطالبہ ہے حکومت تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کو یقینی بنائے اگر اب کوئی
سانحہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں رونما ہوا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی ،حکومت
سیکیورٹی فراہم کرکے اپنا اولین فرض ادا کرے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کا مسٔلہ حکومت نے اپنی مدد آپ کے تحت
کرنا ہے ،سرکاری تعلیمی اداروں میں بہت سے ایسے ادارے ہیں جن کی دیوار یں
تک نہیں ،اگر ہیں تو بہت چھوٹی ہیں ملک دشمن عناصر کسی بھی وقت کچھ بھی کر
سکتے ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ سرکاری اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے
میں سب سے پہلے ان کی باؤنڈری والز کو اتنا اونچا کروائے کہ کوئی اسے
پھلانگ نہ سکے ۔ سیکیورٹی گارڈز کا مناسب تعداد میں رقبے کو مدنظر رکھ کر
تعین کیے جائیں ۔بہت سے ادارے ایسے ہیں جن کا رقبہ بہت بڑا ہے جیسے پنجاب
یونیورسٹی ودیگر تو ایسے اداروں کو سیکیورٹی اہلکار اتنی ہی زیادہ تعداد
میں فراہم کئے جائیں جتنی ضرورت ہے وقت پاس کرنے کیلئے کاغذی کاروائی نہ کی
جائے ۔سیکیورٹی اہلکاروں کے پاس جدید اسلحہ ہونا چاہیے جو بوقت ضرورت چل
بھی سکے ۔سیکیورٹی کے حوالے سے پرائمری ،مڈل اداروں کی سیکیورٹی منصوبہ
بندی ایسے کی جائے کہ ننھے بچے خوفزدہ نہ ہوں اکثر یہ سننے اور دیکھنے میں
آیا ہے کہ بچے اسلحہ سکولز میں دیکھ کر خوف زدہ ہوئے ہیں لہٰذا بنیادی
اداروں میں سیکیورٹی خفیہ ہونی چاہیے ۔
سیکیورٹی کے حوالے سے نجی تعلیمی ادراوں کا ہمیشہ سے یہ مسٔلہ رہا ہے کہ وہ
اس کمی کو پورا نہیں کر پائے کیونکہ ان میں سے اکثریت تعلیمی ادارے کم
وسائل کے حامل ہیں جو معمولی سیکیورٹی انتظام بھی نہیں کر سکتے فول پروف تو
دور کی بات ہے ۔بالفاظ دیگر اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اکثرگلی محلوں میں کھلے
نجی تعلیمی ادارے جو فروغ علم میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں ان کے پاس
سیکیورٹی کے وسائل بالکل نہیں ہیں کیونکہ وہ کرائے کی بلڈنگز میں قائم ہیں
اور اپنا خرچہ ہی بڑی مشکل پورا کر رہے ہیں ۔اسی لئے پرائیویٹ اداروں کی
ایسو سی ایشنز کا کہنا ہے کہ حکومت فول پروف سیکیورٹی کیلئے نجی تعلیمی
اداروں کے ساتھ تعاون کرے ۔نجی اداروں کو فری اسلحہ اور لائسنس فراہم کئے
جائیں اسلحہ لائسنس کے حوالے سے گذارش ہے کہ کمپیوٹرائزڈ اسلحہ برانچ کوتیز
کام کرنے کی ہدایات کی جائیں کیونکہ پچھلے سال سے جمع کروائے گئے پرانے
لائسنس ہولڈرز کو ابھی تک اسلحہ لائسنس جاری نہیں کئے گے تو اسلحہ برانچ
تعلیمی اداروں کو نئے لائسنس کیسے جاری کرے گے؟ اور منظم سیکیورٹی کیلئے
گورنمنٹ رضا کر بھرتی کرے اور ان کو ہنگامی بنیادوں پر ٹر یننگ دی جائے جو
سکولز کو دئیے جائیں ان رضا کاروں کی نصف تنخواہ حکومت خود قومی خزانے سے
ادا کرے اور نصف ادارے خود ادا کریں ایساکرنے سے تعلیمی اداروں کا تحفظ
کافی حد تک صحیح ہو جائے گا ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر حکومت نے روایتی طرزعمل کا مظاہرہ کیا کہ
نجی تعلیمی ادارے اپنا سیکیورٹی نظام خود اپنی مدد آپ کے تحت کریں اورجو
ادارے حکومت کے سیکیورٹی معیار پر پورا نہ اتریں انھیں بند کرنے کی دھمکیاں
دی گئیں تو یہ کسی صورت درست نہیں ہوگا۔کیونکہ یہ اقدام غریب کیلئے ہی
تعلیم کے دروازے بند کرے گا کیونکہ مہنگے تعلیمی ادارے تو اپنا سیکیورٹی
انتظام کرلیں گے سستے گلی محلوں کے تعلیمی ادارے بند ہو جائیں گے تو غریب
کے بچوں کو دوسو،تین سو روپے میں تعلیم کون دے گا حکومت سستے نجی تعلیمی
ادارے بند کرنے کے اصول سے مہنگے تعلیمی اداروں کی اجارہ داری قائم ہوجائے
گی اور سرکاری تعلیمی ادارے کم ہونے کی بناء پر غریب کا بچہ وسائل نہ ہونے
کی بناء پر تعلیم سے محروم ہوجائے گا ۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب حکومت
نے چند ماہ پہلے نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کا نیا طریقہ کار وضع کیا
تو متوسط طبقہ کے تعلیمی ادارے اس کی زد میں آگئے محکمہ تعلیم ان اداروں کو
بھی نوٹسز جاری کر رہا ہے جنھوں نے دوسے تین سال پہلے فائل مکمل کرکے ڈی ای
او آفس میں مجع کروا دی تھی۔ اب بھی دو سو تعلیمی ادارے نئے طریقہ رجسٹریشن
کے پراسس میں ہیں مگر ان کی کمیٹیاں ابھی تک وزٹ ہی نہیں کر پائیں پرائیویٹ
سکولز کی تنظیموں کی طرف سے مطالبہ سامنے آیا ہے کہ پرانارجسٹریشن کا طریقہ
بحال کیا جائے نیا طریقہ قبول نہیں کیونکہ اس سے تعلیمی اداروں کا نقصان ہو
رہا ہے جب کہ مہنگے تعلیمی ادارے اس سے بچ گئے اب سیکیورٹی کے مسٔلہ پر بھی
حکومت نے اگر کچھ نہ کیا تو نتیجہ صفر ہی رہے گا ۔ حکومت کو چاہیے کہ کوئی
بھی قانون وضع کرتے وقت درجہ بندی کے اصول کو مدنظر رکھے اور آسان ،عام فہم
طریقہ وضع کرے تاکہ تناؤ کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ اگر حکومت نے ہماری تجاویز
پر غور کیا تو سیکیورٹی کا مسٔلہ حل ہو جائے گا اور قوم کے بچے کسی نہ کسی
حد تک محفوظ ہوجائیں گے ۔ |
|