میں اور وہ آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔ میری
کوشش تھی کہ کچھ اس کے اور اس کے مشاغل کے بارے تفصیلی جان جاؤں اسلئے
مسلسل بول رہا تھا مگر وہ سر جھکائے اپنے حال میں مست ہوں ہاں میں بہت
مختصر جواب دے رہا تھا۔ مجھے کچھ غصہ آنے لگا۔ اچانک دروازہ کھلااور ہوسٹل
میں ہم سب طلبا کے نمائندے ہوسٹل سیکرٹری نے اندر گھستے ہی اطلاع دی کہ شام
کو ہوسٹل میں ایک تقریری مقابلہ ہو رہا ہے اور مجھے اس میں حصہ لینا ہے۔
ٹھیک ہے مگر یہ میرے دوست ہیں ان کا بھی نام لکھ لو۔میرا مقصد تھا کہ اسی
بہانے شاید میرا مہمان دوست کچھ بولنے لگے ۔ مہمان سے پوچھا تو بولے ـ،
بھائی جیسے آپ کی مرضی۔مجھے یونیورسٹی میں داخلہ لئے اور اس ہوسٹل میں آئے
چارپانچ ماہ ہو چکے تھے اور میرا یہ مہمان دوست آج ہی یونیورسٹی میں داخلہ
لینے اور ہوسٹل شفٹ کے بعدکسی مشترکہ دوست کے حوالے سب سے پہلے مجھے ملنے
میرے پاس آیا تھا۔ اس کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا ۔ وہ جمعیت کا ایک
بڑا عہدیدار تھااور جماعت اسلامی کابہت زبر دست حامی ۔
شام کو ہوسٹل کا چھوٹا سا ہال طلبا سے بھرا ہوا تھا۔ پہلے کچھ وقت موضوع کی
تلاش میں صرف ہوا۔ طلبا ہلکے پھلکے موڈ میں تھے۔ فیصلہ ہوا کہ اس وقت کی د
و معروف اداکاروں کے درمیان مقابلہ کرا دیا جائے۔ چنانچہ موضوع تھا فلاں
اداکارہ کی نسبت فلاں بہتر اداکارہ ہے۔طلبا بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ۔
کسی کا دل ایک اداکارہ کی اداؤں پر مچل رہا تھا اور کوئی دوسری کا پرستار
تھا۔ چھ سات عشاق اپنے اپنے جذبات کا اظہار کر چکے تو میرے اس دوست کو
پکارا گیا۔ اس جذباتی اور ہلے گلے سے بھرپور ماحول میں ا س نے آتے ہی اپنی
تقریر کی ابتدا جب رب العزت کے پاک نام سے شروع کی تو سب دوستوں نے مسکرا
کر ایک دوسرے کی طرف دیکھاکہ اس قدر فضول موضوع اور اس قدر سنجیدہ ابتدا۔
مگر وہ پتلا دبلا، نرم گواور خاموش خاموش نوجوا ن میرے خیال کے بر عکس پوری
گن گرج کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگانے لگا۔
عزیز دوستو! آج کا موضوع میرے لئے بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی مجھے کہے کہ
فلاں فلاں دو بد ترین برائیوں میں کوئی ایک پسند کرو تو میں مشکل کا شکار
ہو جاؤں کہ کیا پسند کروں اور کیانا پسند کروں لیکن آج کا دور چونکہ جمہوری
دور ہے اور آج انہی قدروں کو صحیح اور سچ سمجھا جاتا ہے جنہیں جمہور کی
اکثریت صحیح اور سچ قرار دے۔ آج کی جمہور چونکہ فحاشی پسند ہے ، عریانی
پسند ہے اور دوسری اداکارہ کی نسبت پہلی اداکارہ ان کی امنگوں کا بہتر ساتھ
دے رہی ہے اس لئے میں جمہور کے جذبات کے احترام میں پہلی اداکارہ کو ہی
بہتر کہوں گا۔دونوں اداکاراؤں کا اگر تقابل کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ
پہلی اداکارہ تو شاید کبھی کبھار ڈوپٹہ لے لیتی ہومگر دوسری اداکارہ کو
ایسی توفیق بھی کبھی نہیں ہوئی۔ آج کی جمہور چونکہ اپنی ماؤں اور بہنوں کے
ڈوپٹے نوچ لینا چاہتی ہے اور پہلی اداکارہ لوگوں کے ارمانوں کی بہتر نگہبان
ہے اس لئے جمہور کے جذبات کے احترام میں ، میں پہلی اداکارہ ہی کو بہتر
کہوں گا۔آج کی جمہور کا مزاج عجیب ہے یہ اپنی عورتوں کو رونق بازار بناتے
اور انہیں تھرکتے اور ناچتے دیکھ کر خوش ہوتی ہے اور پہلی اداکارہ دوسری کی
نسبت لوگوں کی خوشیوں کا بہتر سامان کر رہی ہے اس لئے جمہور کے جذبات کے
احترام میں ، میں پہلی اداکارہ ہی کو بہتر کہوں گا۔وہ جو عام زندگی میں بہت
دھیمے انداز میں گفتگو کرتا تھا۔ اس وقت بہت زور شور سے، جمہور کے جذبات کے
احترام میں کہتا ہوا، جمہور کے چہرے پر طمانچے رسید کرتا رہا۔ ہال میں شور
و غل کی جگہ سنجیدگی نے لے لی۔ تمام لوگ انہماک سے اس کی باتیں سنتے رہے۔
وہ بولتا رہا اور معاشرے اور لوگوں کی اخلاقی خامیوں کوبڑی خوبصورتی سے
بیان کرتا رہا۔ لوگوں کی غیرت اور حمیت جگاتا رہا۔ اس کی تقریر ختم ہوتے ہی
وہ مقابلہ بھی ختم ہو گیا۔
منتظمین نے اسے پہلے انعام کا حقدار قرار دیا۔وہ سٹیج پر آیا اور سب سے
معذرت کی کہ وہ یہ انعام نہیں لے سکتا۔ اسلئے کہ اس کے پاس انعام کی
موجودگی میں اگر کوئی سوال کرے کہ انعام کیسے ملاتو ایسے موضوع کے بارے
بتانا اس کے لئے باعث شرم ہو گا اور اگر وہ جھوٹ بتائے گا تو اس کے لئے
ضمیر کی خلش کا باعث ہو گا۔یہ کہہ کر وہ سٹیج سے چلا گیا مگر لوگوں کے دلوں
میں اتر گیا۔ یونیورسٹی کے طلبا نے اسے بے حد احترام دیا، بے پناہ عزت
دی۔آج میری اور اس کی دوستی کو تقریباً پنتالیس (45) سال گزر چکے ہیں۔بہت
عرصہ ہوا جماعت اسلامی اور جمعیت سے وہ ناطہ توڑ چکا ہے۔ اب جماعت یاجمعیت
سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا مگر سادگی اور عاجزی آج بھی اس کا وصف ہے۔ وہ
آج بھی ہمیشہ کی طرح خاموش خاموش ،کم گو، صاحب علم اور بے حد حیارکھنے والا
ہے۔ اس کے دوست بہت محدود ہیں مگر وہ ان کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ مگر جانے
کیوں میرا وہ دوست آج بھی جب مجھے ملتا ہے تو میں جماعت اسلامی کی موجودہ
صورتحال کا 1971 میں کی گئی اس کی اسی تقریر کے حوالے سے تجزیہ کرنے لگتا
ہوں۔
70 کی دہائی میں جماعت اسلامی ایک بڑی پارٹی تھی۔ چند حلقوں میں وہ آ سانی
سے جیتنے کی پوزیشن میں تھی۔ باقی حلقوں میں ہر جگہ ان کے پانچ سات ہزار
ووٹ ضرور تھے جن ووٹوں کے زور پروہ آسانی سے دوسری پارٹیوں سے جوڑ توڑ کرکے
چند اور نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔مگر آج جماعت بہت تیزی سے
تنزلی کا شکار ہے کسی بھی حلقے میں وہ اکیلی جیتنے کے قابل نہیں۔جب بھی
کوئی الیکشن ہوتا ہے تو جماعت اسلامی مشکل کا شکار ہو جاتی ہے کہ دوسری
تمام لبرل پارٹیوں میں سے، جنہیں عام حالات میں وہ برائی قرار دیتی ہے ،
کون سی برائی کا انتخاب کرے کہ الیکشن جیت جائے اور یہ اس کی مجبوری ہے کہ
الیکشن میں زندہ رہنے کے لئے اسے بہر حال کسی ایک برائی کے ساتھ چلنا
پڑتاہے۔اس مخلوط پن کے نتیجے میں جماعت کے زیادہ تر کارکن لبرل ہونے کے بعد
جماعت سے لاتعلق ہو چکے ہیں۔موجودہ قیادت کی تمام تر کاوش کے باوجود تنزلی
کا سفر ختم نہیں ہو رہا۔ پچھلے پچیس تیس سال میں کوئی نیا خون داخل نہیں
ہوا۔اس نوجوان جیسے غیرت اور حمیت کے پیکر اب نظر نہیں آتے۔ لیڈر شپ جمود
کاشکار ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جماعت اب ایک جمہوری جماعت ہے اور جمہور کے
جذبات کے احترام میں اس نے خود کو جمہور کے انداز ہی میں ڈھال لیا ہے۔
یقینا بہت سے ایسے کارکن اور لوگ ہوں گے جنہیں احساس زیاں تو ہو گا مگر وہ
سمجھتے ہیں کہ جمہور کے جذبات کے احترام میں اب خاموش رہنے ہی میں ان کی
بھلائی ہے۔ |