ہٹ دھرمی

ہٹ دھرمی کے معنی ہوتے ہیں ضد،کسی بات پر اڑ جانایا اڑے رہنا۔گھریلو مکھیاں جسے’House Flies‘ کہتے ہیں ، مزاجاً بہت ضدّی ہوتی ہیں۔اکثر آپ اس کی اذےّت سے ضرور دو چار ہوئے ہوں گے۔مکّھی کی خصلت ہوتی ہے کہ ایک بار جہاں بیٹھی اور کسی نے اُڑا دیا تو بار بار اُسی جگہ پر بیٹھنے کی کوشش کرے گی جہاں سے اُڑائی جائے گی۔ہماری مذہبی ضدیں بھی مکّھیوں سے کچھ کم نہیں ہیں۔ہم ہر وہ کام کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں جسے شریعت میں روکا گیا ہو۔ ہٹ دھرمی میں بہت سی رسومات ایجاد کی گئیں اور اسلام کا ایک حصہ بنا لیا گیا۔جب پوچھا جاتا ہے کہ یہ جو تم کرتے ہویہ کہاں سے سیکھا۔تو اس کے جواب میں کہاجا تا ہے’ہمارے باپ دادا سے چلا آرہا ہے‘۔اس طرح کے خیالات والے صرف وہی لوگ نہیں ہیں جونا خواندہ ہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو خواندگی کی بڑی بڑی ڈگریاں رکھتے ہوئے اپنی لنگڑی دلیلوں سے بدعتوں کو عبادت کا حصہ ثابت کر نے لگتے ہیں۔

جب کہ حضور اقدس ؐنے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا’’مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلے کی قومیں اسی سے برباد ہوئیں‘‘۔اب حکم تو یہ ہے کہ مذہب میں کوئی چیز شامل نہ کی جائے لیکن نئی نئی چیزیں ایجاد ہوتی چلی جا رہی ہیں۔یہ مذہبی ایجادات عوام النّاس کی سطح کی نہیں ہیں بلکہ یہ ایجادات اُن لوگوں کی ہیں جو اپنے کو عالم اور مذہبی ٹھیکے دار کہلاتے ہیں۔ان لوگوں نے عوام میں ائسی رسومات ایجاد کرا دی ہیں جن کا تعلق اﷲ اور رسولؐ کے احکامات سے نہیں بلکہ سیدھا ان کے شکم سے جڑا ہوا ہے۔اپنے ظالم پیٹ کے لیے کیا کیا غیر شرعی کام عوام سے کراتے رہتے ہیں۔مردے کو اگر جنّت بھیجنا ہے تو تیجا، دسواں، چالیسواں ،برسی ضرور کرنا۔یا فلاں پیر صاحب کو مرغا بہت پسند تھا،ان کے عرس وفاتحہ میں مرغا ضرور ہونا چاہئے ․․․․․اور نہ جانے کیا کیا۔بارہ وفات، کونڈے، شب برأت، گیارہویں شریف وغیرہ کے مواقع صرف خوش ذایقہ پکوان کی وجہ سے یا دکیے جا تے ہیں۔ماہ کی ہر جمعرات اور بالخصوص نو چندی جمعرات کو بھی پلاؤ زردہ کی وجہ سے یاد گار بنا لیتے ہیں۔

یہ کھانے پینے کا شعبہ ہے،شرعی احکامات سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔یہ کھاتے رہیں لوگ ان کوجنّت کی لالچ میں کھلاتے رہیں گے، ان کا اسلام اور ان کی شریعت چلتی رہے گی۔ قرآنی احکامات کے مفہوم کو بھی اپنی مرضی کی مطابق بیان کرنے سے نہیں چوکتے۔ قرآن کی سورہ کہف کی آیت۱۱۰ کا ترجمہ ہے’آپؐ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں‘۔اس ترجمہ کو کھانے پینے کے شعبہ والے عالم اس طرح کرتے ہیں کہ حضور اقدس ؐ نے اﷲ کے کہنے پر اپنے کو بشر بتلا دیا(ورنہ وہ بشر نہیں تھے وہ تو سراپا نور تھے)۔بہر حال یہ کھانے پینے والے شعبہ کے بند ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں بلکہ اس میں اور اضافہ ہی ہو رھا ہے ۔ہم سب نے اس طرح کی خبریں تو بہت سنی ہوں گی کہ فلاں گاؤں کے سارے مسلمانوں کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اس لیے ان لوگوں نے اپنے نکاح کی تجدید کرائی۔ کئی مسجدوں میں الگ الگ جماعتیں ہوتی ہیں۔ان اوقات میں فرشتوں کو بھی بڑی پریشانی سے گزرنا پڑتا ہوگا،وہ یہ نہیں طے کر پاتے ہوں گے کہ اس نئے کھانے پینے والے شعوبوں کی نمازوں کی کس خانے میں رکھیں۔بہر حال یہ فرشتوں کا مسئلہ ہے فرشتے جانیں لیکن حد وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جب لاش کو قبر سے نکال کر جس گھر سے جنازہ قبرستان کو گیا تھا،اسی گھر میں لا کرڈال دیا جاتا ہے۔ یہ حال ہو گیا ہے رحمت العالمین کی امّت کا۔اب یہ کون بتائے کہ یہ نشانیاں اور علامتیں مسلمانوں کی تباہی کی ہیں۔کیا ہمارے انہیں اعمال پر ہمیں دنیا کی سربراہی عطا کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے؟کیا اس کا جواب کھانے پینے والے شعبے کے عالم دیں گے؟جس قوم کا عالم گمراہ ہو جائے اس قوم کو اﷲ کے غضب سے کون بچائے گا؟

سبرامنیئم سوامی،موجودہ مرکزی وزیر، جن کی بیٹی مسلمان کو بیاہی ہے صاف صاف لفظوں میں کہتا ہے کہ ہندوؤں کو متحدکر کے مضبوط بنانا ہے اورمسلمانوں کو منتشر کرکے کمزور کرنا ہے۔سوامی کو بدھائی ہو،ان کی کوششوں کے بغیر ہی کلمہ گوآپس میں جانی دشمن ہو رہے ہیں اور دشمنی کی وجوہات بہت معمولی ہوتی ہیں۔ہم نے قرآن کی تعلیمات اور رسولؐ کی سنّتوں کو بھلا دیا ہے اور اپنا اپنا اسلام ایجاد کرکے امّتِ مسلمہ کو فرقوں میں تقسیم کر دیا۔اب ہمارے عالم ہیں، ہم ہیں ،ہمارا فرقہ ہے اور دوسرے فرقہ کے لیے ہمارے دلوں میں نفرتوں کا انبار ہے۔ ہمیں اس انبار کو ہٹانا پڑے گا اور اس کے نیچے دبے ہوئے اﷲ اور رسولؐ کے احکامات کو اوپر لانا پڑے گا اور ان پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔جزدانوں میں جکڑ کر جو ہم نے قرآن رکھ دیے ہیں اور کھانے پینے پر ایمان رکھنے والے عالموں کے ساتھ ہو لیے ہیں اور یہ لوگ ہم کو گمراہی اور نافرمانی کے گڑھے میں ڈھکیلنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ہم ان کی بتلائی ہوئی باتوں کو قرآن اور حدیث کی روشنی پرکھیں، پھر یقین کریں۔

قرآن کہتا ہے کہ’’ سب مل کر اﷲ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لواورتفرقے میں نہ پڑو اور اﷲ کی نعمت کو یاد کروکہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم تو جہنم کے کنارے پر تھے، اس نے تمہیں بچا لیا۔ اﷲ اسی طرح اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے شاید تم ہدایت پا جاؤ اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو تمہیں خیر کی دعوت دے، تمہیں نیکیوں کی طرف بلائے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں اور خبر دار تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آنے کے بعد بھی اختلاف کیے، ان کے عذاب عظیم ہیں‘‘ (سورہ آل عمران ۱۰۳۔۱۰۵)۔اﷲ رب العزت ایک جگہ اور ارشاد فرماتے ہیں ’’اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں تنازعہ نہ پیدا کرو ورنہ کمزور پڑ جاؤگے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی اور صبر کرو کہ اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔(سورہ انفال:۴۶)۔

قرآن صاف صاف کہہ رہا ہے کہ ’’آپس میں تنازعہ نہ پیدا کرو ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے‘‘۔ہم قرآن کے بتلائے ہوئے راستے پر چلنے کے بجائے شکم پرور عالموں کے پیچھے چل رہے ہیں اور اﷲ و رسولؐ کی مخالفت مول لے رہے ہیں۔ہم اپنے ذہن کے بند دریچوں کو کھولیں اور اپنے عالموں سے پوچھیں کی کن احکامات کی تعمیل میں ہماری مسجدوں کے دروازے دوسروں کے لیے بند کیے جاتے ہیں،اﷲ کے کس حکم کے تحت ’یوسف‘ کی نعش قبر کھود کر نکالی جاتی ہے اور اس کے گھر پہنچا دی جاتی ہے۔کیا یہ ہٹ دھرمی نہیں ہے؟

اسی ہٹ دھرمی کی بنا پر اﷲ کی نصرت اور برکت ہم سے روٹھی ہوئی ہیں۔ہمارے بچے تعلیم میں پیچھے ہیں،ہماری بچیوں کی شادیاں مہال ہو رہی ہیں ، فقر و فاقہ کے ہم مارے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہے لیکن اگر سروے کرایا جائے تو ملے گا کہ مسلمانوں کی اکثریت بیمار رہتی ہے، جاہلوں کی اکثریت انہیں میں ہے،بے روزگاروں کی کثرت انہیں میں ملے گی،بھیک مانگنے والوں کی بھرمار مسلمانوں میں ہی ہے،ناک پر غصہ رکھنے والوں کی اکثریت مسلمانوں میں ہے،عدالتوں میں جائیں تو برقعہ اور ٹوپی والوں کی تعداد کی کثرت دکھے گی۔ایسا کیوں ہے؟وہ صرف اس لیے کہ ہم دین سے دورہو گئے ہیں،ہم اخوت اور بھائی چارے کی کشش کو بھول چکے ہیں،حقوق العباد کی ذمہ داریاں ہمیں نہیں معلوم۔

آئیے ہم ابھی بہت دور نہیں گئے ہیں، ہم دین کی طرف لوٹیں ،ہٹ دھرمی کو چھوڑیں، علم سے جُڑیں،اپنی غلط فہمیوں کو دور کریں ، انسانی قدروں کو پہچانیں،بے شک اﷲ معاف کرنے والا بہت رحیم ہے۔
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 74286 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.