مغرب میں خوف کے سائے
(Prof Masood Akhtar Hazarvi, )
خوف انسان کی ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے۔
عموما اپنے سے بڑی یا زور آور قوت کا تصور انسان کے دل میں ایک انجانا سا
خوف پیدا کردیتا ہے۔ اگر یہ کیفیت ایک حد سے گزر جائے اور غیر منطقی بھی ہو
تو ماہرین نفسیات اسے ’’فوبیا‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہر معاشرے کی طرح بھوتوں،
پریوں اور جنات سے خوف کے قصے کہانیاں تویورپ میں بھی بیشمار ہیں۔ کیونکہ
لوگ انہیں اپنے سے طاقتور خیال کرتے ہیں۔
آگ اور پانے کو اپنے سے زیادہ زورآور سمجھتے ہوئے انسان بسا اوقات سیلاب
اور آتش زنی کے تصور سے ہی کانپ جاتا ہے۔ ان سے ملتا جلتا ہی معاملہ اسلام
اور اہالیان مغرب کا ہے۔ حالات حاضرہ کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو اہل
مغرب میں ان سب سے بڑا اور ان جانا خوف اسلام کی ترویج و اشاعت اور پھیلاؤ
کانظر آتا ہے۔ وہ اپنے اندر اسلام کو انتہائی طاقتور اور پراثر خیال کرتے
ہیں۔ اسی وجہ سے یہ دل کی باتیں کبھی زبان پر بھی آجاتی ہیں۔ مغرب میں
’’اسلامو فوبیا‘‘ کی اس صورتحال کا مطالعاتی تجزیہ کرتے ہوئے ایک نقطہ نظر
یہ سامنے آتاہے کہ مسلمان نوجوانوں کی بے راہ روی اور ان سے وابستہ منفی
پہلو مغرب کو مسلمانوں سے بیزار کر رہے ہیں۔ بعض مسلمانوں کی قلم ِزبان اور
زبانِ قلم اسی نقطہ نظر کی آبیاری کرتے دکھائی دیتی ہے اور اسی پر وہ اپنی
بھرپور توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ اس کے لئے بطور دلیل برطانیہ میں پیش آنے
والے کچھ مسلمان نوجوانوں کے نابالغ بچیوں سے جنسی تعلقات کے واقعات اور
اسلام کے نام پر دہشت گردی کا بے قابو ناسور ہے۔ اسی طرح مسلم نوجوانوں کا
مشرق وسطیٰ میں داعش کی مدد کیلئے جانا بھی بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن ہمارا اس نقطہ نظر سے قطعی اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک مغرب خود اس’’
اسلامو فوبیا‘‘ کا ذمہ دار ہے۔ اس کی اساس مسلمانوں کی کمزوریاں نہیں بلکہ
اسلام کی وہ طاقت ہے جواہل مغرب کو خوف میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ اسلامی نظام
سماج تو ایک بالغ عورت اور مرد کے شادی سے ما ورا تعلقات کو ناجائز قرار
دیتا ہے اور اس کے لئے سخت ترین سزائیں مقرر ہیں۔ چہ جائے کہ نابالغ بچیوں
سے ایسے تعلقات کو برداشت کر سکے۔ اگر حکومت برطانیہ اور یہاں کا میڈیا اسی
وجہ سے اسلامو فوبیا کا شکار ہے تو پھر مسلمانوں کو مغربی معاشروں میں
اسلامی قوانین کے مطابق سکول چلانے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟ طرح طرح کی
پابندیاں کیوں لگائی جاتی ہیں؟ والدین بچوں کو ایسی بے حیائی سے روکیں اور
سختی کریں تو ان پر قدغن کیوں لگائی جاتی ہے؟ گویا مسلمان نوجوانوں کی اس
بے راہروی کا ذمہ دار اسلام ہے اور نہ مسلمان بلکہ اس کا ذمہ دار مغرب کا
پدر مادر آزاد ماحول ہے جہاں پانچ سال سے ہی بچوں کو سکولوں میں جنسی تعلیم
شروع کر دی جاتی ہے۔ مسلمان کبھی بھی ایسے واقعات کو سپورٹ نہیں کرتے بلکہ
انہیں سن کے ہمارا تو دل جلتاہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایسے واقعات کی روک
تھام کیلئے مسلمانوں کیلئے اسلامی نظام قضاء نافذ کردیا جائے اور اسی کے
مطابق مسلمانوں کو ان جرائم کی سزائیں دی جائیں۔جہاں تک دہشت گردی اور
مسلمان نوجوانوں کا داعش کے ساتھ ملنے کا تعلق ہے ۔ مسلمانوں کی مساجد اور
سماج اس کے بھی ذمہ دار نہیں کیوں کہ یہ سارا کچھ سوشل میڈیا کا کیا دھرا
ہے۔ داعش اسلام کے خلاف ایگ گہری سازش ہے جس سے آہستہ آہستہ پردے اٹھنے
شروع ہو گئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں گزشتہ صدیوں میں کئی حکومتیں آئیں لیکن
پھر بھی انبیائے کرام، آل بیت اطہار اور صحابہ کرام کے مزارات محفوظ رہے۔
داعش کے ہاتھوں وہ پامال ہو رہے ہیں۔ کیا کوئی مسلمان ایسا کرنے کا سوچ بھی
سکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ اگر کسی مسجد نے برطانیہ میں دہشت گرد تیار کیے ہیں
تو اسے منظر عام پر لا کر قانونی کاروائی کی جائے۔ ورنہ نا کردہ گناہ کیسزا
دے کر مسلمانوں کو بد نام نہ کیا جائے۔ اسلامو فوبیا کی اصل وجہ اسلام کی
صداقت اوروہ قوت ہے جو صدیوں کی کوششوں کے باجود مٹ نہ سکی۔ یہ ایک حقیقت
ہے کہ مغرب کے سیکولر نظام اور لبرل فکر نے دنیا کی تہذیبوں کا دھڑن تختہ
کر کے رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ اس تہذیبی طوفان میں عیسائیت کی اخلاقیات دم
توڑ کے قصہ پارینہ بن گئیں۔ دنیا بھر کی دیگر تہذیبوں اور مذاہب کو بھی
دیوار سے لگا دیا۔ اس سارے کرتے دھرتے کے باوجود ان کے قابو سے باہر ہے تو
وہ ’’اسلام ‘‘ ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مختلف تہذیبوں کے
مقابلے میں اسلام اپنی اندرونی طاقت اور برکت کی وجہ سے صدیوں سے کامیابی
کے ساتھ اپنے تشخص کا دفاع کرنے میں کامیاب رہاہے۔ اسلامی تہذیب مشکلات کا
شکار ہونے کے باوجود ایک زندہ اور پائدار تہذیب ہے۔ اس تہذیب کے دائرہ
کارمیں عقائد مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ نظام عبادات اپنی اسی اصلی حالت میں
کام کر رہا ہے جو ہادی برحقﷺ نے سکھایاہے۔ مسلمان اخلاقیات میں کمزور ہونے
کے باوجود ان کے منکر نہیں ۔ ہر بد اخلاقی کرنے والا مسلمان اسے دل کی
گہراہیوں سے برا اور گناہ ضرور سمجھتا ہے۔بحیثیت مسلمان ایک فکر ہمیں کھائے
جاتی ہے کہ ہم باکردار اور اچھے مسلمان کیوں نہیں ہیں۔ ابھی تک مسلمانوں کی
ایک عظیم اکثریت مسلمان ممالک میں بھرپور کاوشیں کر رہی ہے کہ ہماری
انفرادی اور ریاستی زندگی کے تمام قوانین اسلام کے مطابق ہوں ۔ مسلمانوں کی
اخلاقی کمزوریوں اور دبد اعمالیوں کے باوجود (الحمد ﷲ ) مذہب اسلام کا تشخص
آج تک اپنی اصلی حالت میں برقرار ہے۔ اسلامی معاشرے میں بر وقت شادیوں کے
نظام کی وجہ سے مسلمانوں کی نسلیں بھی معمول کے مطابق نشو نما پارہی ہیں
جبکہ مغرب کا خاندانی نظام ان کے اپنے ہی ہاتھوں برباد ہو چکا ہے۔ جس کے
نتیجے میں آبادی بھی موزوں انداز میں نہیں بڑھ رہی۔ رہی سہی کسر نئی نئی
قانون سازیوں نے نکال دی۔ علاوہ ازیں اسلام کی پر اثر تعلیمات سے متاثر ہو
کر بیشمار غیر مسلم اپنے آبائی مذاہب کو چھوڑ کر مسلمان ہو رہے ہیں۔ چرچ
اور پب مسجدوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ جمعہ کے دن برطانیہ کی ہزاروں مسجدوں
میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ مغرب کے تمام پالیسی ساز ادارے، تھنک ٹنکس،
میڈیا کے نمائندگان اور دانشورحضرات ان حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اسلام کی
یہی طاقت ان میں خوف پیدا کرتی ہے اور وہ مسلمانوں کے حوالے سے غلط فہمیاں،
نفرت اور حقارت پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کوشش میں کامیابی کو’’
اسلامو فوبیا ‘‘کا نام بھی دے دیا جاتاہے۔ مغرب میں بسنے والے مسلمان اسلام
کے سفیر ہیں۔ان دگر گوں حالات میں مایوس اور پریشان ہونے کی بجائے اسلامو
فوبیا کا جواب اصلاح احوال، حسن عمل، اپنی صفوں میں اتفاق و اتحاد اور
اولاد کی حسن تربیت سے دینے کی اشد ضرورت ہے۔ |
|