استاد ہو تو ایسا

 مجھے والد محترمؒ نے لاہور کے معروف سرکاری تعلیمی ادارے میں ششم جماعت میں داخل کروادیا ،مڈل تک تعلیم کا سلسلہ وہیں رہا بڑے شفیق اساتذہ ملے ،ہشتم جماعت میں جب گئے تو رانا نذیر احمد درد ؒ جیسے بلند پائیہ استاد کی صحبت نصیب ہوگئی شروع شروع میں تو وہ جماعت میں پڑھانے نہ آتے تھے کیونکہ ان کو پنجاب اساتذہ کی ایک تنظیم کا صدر بنایا گیا تھا آئے روز وہ دوروں پر ہوتے تھے ۔جماعت کے طلبہ نے ہیڈ ماسٹر کے نام رانا نذیر احمدؒ کی شکایت پر مبنی درخواست دفتر میں جمع کروا دی سب سے اوپر میرا نام تھا ۔

کچھ دن کے بعد جب استاد محترم رانا نذیر احمد درد ؒ سکول آئے تو ہیڈ ماسٹر نے ہماری دی گئی درخواست ان کے ہاتھ میں تھما دی ۔ جب انہوں نے درخواست پڑھی تو مسکراتے ہوئے درخواست ہاتھ میں پکڑے جماعت میں تشریف لائے ۔سب سے پہلے میرا نام پکارا باقی سب کے بعد میں ۔۔۔۔۔

جب میں کھڑا ہوا تو دل میں ایک خوف کا سمندر امڈ آیا تھا کہ نہ جانے اب کیا ہونے والا ہے ۔یقین ہوگیا تھا کہ اب ہماری خیر نہیں ۔۔۔ سخت سزا ملے گی۔

لیکن توقعات کے برعکس استاد محترمؒ نے فرمایا آپ لوگوں نے میرے خلاف درخواست دی مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ پڑھنا چاہتے ہیں ۔اب میں نے بھی ارادہ کرلیا ہے کہ آپ کو پڑھنا ہے جو وقت ضائع ہوا اس کا ازالہ کیا جائے گا۔

کل سے تمام طلبہ صبح سورج نکلنے کے ساتھ ہی سکول آ جایا کریں گے اور مغرب کے بعد چھٹی ہوا کرے گی گھر والوں کو بتا دینا ۔

ہم نے سوچا ٹیوشن فیس ادا کرنا ہوگی۔

دوسرے دن استاد محترم سے پوچھا کہ سر فیس کتنی ہوگی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ بیٹا کوئی فیس نہیں لینی ۔ بس آپ پڑھو، میں آپ کو صرف پڑھانا چاہتا ہوں ۔

چھ ماہ تک مسلسل اس انداز میں پڑھایا کہ انگلش کے بارہ (TENSES) زبانی اس طرح یاد ہوگئے کہ آج تک نہیں بھولے ۔ریاضی کے فارمولے ،سائنس کو اس طرح پڑھایا کہ نفس مضمون سیشناسائی تک ہوگئی۔

اردو ،انگلش لکھائی میں اس قدر توجہ دی کہ لکھائی خوبصورت ترین ہوگئی ۔

انہوں نے ہمیں ایسے پڑھایا جیسے ایک شفیق باپ اپنے بیٹوں کو پوری یکسوئی،فکر کے ساتھ پڑھاتا ہے۔دوران تعلیم ہی انہوں نے مجھے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔میرا ہر وقت خاص خیال رکھتے ۔

ہشتم جماعت کے امتحانات ہوگئے تو میں اسی سکول میں نہم جماعت میں چلا گیا تعلیمی سلسلہ شروع ہوگیا ایک دو ماہ ہی گذرے ہوں گے کہ انہوں نے مجھے کلاس انچارج کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا تو دوسرے دن مجھ سے استفسار کرنے لگے کہ بیٹا !تم اپنے استاد کے ساتھ کہاں جاتے ہو ہر روز؟

تو میں نے جواب دیا سر !میں اپنے کلاس انچارج کے گھر ٹیوشن پڑھنے جاتا ہوں وہ کچھ پریشان ہوئے اور کچھ بات کئے بغیر فرمانے لگے کل کلاس میں جانے سے پہلے مجھ سے مل لینا ۔

میں نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔ اور سکول سے ٹیوشن کی طرف چل دیا ۔

اگلے روز جب میں استاد محترم رانا نذیر احمد درد ؒ کے پاس ان کی جماعت میں گیا تو ان کے ہاتھ میں ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا جو بند تھا مجھے دیکھ کر فرمانے لگے آؤ بیٹا مجھے تمہاری بہت فکر رہتی ہے تم میرے بیٹے ہو ۔۔
باپ کو بیٹے کی ہی فکر رہتی ہے ۔

میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب تم اس سکول میں نہیں پڑھو گے میں نے تمہیں اس سے اچھے سکول میں داخل کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

میں ان کے سامنے ا نکار کرنے کی جرأت ہی نہیں کر سکتا تھا۔

میں نے عرض کی سر!جیسے آپ کی مرضی۔

انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک اور سرکاری ادارے میں لے گئے وہاں ہیڈ ماسٹر سے کہنے لگے یہ میرا بیٹا ہے اسے میں نے اچھے ،محنتی استاد کے پاس داخل کروانا ہے تو ہیڈ ماسٹر نے عبدالرزاق سیف صاحب کا نام لیا تو انہوں نے فوری ہاں کہہ دی۔

داخلہ مل گیا جماعت کے انچارج سے بھی مل کر آئے وہ بہت خوش ہوئے کہ درد صاحب نے کوئی بچہ زندگی میں پہلی بار داخل کروایا ہے ۔

ایک دن استاد محترم رانا نذیر احمد درد ؒ سکول تشریف لائے مجھے بلایا اور فرمانے لگے ۔

بیٹا! آپ کو اس سکول سے پتہ کیوں یہاں لایا ہوں ؟

میں نے کہا سر! مجھے تو علم نہیں۔آپ ہی کو علم ہے ،ہم تو آپ کاحکم ماننے والے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو تمہاری جماعت کا نچارج تھا وہ قادیانی تھا اور وہ تمہیں اپنے گھر بھی لے کرجاتا تھا میں فکر مند ہوگیاتھا کہ وہ کہیں تمہیں قادیانی نہ بنا دے اس طرح تمہارا ایمان ضائع ہوجا نے کا خطرہ تھا۔

میں نے سوچا تمہیں کسی دوسرے سکول داخل کروا دیا جائے تو تمہیں اس سکول میں داخل کروا دیا اب محنت کرو ۔۔۔۔ ایمان کی سلامتی کے ساتھ زندگی میں کامیابی کے زینے چڑھتے چلے جاؤ ۔میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔

اس وقت رانا نذیر احمد دردؒ دنیا میں تو نہیں ہیں مگر ان کا یہ واقعہ اساتذہ کیلئے ایک سبق ہے کہ اپنے کم سن،کم عقل شاگردوں کا قادیانیت کے شکنجے سے بچانے کیلئے نظریاتی استاد بن کر محنت کریں اگر کوئی حضور نبی ٔ اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا منکر قادیانی کسی ادارے میں بطور استاد ہے تو طلبہ کو اس سے ضرور آگاہ کریں سکول وکالجز کے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ختم نبوتؐ پر مبنی لٹریچر تقسیم کریں اور تربیتی ورکشاپس کا اہتما م بھی تعلیمی اداروں میں ضرور کریں تاکہ کوئی ختم نبوت ؐکا منکرکسی کے ایمان پر ڈاکا نہ ڈال سکے ۔

سوچتا ہوں کہ اگر رانا نذیر احمد درد ؒ نہ ہوتے تو میں کہاں ہوتا؟

اﷲ ان کی قبر پر کروڑوں رحمت نازل کرے جو میرے ایمان کے تحفظ کا ذریعہ بن گے نہ جانے استاد محترم نے کتنے لوگوں کے ایمان کا تحفظ کیا ہوگا جو اظہار کرنے سے قاصر ہیں ۔٭٭
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.