نظام تعلیم کی خرابیاں اور تدارک کیسے ممکن ہے
(Muhammad Shahid Yousuf Khan, )
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا دارومدار اس
کے نظام تعلیم پر ہی رہا ہے۔اگر آج چین،جاپان،امریکہ ویورپ ٹیکنالوجی اور
دوسرے میدانوں میں سب سے آگے بڑھنے کی جستجو میں ہیں تو اپنے نظام تعلیم کی
وجہ سے ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام ابھی تک اصلاحات کا منتظر ہے۔ تعلیم کو
ایک بزنس بنادیا گیا ہے اور تقسیم کردیا گیا ہے۔طبقاتی تقسیم میں اس نظام
کو بھی تقسیم کردیا گیا ہے جو ایک زہر سے کم نہیں ہے۔ سسٹم تشکیل دینے والے
افراد کی نسلیں اعلیٰ تعلیم اپنے اعلیٰ اداروں میں حاصل کرتی ہیں جبکہ
متوسط طبقہ اور غریب طبقہ کے لئے وہی پرانا گلاسڑا نظام تعلیم موجود ہے اور
اب اسے پرائیوٹائز کرکے ختم کرنے کی جستجو میں ہیں۔اس ساری طبقاتی تقسیم کی
وجہ سے ہمارے ملک میں تعلیم علم حاصل کرنے کے لئے حاصل نہیں کی جاتی جس سے
مراد روح کی بالیدگی اور سیرت وکردارکی تعمیر وتشکیل ہے بلکہ محض اس کے
افادی پہلو یعنی ملازمت یا روزگار حاصل کرنے کے لئے حاصل کی جاتی ہے اور
اسے محض معاشی تسکین کا آسان اور واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔اور اب
بیروزگاری کی وجہ سے لوگ بڑی مشکل سے میٹرک کر نے کے بعد تعلیم کو خیرباد
کہہ دیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ اعلیٰ تعلیم یافتہ گریجوایٹس کو روزگار کا
ناملنا ہے کیونکہ ان کے ذہن میں یہ بات جاگزیں ہوجاتی ہے ہے کہ تعلیم کا
حصول صرف اور صرف حصول ملازمت ہے پھر صرف ناکامی ہی دیکھنی پڑتی ہے۔گویا وہ
تعلیم کے مادی پہلووں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور روحانی پہلووں کو یکسر
نظرانداز کردیتے ہیں۔
دوسری خرابی ہمارا امتحانی نظام ہے ہمارے ہاں طلبائکے حافظہ اوررٹا لگانے
کو پرکھا جاتا ہے۔طالب علم کی علمی،روحانی،تہزیبی،معاشرتی ترقی کی تحسین کا
ذریعہ اور معیار مقرر نہیں۔طلباء کا چند اہم امتحانی سوالات کو یاد
کرنا،صرف پاس ہوجانے کی نیت سے امتحان میں شرکت کرنا،امتحانی ہالز میں نقل
کرانے کا امتحانی عملے کا کردار،انشائیہ کی جگہ زیادہ حصہ معروضی پر مشتمل
ہے،جعلی ڈگریوں کی فروخت،نجی تعلیمی اداروں کے طلباء پر خاص رحم وکرم یہ
ساری خرابیاں سارے نظام تعلیم کی کارکردگی کو مشکوک بناتی ہیں۔
دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے تعلیم کے حصول کے لئے اپنی اپنی قومی زبانوں
کو ذریعہ تعلیم قرار دیا اور اپنایا ہے مگر ہمارے ہاں صورتحال برعکس اور
مضحکہ خیز ہے۔ہم نے قومی زبان اردو کو چھوڑ کے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم
قرار دے رکھا ہے اور انگریزی کو ایک ’امرت دھارا‘ سمجھ لیا ہے جیسے اس کے
بغیر کوئی قوم ترقی نہ کرسکی ہو۔چین کے نظام معیشت کا اگر موازنہ کرلیا
جائے تو چین کی جس میدان میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے تو اپنی قومی زبان کی
وجہ سے ہوئی ہے۔چین کے وزیراعظم یا صدور اگر کسی دوسرے ملک میں بھی اپنے
دورہ کرتے ہیں تو وہاں پر اپنی قومی زبان میں دوسری قوموں سے خطاب کرتے ہیں
اس کی بہترین مثال چین کے صدر کا آکری دورہ پاکستان ہے جہاں پر انہوں نے
اپنی چینی زبان میں تقریر کرنے کو ترجیح دی۔انگریزی زبان کو ہمارے دوہری
شہریت والے حاکموں نے مسلط کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے حالانکہ ریٹائر
ہونے والے چیف جسٹس پاکستان نے اپنا آخری اور تاریخی فیصلہ اردو زبان کے حق
میں دیا تھا جس کا موجودہ حکومت نے وقت مانگنے کے باوجود بھی ابھی تک صرف
دفاتر تک بھی نافذ نہیں کی جو انتہائی قابل افسوس امر ہے۔انگریزی زبان کی
ادبی سائنسی خوبیوں سے انکار نہیں لیکن یہ ایک مشکل زبان ہے اس کے گرامر کے
اصول منطقی اور پیچیدہ ہیں جن کو سیکھنے اور صحت کے ساتھ برتنے میں ہمارے
طلباکا وقت ضائع ہوتا ہے۔ہرسال کے امتحانات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم
ہوتا ہے کے بس چند انگلش میڈیم پرائیویٹ اسکولز کے طلبا ہی انگریزی مضامین
میں کامیاب ہوتے ہیں ورنہ طلبا کی اکثریت انگریزی مضمون میں فیل ہوجاتی ہے
جو ایک واضح نتیجہ ہے۔ہمارے طلباکی اکثریت دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں
سے تعلق رکھتی ہے وہ ویسے ہی شہروں میں آکر انگریزی زبان بولنے والے اساتذہ
سے مرعوب ہوجاتی ہے۔انگریزی زبان کی بڑی قباحت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ایسی
قوم کی زبان ہے جس کی تہذیب وثقافت،معاشرت،عالمی نکتہ نظر،اندازفکر یا طرز
زندگیاور فلسفہء زندگی پاکستانی مسلمانوں کے دین وثقافت سے یکسر مختلف بلکہ
متصادم ہے۔جس کا نتیجہ اب یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اردو زبان کی سمجھ کسی کو
نہیں آتی۔
ہمارے نظام تعلیم کا یاک اور نقص یہ بھی ہے کہ تعلیم کے ابتدائی مراحل میں
مضامین کی تخصیص کردی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلبا اپنے
دلپسندایک یا دومضامین کے علاوہ دوسرے مضامین سے اور انسانی علوم سے غفلت
برتنے لگتے ہیں۔حالانکہ تمام مضامین میں ایک قدرتی ربط موجود ہے مثلاًًاگر
کسی طالبعلم نے انجینئرنگ یا میڈیکل یا کسی دوسرے سائینسی مضمون کی تعلیم
حاصل کرنا ہوتوثانوی تعلیم کے بعد اس کا عام مضامین سے تعلق کٹ جاتا ہے اور
معاشرتی علوم کے بارے میں اس کی معلومات محض سنی سنائی معلومات تک محدود
ہوجاتی ہیں اور وہ اپنے سائنس کے علم کے بارے میں متعصب ہوجاتا ہے۔اس کے
علاوہ ہمارانظام تعلیم فنی تعلیم کے شعبہ میں بری طرح عدم توجہی کا شکار
ہے۔ پنجاب حکومت نے ٹیوٹا سینٹرز کو آگے بڑھانے کی جستجو کی ہے جو ابھی تک
کامیاب نہیں ہو پائی۔جس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ااس وقت ملک عزیز میں
فنی کاریگروں اور سائنسی مہارت کے حاملین کی ضرورت ہے جوزراعت،صنعت ،بزنس
منیجمنٹ ،کمپیوٹرسائنسز کو جدید ٹیکنالوجی طریقوں میں مکمل مہارت رکھتے
ہوں۔
ایک اور نظام کی خرابی کا باعث برطانوی نظام تعلیم کا ایک حصہ ہمارے نظام
میں شامل ہے بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ہمارا نظام تعلیم برطانوی نظام تعلیم کا
چربہ ہے اور اس میں مشکل سے مذہبی اور ثقافتی تعلیم کی گنجائش موجود ہے۔اور
اس دور کی تعلیم خواہ وہ ادبی ہو یاسائنسی وہ مذہب کے اثرات سے دور ہے جبکہ
ہمارا ملک ایک نظریاتی وجود رکھتا ہے کیونکہ اس ملک کی بنیاد اسلام ہے اور
ہماری اپنی ایک معاشرتی تہذیب ہے جو ہمارے لئے لازم وملزوم ہے۔جب تک ہم
اپنی تہذیب ،مذہب کو نہیں جان پائیں گے ہمیں اپنی شناخت معلوم نہیں ہوگی۔
مندرجہ بالا برائیوں کا فوری سدباب ہونا چاہیئے۔سب سے پہلے حکومت کو اپنی
روش تبدیل کرنی چاہیئے اور طلباء کی بنیادی تعلیم ایسی ہونی چاہئیے کہ ان
کو ایک ذمہ دار آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے تعلیم برائے حصول علم حاصل کرنی
چایئے ۔ سب سے پہلے تعلیمی نظام کو ایک نظام میں تبدیل کیا جائے ۔تعلیمی
اداروں کی طبقاتی تقسیم کا قلع قمع کیا جائے تاکہ قوم کا مستقبل اتحاد کا
ضامن ہو، ایک نظام تعلیم ہونے سے قوم کی وحدت واتحاد کی راہیں کھلیں
گی۔مذہبی، لسانی تعصبات کا خاتمہ اس وقت ممکن ہے جب تعلیمی نظام ایک سلیبس
پر مشتمل ہوگا۔سرکاری ونجی اسکولوں میں ایک ہی کورس پڑھایا جائے اور بنیادی
تعلیم سے کر اعلیٰ تعلیم تک اپنی قومی اردو زبان میں ہو کیونکہ قومی زبان
ہی ہمارے اتحاد کو قائم کرسکتی ہے جو طلبا کی شخصیت میں رچ بس کر ان کے لئے
روشنی وہدایت مہیا کرسکتی ہے جو تعلیم کا مقصد ہے۔ ابتدائی تعلیم آسان
بنانے کے ساتھ ساتھ تربیتی بنائی جائے، کیونکہ ہماری ابتدائی تعلیم میں
تربیتی فقدان پایا جاتاہے۔انگریزی زبان کے ساتھ عربی زبان بھی سکھائی جائے
کیونکہ انگریزی سے زیادہ عربی ہمارے لئے اہم ہے جس سے ہم اپنے دین کے بارے
پڑھ سکتے ہیں جس سے ہم قرآن پاک کو سمجھ سکیں۔امتحانی نظام کو آسان بنایا
جائے ،جعلی ڈگریوں جیسے زہریلے کاروبار کرنے والے ملک دشمنوں کو سزا دلوائی
جائے تاکہ کسی کے حقوق غصب ہونے کے علاوہ جاہل طبقہ نظام بنانے کا حصہ نہ
بن سکے اور کرپشن جیسے ناسور کی بنیاد ہی ختم ہوجائے۔امتحانی مراکز پر نقل
سازی کو بند کیا جانا چاہیئے،حالیہ سال پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف
نے خود امتحانی مراکز پر چھاپے مارے جسے وزیراعظم میاں نواز شریف نے تمام
صوبوں میں اس طرح کی مانیٹرنگ کو رائج کرنے کی تلقین کی۔اس وقت ایک اوراہم
مسئلہ اسکولوں کو پرائیوٹائز کرنے کے بارے سوچا جارہا ہے بلکہ کافی اسکولز
پرائیوٹائز ہوبھی چکے ہیں اس فیصلے پر حکومت کو سوچنا چاہیئے جبکہ چاہیئے
تو یہ ہے کہ پرائیویٹ اسکولز کو حکومت اپنی نگرانی میں لے اور اسکولوں کا
نام پر ہونے والے کاروبار کو بند کرے تاکہ ملک میں حصول تعلیم عام اور آسان
ہوجائے اور ایک تعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں آسکے۔۔۔ |
|