صحافت معاشرے کا چوتھا ستون ہے۔ صحافت کی
بدولت آج ہر انسان دنیا میں ہونے والے واقعات سے آگاہی رکھتا ہے۔ صحافت ایک
مقدس پیشہ ہے اور اس کے مقدس ہونے کی میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے
اگر کسی کو اس پیشے سے اختلاف ہے تو وہ پیشے سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس پیشے
سے منسلک افراد سے ہوسکتا ہے جو اپنے فرائض منصبی کا غلط استعمال کررہا ہے۔
صحافی وہ لوگ ہیں جو میدان جنگ ہو یا دھماکوں کی گونج، کھیل کے میدان ہو یا
سیاست کی جنگ ہر جگہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر آپ لوگوں کے لیے براہ
راست خبریں دیتے ہیں۔ صحافت بذات خود برائی کا راستہ نہیں دکھاتی بلکہ
برائی کا راستہ ہم خود چنتے ہیں۔
صحافت کے اس موضوع پر ایک تنقیدی اور مثبت بحث سٹی پریس کلب اوکاڑہ کی ایک
تقریب میں ہوئی۔جب تنقید اور تنقید کا دفاع کرنے والے ایک دوسرے کو جواب دے
رہے تھے تو بھلا ہم جیسے تجزیہ نگار ایسا موقع کیسے ضائع جانے دیتے۔اس وقت
میرے ساتھ پاکستان کے نامور کالم نگار صابر مغل صاحب بھی تشریف فرما تھے
اور ہم دونوں ان کی گفتگو کو بڑی دلچسپی سے سننے لگے۔ قصہ کچھ اس طرح سے ہے
کہ اوکاڑہ میں سٹی پریس کلب کے نومنتخب عہدے داروں کی تقریب حلف برداری کی
تقریب ایک مقامی ہال میں منعقدکی گئی۔تقریب میں پریس کلب کے نومنتخب صدر
مظہر رشید صاحب نے مجھے بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ شام چھ بجے میں اپنے بڑے
بھائی شکیل خان کے ہمراہ ہال میں پہنچ گیا۔ استقبالیہ پر مظہر رشیدصاحب،
احتشام شامی صاحب ، ڈاکٹر اعجاز انجم کھوکھر(سینئر نائب صدر)اور آریوجے
پنجاب کے جنرل سیکرٹری عابد مغل صاحب موجود تھے جنہوں نے ہمارا استقبال
کیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی ن لیگ کے ایم پی اے اورصوبائی پارلیمانی سیکرٹری
میاں منیر ، آر یو جے کے مرکزی سینئر نائب صدر سجادکھرل تھے جبکہ نامور
کالم نگار صابر مغل، ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر خورشید جیلانی ، ڈسٹرکٹ
بارکونسل کے جنرل سیکرٹری نعمت اﷲ چوہدری سمیت دیگر کئی ڈیپارٹمنٹ کے
عہدیداران بھی مدعو تھے۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔نومنتخب صدر مظہر رشید نے استقبالیہ
پیش کرتے ہوئے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔کیونکہ یہ تقریب صحافی برادری
کی تھی اس لیے مقررین نے صحافت کے موضوع پر دھواں دار تقاریرکیں۔ کسی نے
صحافت کو آئینہ قراردیا تو کسی نے صحافت کو بلیک میلنگ کا نام دیا۔ مقررین
تو اپنے اندازمیں صحافت کو مختلف چیزوں سے تشبیہ دیکر جاتے رہے مگر ان سب
سوالوں کا جواب آریوجے کے مرکزی سینئر نائب صدر سجاد کھرل صاحب نے بڑے واضح
الفاظ میں دیا۔ انہوں نے کہا کہ’’ ہم صحافت کو چوتھا ستون تو مانتے ہیں مگر
جب یہ ستون آئینہ دکھاتا ہے تو پھر اس پر مختلف طریقوں سے وار کیے جاتے
ہیں۔ صحافی لوگ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہرمیدان میں اپنی ذمہ
داریاں ادا کرنے کے لیے نکل آتے ہیں مگر اس کے باوجود انکو ان کا حق نہیں
دیا جارہاہے۔ حکومت نے کسانوں سے طالب علموں تک کوئی نہ کوئی پیکج دیا ہوا
مگر صحافیوں کے لیے کوئی پیکج نہیں کیوں؟‘‘ کھرل صاحب کی تقریر کے بعد چیف
گیسٹ میاں منیر صوبائی پارلیمانی سیکرٹری صاحب نے اپنے لبوں کو کھولتے ہوئے
فرمایا کہ’’ صحافی حکومت سے اپنے مطالبات پورے کرانے کی بجائے اپنے اداروں
کے مالکان سے اپنا حصہ لیں۔ میڈیا کے اداروں کے مالکان امیر سے امیرتر
ہورہے ہیں جبکہ صحافی رسوا ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافی آئینہ دضرور
دکھائیں مگر کچھ ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جن کا پردہ پوشی ہونی چاہیے مگر
میڈیا ان کو بھی ایشو بنا کر منظر عام پر لے آتی ہے جس سے ملک میں افراتفری
پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں صحافیوں کے حقوق کے لیے ان کے ساتھ ہوں
اور حکومتی نمائندہ ہونے کے ناطے مجھ سے جو کچھ بن سکا میں ضرور کرونگا۔
تقریب کے اختتام پر دعا کرائی گئی۔
میں اور صابر مغل صاحب ہم دونوں میڈیا اور حکومتی نمائندوں کی باتوں کو بڑی
توجہ سے ناصرف سن رہے تھے بلکہ ان پر وہیں پر کمنٹس بھی پاس کررہے تھے۔
حقیقت میں دونوں گروپس اپنی اپنی جگہ درست فرما رہے تھے مگر کچھ باتیں ایسی
ہیں جو شاید ان میں ایک دوسرے کو پسند نہ آئی ہوں بلکہ ایک دوسرے کی دل
آزاری بھی ہوئی ہوتواس سے انکاری نہیں۔ صحافت کے مقدس پیشہ ہونے سے مجھے
بھی انکاری نہیں مگر اس میں کچھ کالی بھڑیں ضرور موجود ہیں جواس پیشے کے
بدنام کررہی ہیں۔ اگر صحافی برادری ایسی بھڑوں کے خود باہر نکالیں دیں تویہ
پیشہ خدمت خلق سے سرشار لوگوں کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ رہا سوال میاں منیر
صاحب کی بات کا کہ میڈیا مالکان سے ہم اپنا حصہ لیں تو مجھے یہ سن کر حیرت
ہوئی کہ وہ صحافی برادری کو حکومت کی بجائے مالکان سے حصہ لینے کی بات
کررہے ہیں۔ میاں صاحب سب سے پہلے تو وقت حاکم کو چاہیے کہ وہ اپنی رعایا کی
دیکھ بھال کرے۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ صحافی برادری کو اس کا حق دلوائے۔ اس
کے حق پر کون غاصب ہے اور غاصبوں سے قبضہ کس نے چھڑانا ہے؟یہ کہہ کر جان
نہیں چھڑانی چاہیے کہ وہ اپنا حصہ مالکان سے لیں بلکہ حکومت کو صحافیوں کو
ان کا جائز حق دینا چاہیے کیونکہ صحافیوں کے بھی بچے ہیں، تعلیم کا حق ان
کو بھی حاصل ہے، بیماریاں ان کو بھی گھیرتی ہیں۔سرچھپانے کے لیے جگہ ان
کوبھی چاہیے اور اسکے علاوہ بہت ضروریات زندگی ہیں جو ہرصحافی کے لیے ضروری
ہے مگر وہ یہ سب کہاں سے حاصل کرے؟کون ان کا مداوا کرے گا؟ |