اقتصادی ترقی میں شرح افزائش
(Sajjad Ali Shakir, Lahore)
انسان بحیثیت اشرف المخلوقات دوسرے
جانداروں سے محض اس لئے ممتاز ہے کہ وہ مخلوق ہونے کے باوجود منصوبہ بندی
سے اپنا معاشرہ بھی ازخود تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ منصوبہ بندی کا
عمل مستقبل کو اپنے انداز میں ڈھالنے کا عمل ہے نہ کہ بے بسی سے خود کو
مستقبل کے حوالے کرنے کا۔ شروع میں ہی بات ذہنوں میں پنہاں تھی کہ انسان
جہاں آبادی کی شرح اموات سائنسی ایجادات کے ذریعے گھٹا سکتا ہے تو شرح
پیدائش بھی کم کر سکتا ہے اور آبادی سے متعلق تمام مسائل پر خود قابو پا
سکنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے آبادی کے بعد اگر ملک کے مسائل پر ایک طائرانہ
نظر ڈالی جائے تو تعلیمی پسماندگی، بیروز گاری، بیماری، مہنگائی، وسائل کی
کمی، ذرائع آمد و رفت، زرِمبادلہ، زراعت، پانی، بجلی، گیس کا بحران، کرپشن
اور بھکاریوں میں اضافہ، یہ تمام ایسے مسائل ہیں کہ آج69 سال گزرنے اور ایک
ایٹمی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو عالمی سطح پر منوانے کے باوجود ہم نہ
کشکول توڑ سکے ہیں نہ کسی بحران اور مسئلے کو مکمل طور پر حل کر سکے۔ ہاں
کچھ مسائل ایسے ضرور ہیں کہ جہاں 10 فیصد سے لیکر 40 فیصد تک کچھ بہتری نظر
آتی ہے جیسے کہ تعلیمی لحاظ سے ہمارے ہاں بہت تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے۔
شہروں میں تعمیرات پر خاطر خواہ کام نظر آ رہا ہے اور آئندہ بھی ایسی
پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں کہ ذرائع آمد و رفت آسان ہو جائے۔ لیکن اس کے
علاوہ ایک ایسی حکمت عملی بھی ہے کہ اگر ہم اْس کو اختیار کر لیں اور مربوط
طریقے سے اس کو پھیلائیں تو ہمارے بے شمار مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے
وہ ایک اہم نقطہ آبادی کا بڑھتا ہْوا سیلاب ہے۔ باقی مسائل تو اپنی جگہ
لیکن آبادی کی شرح میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو ہم ان مسائل مین غرق ہو
کر اپنا وجود بھی کھو بیٹھیں گے۔اس وقت پاکستان میں 4 سے 7 کروڑ کی آبادی 5
سے19 سال کے ان بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے جو غربت کے باعث سکول جانے
سے محروم ہیں۔تعلیم کے اسی فقدان کے باعث لوگوں کی اکثریت خاندانی منصوبہ
بندی کے بارے میں زیادہ آگہی نہیں رکھتی۔ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی
کا نظام زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔کسی بھی ملک میں جب آبادی اس ملک کے
دستیاب وسائل سے بڑھ جائے یاآبادی کی افزائش میں شرح نمو اسی ملک کی
اقتصادی ترقی میں شرح افزائش سے تیز ہو تو عوام کی خوشحال طرز زندگی کی
منزل سراب بن جاتی ہے یہ کام اس وقت بھی کٹھن رہتا ہے جب آبادی اور
اقتصادیات میں یکساں شرح سے اضافہ ہو۔ اسی حقیقت کے پیش نظر گوشہ زمین پر
بسنے والی جس قوم نے بھی اس فلسفے کی حقیقت کو جانا اور اس پر عمل کرنے میں
دوسروں پر سبقت لے گئیں ۔آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں
انکا یہ نظریہ کہ وسائل میں اضافہ حسابی لحاظ جبکہ آباد ی میں اضافہ
جیومیڈیکل طریقے سے ہوتا ہے آج کے تیز رفتار زمانے میں بجا طور پر درست
معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کے
سنگین مسئلے نے نہ صرف ہماری اقتصادی ترقی کے ثمرات کو بے حد کم کر دیا ہے
بلکہ ہماری معاشرتی اور اخلاقی زندگی پر بھی بے حد منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔
پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی اس مسئلے سے دوچار ہے اور پاکستان میں اس
مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر نجی شعبے کے ساتھ ساتھ بہبود آبادی کے مسائل کا
شعور پیدا کرنا اور اس کو کنٹرول کرنے کے طریقے دریافت کرنا ہے۔آبادی کے
مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنے کیلئے اگر چین کی حکمت عملی دیکھیں جس میں خاص
طور پر نوجوان نسل کو اس بات کیلئے تیار کرنا ہے کہ وہ آبادی کے مسئلے پر
سنجیدگی سے غور کریں۔ اسی طرح جس طرح کہ چین کے عوام نے سوچا ہے اور عمل
کیا یہ ہمارے لیے بھی قابلِ تقلید ہونا چاہیے۔ چین ترقی پذیر ممالک میں
ایسا ملک ہے جس نے بڑھتی ہوئی آبادی پر موثر طریقے سے نہ صرف قابو پا لیا
ہے بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی ذہنی طور پر 30 سال کے بعد شادی کرنے
اور دو بچوں پر ہی اکتفا کرنے کیلئے تیار کر رہا ہے۔ یہ ترقی پذیر ملک
کیلئے بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس کے عوام آبادی کے بڑھنے سے بڑھنے والے
مسئلوں کو سمجھ کر تمام مسئلوں کی جڑ ہی ختم کرنے کو تیا ر ہو گئے ہیں۔
ہمارے آج کے بچے ہی کل کے ماں باپ ہیں اگر ہم آج سے ہی ان کو سنگین صورت
حال سے نمٹنے کیلئے تیار کریں تو شاید آبادی جیسے مسئلے پر اگلے دس سالوں
تک قابو پایا جا سکے۔ سائنسی ایجادات نے گو کہ انسان کو بہت سے کامیاب
نتائج سے نوازا مگر آبادی کا مسئلہ انہی سائنسی ایجادات کے سبب پیدا ہْوا
ہے کیونکہ آبادی کے بڑھنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ لوگوں کے ہاں شرح پیدائش
بڑھی آبادی کی اصل وجہ یہ تھی سائنسی ایجادات کے ذریعے شرح اموات میں بہت
زیادہ کمی آ گئی یہ کمی زیادہ تر شیر خوار اور کم عمر بچوں کی اموات میں
ہوتی اور اس کی وجہ انسان کی صحت کے میدان میں ترقی تھی کیونکہ موذی وبائی
امراض پر قابو پا کر کروڑوں افراد کو ان کا شکار ہونے سے بچا لیا گیا اور
ادویات کی فراہمی ہیں۔ آبادی سے متعلق پیشگوئیوں کی بنیاد اس مفروضے پر
قائم ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں شرح بارآوری بھی اس طرح گرے گی جس طرح آج
ترقی یافتہ ممالک میں گر رہی ہے یعنی دو بچے فی شادی شدہ عورت موجودہ دور
میں دنیا سے سب سے زیادہ بارآوری میں پائی جاتی ہے جہاں 7.4 بچے فی شادی
شدہ عورت جبکہ دنیا میں کم ترین بارآوری تائیوان میں پائی جاتی ہے جہاں ایک
بچہ فی شادی شدہ عورت ہے۔ دنیا کی آبادی میں آج بڑا حصہ (1.2 بلین)
نوجوانوں کا ہے یعنی اس میں تقریباً 90 فیصد نوجوان ترقی پذیر ممالک سے
تعلق رکھتے ہیں یہ نوجوان 10 میں 8 افریقہ اور ایشیاء سے تعلق رکھتے ہیں
اگلی چند دہائیوں میں یہ نوجوان دیہی علاقوں سے نکل کر شہروں کا رخ کریں گے
اور ماہرین آبادی کے لئے یہی سب سے بڑا سوال ہے کہ کیا انہیں مناسب تعلیم،
روزگار، رہائش اور صحت کی سہولیات میسر ہو سکیں گی؟ اور ان کی امیدیں کس حد
تک بر آئیں گی۔ آبادی میں بے ہنگم اضافے سے پانی کا مسئلہ، بیروزگاری،
توانائی کا بحران اور دہشت گردی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مسائل کو کم
کرنے کے لئے معاشی شرح نمو میں اضافہ ضروری ہے کم آبادی کا تیزی سے بڑھنا
ہمارے وسائل کو محدود کر رہا ہے اور انہیں مسائل میں تبدیل کر رہا ہے۔ |
|