طلبہ قوتِ ارادی کے بغیرکچھ بھی نہیں کرسکتے

انسان جب پیداہوتاہے توبے پناہ امکانات ساتھ لاتاہے اورجب وہ ان امکانات کوعمل کے دھاگے سے باندھتاہے توترقی کے راستے اس پر کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ہرانسان پیدائش کے وقت یکساں قوت کاحامل ہوتاہے لیکن ا س کاگردوپیش اوراس کاتناظراس زمین سے اٹھاکرآسمان سے پہنچادیتاہے ۔ اصل میں ہوتایہ ہے کہ انسان کی کم نصیبی ،کم فہمی،کم ہمتی،بزدلی ،کاہلی ،احساس کمتری جیسی منفی چیزیں ان امکانات کوتلاش کرنے میں مانع بن جاتی ہیں توا س کاترقی کاسفرکبھی بھی شروع نہیں ہوپاتا۔اس کے عمرریت کے ذرات کی طرح ہاتھ سے سرکتی جاتی ہے ،اعضامضمحل ہونے لگتے ہیں اوروہ یہ محسوس کرتاہے اس نے جہاں سے سفرشروع کیاتھا وہ ابھی تک وہی ہیں حالاں کہ اس سفرکی تھکاوٹ نے اس کابدن چور چور کردیا ہوتا ہے ۔یہاں ایک بہت بڑاسوال یہ ہے کہ آخروہ کون ساجوہرہے اورانسان کے اندرپوشیدہ وہ کون سی صلاحیت ہے جوانسان کی کامیابی اورناکامی کے درمیان حدفاصل ہے ؟

اس کاصرف ایک ہی جواب ہے ۔قوت ارادی ۔ا نسان کے اندر پوشیدہ امکانات میں قوت ارادی وہ واحدجوہرہے جوتمام امکانات کی سردار ہے اورساری ممکنہ قوتیں اسی کے اشارۂ ابروپرکام کرتی ہیں ۔ظاہرہے جب انسان کسی چیزکاارادہ کرتاہے تواس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس ارادے کوعمل میں ڈھالے بلکہ وہ ارادہ کرتاہی اس لیے ہے کہ وہ عمل کرے ،کچھ نہ کچھ کرے ،خالی نہ بیٹھے ،کچھ نیاکرے ،کوئی نئی تخلیق پیش کرے ۔ اور جب انسان قوت ارادی پرقابو پالیتاہے تووہی کامیابیوں سے سرفرازہوتاہے اورشہرت،عظمت اوردولت کی سربلندیاں اس کے قدم چومنے کوبے تاب نظرآتی ہیں ۔

یہ بڑی اہم بات ہے کہ دنیامیں کامیاب لوگ بھی ہوئے ہیں یاناکام ترین لوگ بھی ۔ان کے درمیان صرف ایک ہی بات کافرق ہے یعنی قوت ارادی ہی ان دونوں انسانوں کے فرق مراتب کاتعین کرتی ہے ۔صلاحیتیں ناکام ترین انسان کے پاس بھی ہوتی ہیں اورکامیاب ترین انسان کے پاس بھی مگرکامیاب ترین انسان اپنی قوت ارادی پرقابوپاکران صلاحیتوں کواستعمال کرناجانتاہے لیکن ناکام انسان اپنی قوت ارادی پرقابونہیں پاتااس لیے زندگی بھرناکامیوں کے کھنڈرپربیٹھ کرکامیابیوں کورشک سے دیکھتاہے ۔انسان اگراپنی قوت ارادی کوتحریک دے توپھرانسان ،اپنی ذات سے اوپراٹھ کرشخصیت بن جاتاہے اورجیسے جیسے قوت ارادی کی سطح بڑھتی چلی جاتی ہے اس کی شخصیت کامیناراوربلندہوتاچلاجاتاہے۔

یہ ہماری بڑی کم نصیبی ہے کہ ہم صرف شکوہ کرناجانتے ہیں ۔آپ معاشرے پرنظرڈالیں ہرتیسراچوتھاانسان آپ کوشکوہ کرتانظرآئے گا۔ اس کی آنکھوں کو دوسروں کی ترقیاں اورکامیابیاں توخیرہ کرتی ہیں لیکن اپنے اندرون میں روشن صلاحتیوں کے چراغ اسے نظرنہیں آتے ،اس کی روشنی اس کے ذہن ودماغ تک نہیں پہنچتی۔کیوں؟اس لیے ہم میں سے ہرتیسراچوتھا شخص قوت ارادی سے کام لینانہیں جانتا۔ہمیں صرف اپنی ناکامیوں کا رونا نہیں روناچاہیے بلکہ اپنے اندرپوشیدہ جواہرکوبروئے کارلاکراپنی کچھ کرناچاہیے ۔عربی زبان وادب کاایک بڑامشہورمقولہ ہے ۔مَنْ جَدَّ وَجَدَ یعنی جس نے کوشش کی اس نے پایا۔اس کامطلب دراصل یہی ہے کہ جس کی قوت ارادی مضبوط ہے اس کامستقبل بھی مضبوط ہے اورمحفوظ ہے اور جس کی قوت ارادی مضبوط نہیں توایسے انسان کامستقبل بھی مضبوط اور محفوظ نہیں بلکہ اس کے حال کابھی کچھ پتہ نہیں کہ حالات کابہاؤاسے کہاں سے کہاں پہنچادے ۔

دنیاوی ترقی ہوکہ اخروی قوت ارادی کوکام میں لائے بغیرممکن ہی نہیں ۔یہ اتنی واضح اورصاف بات ہے کہ میرے خیال میں اسے مثالوں کے ذریعے سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں ۔ڈاکٹراقبال نے کہاہے
یقیں محکم ،عمل پیہم ،محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

یہ ’’یقین محکم‘‘ کیاہے ؟قوت ارادی ہی کادوسرانام ہے۔جب انسان یقین محکم کی مضبوط رسی سے بندھ جاتاہے تبھی وہ ’’پیہم عمل ‘‘کے راستے تک آپاتاہے اوراپنے گلے میں’’فاتح عالم ‘‘کاتمغہ ڈالنے کااہل قرارپاتاہے اورجب تک ’’یقین محکم‘‘ نہ ہوتوانسان فتح وکامرانی توکیاکسی بھی عمل کوصحیح ڈھنگ سے کرنے کے لائق بھی نہیں ہوپاتا۔پتہ چلاکہ قوت ارادی کامیابی وکامرانی کی شاہ کلیدہے ۔یہ کامیابی اورترقی کے خزانے کی کنجی ہے۔ جب تک یہ کنجی نہ ہوانسان لاکھ ہاتھ پیرمارے خزانہ کبھی ہاتھ لگنے والانہیں ۔

ہمارے بچے ،بوڑھے ،جوان سب ترقی یافتہ اورکامیاب ترین لوگوں کے قصے بڑے شوق سے سنتے ہیں ،پڑھتے ہیں ۔ہمارے اسکولوں کے نصاب میں دوچارچیپٹرس کامیاب لوگوں یاکامیابی کے گرکے حوالے سے ہوتے ہی ہیں مگرآخرکیاوجہ ہے کہ طلبہ میں عام طورپراس کے اثرات بالکل رونمانہیں ہوپاتے ۔اس کی وجہ وہی ہے کہ قوت ارادی کوپڑھنے ،پڑھانے اورسیکھنے سکھانے کی چیزنہیں ،یہ کوئی فکری معاملہ نہیں ہے کہ تصورکرلیااوربس ۔ بلکہ قوت ارادی کامعاملہ خالص عملی ہے ۔جب تک انسان اسے اپنے عمل سے مربوط نہیں کرتااس کی برکتوں سے محروم ہی رہتاہے ۔یہاں ایک سوال یہ ہے کہ آخرقوت ارادی کوکیسے بروے کارلایاجائے اورکیسے اس کے ذریعے کامیابی کے راستے کی تلاش کی جائے؟

انسان کے اندربری عادتیں بھی ہوتی ہیں اوراچھی بھی ۔بری عادتیں ہمارے اچھے کاموں اورمحنت ومشقت کی راہ میں رکاوٹ بن کرکھڑی ہو جاتی ہیں ۔انسان چوں کہ ان عادات کاعادی ہوچکاہوتاہے اس لیے وہ اسے چھوڑنے پرہرگزتیارنہیں ہوتابلکہ انہیں چھوڑنے کاتصورہی اسے ذہنی اذیت کاشکاربنادیتاہے ۔حالاں کہ اگرانسان اگراپنی مضبوط قوت ارادی کے بل پرکھڑاہوجائے اورپختہ ارادہ کرلے کہ آج سے کسی بھی صورت میں میں یہ کام نہیں کروں گاتودوچارروزیہ عادتیں اس کی اذیت دیں گی لیکن انسان اس کے بعدنارمل ہوجائے گااورپھروہ سکون محسوس کرے گا۔انسان جب اپنی قوت ارادی پرقابوپالے گاتووہ نفسیاتی طورپرخودکوبہت بڑافاتح تصورکرے گا،اس کے اندرخوداعتمادی جاگے گی اوروہ غیرممکنہ کاموں کوبھی ممکن کے درجے میں لاکھڑاکرے گا۔

آئیے ہم سب لوگ اپنی اپنی قوت ارادی کومضبوط کریں ،ترقی کاخواب بنیں اوردنیاکوفتح کردکھائیں کیوں کہ قوت ارادی رازِحیات ہے، سرمایۂ حیات ہے ،خلاصۂ حیات ہے ،قرینۂ حیات ہے ،سلیقۂ حیات ہے ،عنوانِ حیات ہے بلکہ قوت ارادی ہی اصل حیات ہے یہی سراغِ حیات ہے ۔ڈاکٹراقبال کہتے ہیں
اپنے من میں ڈوب کرپاجاسراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتانہ بن اپنا تو بن
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 172534 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More