تیرے دل کاتسبیح میں مشغول رہنا،ابلیس پر لعنت کرنے سے بہتر ہے(الحدیث) قسط نمبر۲
(Ata Ur Rehman Noori, India)
ایسی بات نہ کہو جس کے کہنے کی ضرورت
نہ ہو،اچھی گفتگو کریں ورنہ خاموش رہے
زبان عجائبات صفات الٰہی سے ہے۔اگرچہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے لیکن حقیقت
میں جو کچھ موجود ہے وہ سب کچھ اس کے تصرف میں ہے۔کیوں کہ زبان موجود
ومعدوم دونوں کو بیان کرتی ہے۔ہر عضو کی حکومت وجود کے کسی ایک خطے میں
ہوتی ہے مگر زبان کی حکومت ساری مملکت وجود پرجاری و ساری ہے۔انسان جب نیند
سے بیدار ہوتا ہے تو تمام اعضاء انسانی زبان سے مؤدبانہ عرض کرتے ہیں’’تیری
سلامتی میں ہماری سلامتی ہے اور تیرے شر سے ہماری خیر نہیں۔‘‘زبان سے جب
بری بات نکلتی ہے تو دل تاریک وسیاہ ہوتا ہے جب کہ زبان سے حق کے صدور پردل
روشن وتابندہ ہوجاتا ہے۔مذہب اسلام نے زبان کے استعمال کے سلسلے میں ہمیں
تشنۂ قانون نہیں رکھا ہے۔بلکہ قرآن واحادیث شریفہ میں زبان کے استعمال
واحتیاط پر مکمل قانون موجود ہے۔مگر افسوس اسے دین سے دوری کہہ لیجئے یا کم
علمی سے تعبیر کر لیجئے،قصداً یا سہواًغفلت کا شکار ہوکر ہم زبان کے
استعمال میں غیر محتاط نظر آتے ہیں۔اور جھوٹ، غیبت،سفلہ پن، فحش گوئی،دشنام
طرازی،زبان درازی،مسخرہ پن،یاوہ گوئی اور دروغ گوئی کے مرتکب بنتے
ہیں۔گزشتہ ہفتے راقم کے مضمون میں زبان کی تین آفتوں کاذکرتھا۔مزیدآفتوں کا
آج ذکر کیا جاتا ہے تاکہ زبان کے صحیح ودرست استعمال کی طرف توجہ مبذول ہو
اور زبان کی آفتوں سے بچنے کا حتی الامکان جذبہ بھی پیدا ہو۔
٭جھگڑاکرنا:مال کے سلسلے میں جھگڑا کرنا زبان کی چوتھی آفت ہے۔مختارِ
کائنات ﷺ نے فرمایا:جو کوئی بغیر علم کے کسی سے جھگڑا کرے،رب تعالیٰ اس سے
ناخوش ہوگا جب تک وہ خاموش نہ رہے۔ بزرگانِ دین نے فرمایا:مال کے سواکوئی
اور ایسی چیز نہیں ہے،جو دل کو پریشان کرے اور عیش کو تلخ کرے اور بھائی
چارے میں خلل انداز ہو۔کوئی زاہد مال کے سلسلے میں خصومت(عداوت،دشمنی)نہیں
کرے گا کیوں کہ بغیریاوہ گوئی کے جھگڑا ختم نہیں ہوگا اور جو زاہد ہے وہ
یاوہ گوئی(بے ہودہ باتیں)نہیں کرے گا۔
٭فحش گوئی:پانچویں آفت فحش گوئی ہے۔رسول خدا ﷺ نے فرمایا:ایسے شخص پر جنت
حرام ہوگی جو فحش گوئی کرے گا۔حضور علیہ التحیۃ والسلام نے یہ بھی
فرمایا:دوزخ میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے منہ سے نجاست نکلے گی اور اس کی
بدبو سے تمام دوزخی فریادکریں گے اور دریافت کریں گے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ان
کو بتایا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فحش گفتاری کو پسند کرتے تھے اور فحش
بکتے تھے۔شیخ ابراہیم بن میسرہ نے کہا ہے کہ جو کوئی فحش بات کہے گا قیامت
میں اس کا منہ کتے کاہوگا۔(اﷲ اکبر)افسوس!آج غیرقوموں کی طرح امت مسلمہ بھی
فحش کلامی کے مرض میں مبتلا ہے۔سوشل میڈیاپر فحش ایس ایم ایس اورویڈیوز
انتہائی بے باکی کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے اورافسوس کہ گروپ ممبران اس پر
حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔گالی گلوچ تکیۂ کلام بنتے جا رہے ہیں۔نہ زبان کے
استعمال میں نہ محتاط روش ہے اور نہ ہی کسی کی عزت وآبرو کی پرواہ۔بے دھڑک
نازیبا کلمات کے ذریعے قلبِ مومن کو پارہ پارہ کردیا جاتاہے۔بے جھجھک
گالیوں کے ذریعے عزت کے قلعے کو پَل بھر میں مسمار کر دیا جاتا ہے۔زبان
درازی سے جہاں بڑوں کی بے ادبی کی جاتی ہے وہیں دروغ گوئی کے ذریعے آبروئے
مومن کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا جاتا ہے۔جب کہ ہمارے اسلاف کرام الفاظ وبیان
کے معاملے میں کس قدر محتاط تھے۔حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ نے کبھی کسی کتے
کو بھی کتا نہیں کہا کیوں کہ لفظ’’کتا‘‘گالی یا معیوب سمجھاجاتا ہے۔(سوانح
حضرت اویس قرنی )شاید اسی لیے سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اپنے منہ میں
کنکریاں رکھتے تھے تاکہ زیادہ بات نہ ہو۔حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے
فرمایاکہ زبان سے زیادہ کوئی چیز قید کرنے کے لائق نہیں ہے۔محتاطی کا یہ
عالم ہے کہ شیخ ربیع ابن خیثم نے بیس سال تک دنیا کی کوئی بات نہیں کی،وہ
صبح کو اٹھتے تو قلم اور کاغذلے کرجو بات کہنا ہوتی،اس کو کولکھ لیتے اور
اس کاحساب دل میں کرتے۔خود اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:’’ان کے اکثر
مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگرجو حکم دے خیرات یا اچھی بات کایالوگوں میں
صلح کرنے کا۔‘‘(انبیاء)یعنی وہی بات بہتر ہے جس میں خیرات کا حکم ہو یانیکی
کی دعوت دی جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔اسی لیے مصطفی کریم ﷺ نے
فرمایا:ابن آدم کا ہر کلام اس کے لیے وبال ہے اس کو اس کا کوئی نفع نہیں
ملتا سوائے نیکی کاحکم کرنے اور برائی سے روکنے اور ذکر الٰہی کے۔(ابن
ماجہ،بحوالہ:برکات شریعت،حصہ اول،ص؍۳۵۵)
٭لعنت کرنا:لعنت کرنازبان کی چھٹی آفت ہے۔رسول گرامی وقار ﷺ نے فرمایاکہ
مومن لعنت نہیں کرتاہے۔منقول ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں ایک عورت
شامل تھی اس نے ایک اونٹ پر لعنت کی سرور کونین ﷺنے فرمایاکہ اونٹ سے کجاوہ
اتار کراس کوقافلے سے باہر نکال دو کہ یہ ملعون ہے۔کئی روز تک وہ اونٹ ادھر
ادھر پھرتا رہا اور کوئی اس کے پاس نہیں جاتا تھا۔اﷲ اکبر!اگر کسی نے کسی
جانور پر لعنت کردی تو اﷲ کے محبوبﷺ نے اس لعنتی جانور کو قافلے سے باہر
نکال دیا۔امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جانوروں اور مکوڑوں کو بھی
لعنت کرنا برا ہے۔ حضور امیر سنی دعوت اسلامی علامہ شاکر علی نوری صاحب
برکات شریعت میں تحریرفرماتے ہیں کہ لعنت کے معنی ہے اﷲ کی رحمت سے دور
ہوجانا۔حضرت ابوالدرداء رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آدمی زمین یا کسی
چیزپر لعنت کرتا ہے تووہ چیز کہتی ہے کہ اس پر لعنت ہوجو ہماری بہ نسبت
زیادہ گناہگار ہے۔ایک روز سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے کسی پر لعنت کی۔آقاﷺ
نے ان کی لعنت سن کر فرمایا:ابوبکر کو لعنت کرنا درست نہیں۔رب کعبہ کی
قسم!آپ ﷺنے ان الفاظ کی تین بار تکرارفرمائی۔سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں کہ میں نے اس فعل سے توبہ کی اور اس کے کفارے میں ایک غلام آزاد
کیا۔کسی شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیاکہ مجھے نصیحت فرمائیں۔آپﷺ نے ارشاد
فرمایا:لعنت مت کرو۔ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ مسلمان پر لعنت کرنااور اسے
قتل کرنا دونوں یکساں ہے۔حدیث شریف میں ہے کہ’’تیرے دل کاتسبیح میں مشغول
رہنا،ابلیس پر لعنت کرنے سے بہتر ہے‘‘۔پھر مسلمان پر لعنت کرنا کس طرح درست
ہوگا ۔ |
|