ڈی جی انٹیلی جنس بیورو اپنے گھر کی خبر لیں۔۔

پاکستان میں 17اگست 1947ء میں قائم ہونے والی اِنٹیلی جنس بیورو(آئی بی ) جیسا حساس ادارہ تیسری نمبر پر آنے والی اِیجنسی میں شمار ہوتا ہے، جس کو اب تک نظر انداز کیا گیا یا تو ہر آنے والی حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ایف آئی اے کی طرح آئی بی کا سربراہ (ڈائریکٹر جنرل )بھی گریڈ بائیس کا پولیس افسر ہی ہوتا ہے جبکہ پہلے وقتوں میں ریٹائرڈ فوجی افسر ان کو بھی آئی بی کا ڈی جی تعینات کیا جاتا رہا، اس محکمے میں تعینات بیشتر افسران کا تعلق پولیس گروپ سے ہوتا ہے جبکہ محکمہ میں اپنی بھرتی بھی کی جاتی ہے۔ آئی بی کا کام دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرح ہوتا ہے مگر اب تک یہ ایجنسی دیگر ایجنسیوں سے مدد مانگا کرتی تھی ، نواز حکومت نے اپنے دور میں آتے ہی آئی بی کو جدید سہولیات دیں اور اب یہ ایجنسی زور و شور سے دہشت گردی کے خلاف رپورٹنگ کر رہی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے ملنے والے بھاری فنڈ سے آئی بی نے تفتیش کے لئے ملک بھر میں اپنے سیف ہاؤس بھی قائم کر لئے ہیں۔ اوراب تک خیبرپختونخواہ پولیس آئی بی کی اطلاعات پر کئی خطرناک دہشت گرد اور بھتہ خور گرفتار کر چکی ہے۔ گزشتہ روز اسکائپ پر راقم کی گفتگو آئی بی کے ایک اعلیٰ افسر سے ہو رہی تھی کہ اُنہوں نے بتایاکہ 2008ء میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کو گلبرگ اسلاآباد میں آئی بی ہاؤسنگ سو سائٹی قائم کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا جس کی مَد میں آئی بی ملازمین سے کروڑوں روپے وصول کیئے گئے ، ہاؤسنگ سوسائٹی کو 2011ء تک مکمل ہونا تھا مگر اب 2016ء میں بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کا کام التواء کا شکار ہے جس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ آئی بی کے ایک سابق ڈی جی سمیت دیگر کئی افسران نے مذکورہ پراجیکٹ میں کروڑوں ہڑپ کیئے جن کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہو سکا اور نہ ہی اس بارے میں وزیراعظم یا میڈیا تک اطلاع پہنچی۔ اورآئی بی کے سینکڑوں ملازمین کے کروڑوں روپے ڈوب گئے اور تاحال کسی نے خبر نہ لی۔

گزشتہ روز یہ خبر بھی سننے کو ملی کے وزیر اعظم نے آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان کو ایک بار پھر مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع دے دی ہے جبکہ اس سے پہلے بھی اُن کی ریٹائرڈمنٹ پر ایک سال کی توسیع دی جا چکی تھی، جس پر ملک بھر سے کئی پولیس افسروں نے احتجاج بھی کیا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق ریٹائرڈ ہونے والے سرکاری افسر کو دوبارہ مدت ملازمت میں توسیع دینا غیر قانونی ہے ، جبکہ توسیع سے دیگر اعلیٰ افسران کو حق سے محروم کیا گیا، ایک اعلیٰ افسر کے مطابق ملک بھر میں کئی سینئر پولیس افسران موجود ہیں مگر جناب وزیر اعظم کو اُن میں سے کوئی ایسا اَفسراہل نظر نہیں آیا جن کو ڈی جی آئی بی تعینات کیا جا سکے ، جس سے کئی سینئر افسران شدید بے چینی کا شکار ہوئے ہیں ۔ایک اور ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ڈی جی آئی بی کی مدت ملازمت میں ایک سپر پاور غیر ملکی سفارت کار کی سفارش بھی شامل ہے ، اب غیر ملکی سفارت کار نے ڈی جی آئی بی میں ایسی کیا خوبی دیکھی کہ اُن کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ ماضی میں آئی بی میں تعینات ہونے والے کئی پولیس افسران کو غیر ملکی سفارت کاروں کے تعلقات قائم کرنے پر اُنہی کے ممالک میں بطور سفارت کار تعینات کیا جاتا رہا۔ جبکہ اب بھی آئی بی پشاور آفس میں بھی کئی غیر ملکی سفارت کاروں کا آنا جاتا لگا رہتا ہے۔

پاکستان میں تعینات دیگرغیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حساس معلومات بھی اِسی ادارے سے ملنے کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کے بعد اطلاعات دینے والے اَفسر کو انعامی تعیناتی سے نوازا جاتا ہے ۔ آئی بی اچھے کارنامے تو کر رہی ہے مگر آئی بی میں چند نیب زدہ پولیس افسران کو بھی اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے جو آئی بی جیسے حساس ادارے میں بیٹھ کر نیب حکام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جن میں نیب کے تفتیشی افسروں کے ٹیلی فون ریکارڈ کرنا وغیرہ بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم کو آئی بی میں ایسے افسران تعینات کرنا ہونگے جس سے آئی بی ملک کی دیگر ایجنسیوں سے بھی بہتر کارکردگی کر سکے مگر ایسا کب ممکن ہو گا اﷲ جانے۔۔
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 80102 views i am a humble person... View More