پاکستان کی ٹیم کا کسی بڑے ٹورنامنٹ میں
میچ ہوتو کرکٹ صرف میدان میں ہی نہیں ہوتی بلکہ ہرگلی، ہر گھر میں کرکٹ
ہورہی ہوتی ہے۔ پاکستان کے گھر گھر میں محافل سجائی جاتی ہیں ،دوستوں ،رشتہ
داروں کو دعوتیں دی جاتی ہیں۔دفاتر اور مارکیٹوں کو جلد تالے لگا دیے جاتے
ہیں ۔ سڑکیں ویران ہوجاتی ہیں۔بڑی بڑی سکرینیں نصب کی جاتی ہیں۔ طرح طرح کے
پکوان پکتے ہیں۔جشن کا بھی خوب اہتمام کیاجاتا ہے ۔میدان سے زیادہ جذبہ
میدان سے باہر دکھائی دیتا ہے۔لیکن پاکستانیوں کو ہمیشہ مایوسی کا سامنا
کرنا پڑتا کیونکہ ہم نے ہر بار نکموں کو میدان میں اتارا ،غلطیوں پر غلطیاں
کیں اور پھر کبھی ان غلطیوں سے کچھ سیکھنے کی غلطی ہی نہیں کی۔ ماضی کو
کوسنے کی بجائے موجودہ ایشیا کپ میں پاکستان کے شاہینوں کی کاکردگی پر ہی
ماتم کر لیا جائے تو بہت ہوگا۔لیکن ہمیں قوی یقین ہے کہ نہ تو سلیکشن کمیٹی
اس ہار سے کچھ سیکھے گی ، نہ بورڈ کو کوئی فکر اور نہ ہی کوچ کو اپنی نوکری
کی کچھ پرواہ ہے۔ٹیم تو ویسے بھی احساس ذمہ داری سے عاری معلوم ہوتی ہے۔بس
فقط سیکھنا ہے تو مجھے اور آپ کو ہے جو اتنی امیدیں وابستہ کرکے ہربار اس
چلے ہوئے کارتوس پر بھروسہ کرکے جنگ جیتنے کی امیدیں وابستہ کرلیتے
ہیں۔ایشیا کپ کا آغاز ہوا تو پاکستان کا سامنا روایتی حریف بھارت سے ہوا،
قوم ایک طویل عرصے کے بعد بھارت سے پنجہ آزمائی پر پرجوش دکھائی دی۔لیکن
شاہینوں کے اُڑان بھرنے سے قبل ہی پرکاٹ دیے گئے۔ایسی شرمناک شکست کہ جس نے
ہماری کرکٹ کی چولیں ہلا دیں لیکن کپتان کو کوئی شرمندگی نہیں اور نہ ہی
ٹیم کو شرمندگی کا کوئی احساس ہوا۔ بس شرم سے پانی پانی ہونا تو قوم کے
نصیب میں ٹھہرا۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ اس ٹورنامنٹ میں پہلا میچ تھا
اس لیے پچ کو سمجھ نہیں پائے۔ کس قدر معصوم اور دودھ پیتے بچوں کے ساتھ یہ
ظلم کیا گیا کہ انہیں بنا کسی ٹریننگ اور پریکٹس کے میدان میں لاکھڑا
کیاگیا۔جوٹیم 15اووز میں 68بالز بنا کسی سکور کے کھیلے وہ ٹی ٹونٹی کامیچ
کیسے جیت سکتی ہے؟بھارت کے ہاتھوں تذلیل کا غم لیے یو اے ای کی ٹیم کے
سامنے گرتے گرتے سنبھلے تو قوم کو لگا ٹیم کم بیک کر چکی ہے۔ کچھ آگے بڑھے
تو بنگلہ دیش جیسی ٹیم نے جو 2سال قبل پاکستان سے کسی طرح بھی مقابلے میں
نہیں آتی تھی لیکن اب یہ ہماری مینجمنٹ ، کوچنگ سٹاف،سلیکشن کمیٹی اور
کپتان کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے کہ اس نے قوم کو اس سے بھی رسوا کر دیا۔
آئی سی سی کی رینکنگ میں بدستور ہماری تنزلی نے بھی مینجمنٹ کی آنکھیں نہیں
کھولیں بلکہ کسی معجزے کی منتظر رہی۔ احمقوں کی دنیا میں بسنے والے حکام کے
کانوں پر جوں تک نہیں رینگی مسلسل شکست کے باوجود سلیکشن کو سفارش اور پرچی
کی نظر کیا جاتا رہا۔ خرم منظور کی منظوری دینے والا کون تھا؟ پی ایس ایل
میں ایسے مایہ ناز کھلاڑی کو جوہر دیکھانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ بیک
اپ میں وہ کھلاڑی کیوں ساتھ لے کر جائے گئے جن کی پرفامنس اور فٹنس اک بہت
بڑا سوال ہے؟ بھارت سے شکست کی بنیادی وجہ زیادہ ’’ڈاٹ‘‘ بالز کھیلنا تھا
جس کو ڈھٹائی کے ساتھ دہرایا گیا 120بالز کے میچ میں جو ٹیم 60بالز بغیر
کسی رنز کے کھیلے اس کی جیت کی امید رکھنا احمقوں کی سوچ ہی ہوسکتی ہے۔سابق
کپتان مصباح الحق کو ٹُک ٹُک کا طعنہ دینے والوں کو چپ کیوں لگ
گئی؟پاکستانی ٹاپ آرڈر میں کوئی بھی ایسا کھلاڑی نہیں جسے کسی بھی
انٹرنیشنل ٹیم کا حصہ بنانے پر کوئی بھی ملک رضامند ہوگا۔ لیکن یہ اعزاز
پاکستان کو ہی حاصل ہے سفید ہاتھی پالنے کا۔ قوم کا پیسہ ان پر پانی کی طرح
بہایا جاتا ہے مہنگی مراعات، کوچنگ سٹاف،پیسے کی ریل پیل یہ سب اس لیے نہیں
کہ وہ پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیں۔ ہمیں ہارنے سے اب عشق ہوچکا
ہے،مجموعی طور پر کرپشن پوری قوم میں اتنی سرایت کر چکی ہے کہ کوئی ادارہ
بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔رشوت اور کمیشن مافیا نے کرکٹ کو بھی اپنی لپیٹ
میں لے رکھا ہے۔لیکن ہم کسی معجزے کے منتظر ہیں ۔ ہرٹیم کا سپہ سالار مثالی
ہوتا ہے لیکن ہمارے شہرہ آفاق کپتان شاہد خان آفریدی کی پرفامنس سب کے
سامنے ہے۔ ہماری قوم میں شخصیت پرستی کا یہ عالم ہے کہ وہ سیاست دان ہوں
یاکھلاڑی انہیں دیوتا بنا کررکھتے ہیں۔چاہے وہ دیوتا آپ کو ذلالت کے
انتہائی نچلے گڑھے میں گرادے۔دنیا کی کوئی ایک ٹیم کی مثال لے آئیں جو
پرفارمنس کے بغیر بھی اپنا کپتان برقراررکھے ہوئے ہو۔ یہ اعزاز صرف ہمیں
حاصل ہے کیونکہ ہم بحیثیت قوم کرپٹ واقع ہوئے ہیں۔ہم نے کرپٹ سپہ سالاروں
کو اپنے ماتھے کا جھومر بنانے کی روایت جو اپنا رکھی ہے۔بڑے نام ہمیں مرعوب
رکھتے ہیں اور ہم پر حکومت کرتے ہیں۔جبکہ دنیا بڑے ناموں سے بڑی پرفارمنس
کی ڈیمانڈ کرتی ہے۔کیونکہ انہیں رول ماڈل بننا ہوتا ہے۔جب وہ دیکھتے ہیں
پرفارمنس ان کے بس کی بات نہیں رہی تو عزت کی راہ اپناتے ہوئے نوجوانوں کو
موقع دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو کمبل نہ چھوڑنے کی روایت پر عمل کیا جاتا
ہے۔جب پرفارمنس پر سوال کیا جاتا تو بدتمیزی اور گھٹیا پن کا طعنہ دیا جاتا
ہے۔ بورڈ ان بڑے ناموں کے ہاتھوں یرغمال ہے انکی روزی روٹی ان بڑے ناموں سے
وابستہ ہے۔ اس میں سب اپنا اپنا حصہ لیتے ہیں اور کھیل کے ساتھ کھلواڑ کرتے
ہیں۔اس کا ذمہ دار میں عوام قوم کو سمجھتا ہوں کیونکہ عوام کا پریشر وہ
بنیادی ٹیکہ ہے جو پرفارمنس پر مجبور کرتا ہے۔لیکن قوم نے چپ کا روزہ رکھا
ہوا ہے۔میں کسی اشتعال انگیزی کی حمایت نہیں کرتا لیکن بھارت کی ٹیم بخوبی
جانتی ہے کہ پاکستان سے ہار کی صورت میں انہیں بھرپور عوامی ردعمل کا سامنا
کرنا پڑے گا۔اسی لیے وہ سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔جبکہ اپنے کاغذی شیرچونکہ
جانتے ہیں کہ ’’تم جیتو یا ہارو سنو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ کی صدا گونجے گی
اس لیے ڈھٹائی کے ساتھ ہارجاتے ہیں۔لیکن بہت ہو چکا ہمیں اپنے رویوں پر
غورکرنا ہوگا، مداح ضرور بنیں مگر پہلے پاکستانی بننا ہوگا۔بڑے اور تجربہ
کارکھلاڑیوں سے متعلق عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ انہیں NABکے حوالے کر دیا
جائے تاکہ قوم سے ان کی جان چھوٹے۔پی ایس ایل کے نام سے اتنا بڑا ٹیلنٹ ہنٹ
ٹورنامنٹ کرنے کے باوجود قوم کو ان چلے ہوئے کارتوسوں کے بل بوتے پر محاذپر
بھیجنا خودکشی کے مترادف ہے۔ |