نفرتوں کا سفر
(Muhammad Rizwan Khan, Islamabad)
ہم بحثیت قوم دردناک المیہ اور چلتی پھرتی
داستان عبرت ہیں۔مسئلہ میچ کا نہیں ۔ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔پاکستان ہار
گیا بنگلہ دیش جیت گیا ۔مسئلہ یہ بھی نہیں کہ ہم کیوں ہار گئے یاحسینہ واجد
میچ دیکھنے بذات خود گراؤنڈ میں کیوں تشریف فرماتھیں۔ہار کی وجوہات پر بحث
کرنا فضول ہے۔مسئلہ تو شاہ جی کے وہ کمنٹس ہیں جو انہوں نے میچ کے شروع
ہوتے ہی دئیے کہ یہ بونے ہم سے کسی طور نہیں جیت سکتے ہم جب ان کو مارنا
شروع کریں گے تو دیکھنا کیسے روئیں گے۔میں نے ۹۹ ورلڈ کپ فائنل کے بعد کرکٹ
دیکھنا چھوڑ دی تھی۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ٹیم ہار کیوں گئی۔وجہ جوئے کے
الزامات اور خواہشات کا ہنسی مذاق میں قتل تھا۔ورلڈ کپ کا فائنل میچ ہو اور
پوری ٹیم معمولی ٹوٹل پر آؤٹ ہو جائے اور جواب میں مخالف ٹیم ہنستے ہنستے
باآسانی ہدف پورا کر لے تو دل بھی ٹوٹتا ہے دکھ بھی ہوتا ہے۔میچ ہارنے کے
بعد بندہ کم از کم دل ناتواں نے مقابلہ تو خوب کیا کہنے کے قابل تو ہو۔خیر
شاہ جی کے کمنٹس کے بعد بحث شروع ہو گئی۔شاہ جی کرکٹ کو عبادت سمجھ کر
دیکھتے ہیں ۔سردی ہو گرمی ہو بھلے کوئی مر رہا ہو یہ میچ چھوڑ کر ادھر سے
ادھر نہیں ہوتے۔میں ان کے اس روئیے کا شاقی ہوں ۔یہ جنون اور پاگل پن
پاکستان انڈیا اور بنگلہ دیش میں کامن ہے۔جیت کے بعد سڑکوں پر جشن اور ہار
کے بعد ماتم کرنا کئی کئی دن تک میچ کے دوران ہونے والی غلطیوں کو اور
پلئیرز کو کوسنا بھی جنوبی ایشائی لوگوں پر ختم ہے۔شاہ جی بحث کے موڈ میں
نہیں تھے کیونکہ سب پلئیرز کو حسب منشاء کھلانا بھی دوران میچ ان کی ہی
ڈیوٹی ہوتی ہے۔میں بظاہر میچ دیکھ رہا تھا مگر میرے ذہن میں یہی فقرہ گونج
رہا تھا کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔1971میں جو نفرتوں کا سفر انجام
پذیر ہوا تھا وہ ملک کی تقسیم کے بعد بھی آج تک جاری ہے۔نام کے دونوں ملک
مسلمان مگر شہریوں کے دل نفرتوں سے لبریز۔بنگالیوں نے بھی میچ کو زندگی موت
کا مسئلہ بنایا ہوا تھا۔پاکستانی بھی اپنی صاف رنگت اور درمیانے قد کے غرور
کے نشہ میں ڈوبے ہر حال میں بونوں سے جیتنے کے متمنی تھے۔جیت کے بعد محترمہ
حسینہ واجد کے چہرے پر ایسی مسرت رقصاں تھی کہ جیسے کرکٹ میچ نہ جیتا ہو
بلکہ پوری دنیا ہی فتح کر ڈالی ہواورپاکستانی اسقدر مایوس کہ جیسے سب کچھ
ہار گئے ہوں ۔اگر کوئی یہ جاننا چاہے جو میں دوران میچ سوچتا رہا تو جا کر
میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا کتاب پڑھے یا پھر شہاب صاحب کے تاثرات بنگالیوں
کے ساتھ اس دور میں روا امتیازی سلوک کے بارے میں شہاب نامہ میں پڑھے ۔کوئی
کہتا کہ ان کو سیلابوں میں ڈوب جانے دو کوئی کہتا کہ یہ ٹھگنے الگ ہی ہو
جائیں تو بہتر ہے۔بنگالی تشکیل پاکستان کے بعد گورے کی غلامی سے آزاد ہو کر
کاٹھے گوروں کے چنگل میں پھنس چکے تھے۔بھارت نامی خون آشام بھیڑیا بھی ان
کو ورغلانے میں پیش پیش تھا۔ایسے نہ سہی ویسے ہی سہی دونوں طرح نقصان
پاکستان اور مسلمانوں کا ہی ہوا۔ملک دو لخت ہو گیامگر ہم نے ماضی سے کچھ نہ
سیکھنے کی قسم نہ توڑی۔کیا یہ غلط ہے کہ ہم نے جنوبی پنجاب کو محروم رکھا
ہوا ہے۔میں آج سے سترہ سال پہلے جب انجیئنرنگ کرنے لاہور گیاتو میرے شہر کے
یار دوست جو نئے نئے پڑھنے کے سلسلہ میں لاہور آئے تھے اکثر محرومی کا راگ
الاپتے رہتے ۔پورے بہاولپور ڈویژن سے صرف آٹھ لڑکے تھے جو انجیئنرنگ کا
میرٹ بنا پائے تھے اور یوای ٹی لاہور میں داخل ہوئے تھے۔میں دوستوں سے بحث
کرتا کہ یار دلوں میں نفرتیں نہ پالو دل بڑے کرو۔بات ان کی بھی ٹھیک تھی کہ
اس لیول کی ایک یونیورسٹی کیا جنوبی پنجاب میں نہیں بن سکتی ہم صرف آٹھ لوگ
ہی کیوں یہاں تک پہنچ پائے ہیں۔بڑے شہروں کے طلباکا رویہ بھی ہمارے ساتھ
کافی توہین آمیز ہوتا تھا۔لڑکیاں تو بہاولپور کا نام سن کر ہی نعرہ لگاتیں
کہ پینڈو یہاں تک کیسے آپہنچے۔ لو ٹاٹ اسکولوں والے اسٹوڈنٹ بھی اب یو ای
ٹی آن پہنچے ہیں۔حالت آج تک بڑی مایوس کن ہے۔ملتان اور بہاولپور میں
انجئینرنگ کالجز کام تو کر رہے ہیں مگر وہاں کے گریجویٹ انجیئنرز کو ابھی
تک مارکیٹ Absorb نہیں کر رہی۔ان کی قابلیت کو مشکوک سمجھا جاتا ہے۔کے پی
کے میں صوبائی حکومت میٹرو بنانا چاہتی ہے لیکن نمبر کٹ جانے کے خوف میں
مبتلا وفاق ان کو ریلوے زمین پر کراسنگز بنانے کی اجازت دینے پر تیار
نہیں۔بات بلوچستان کی کریں تو میرے یار مہراﷲمری کی بات ٹھیک ہے کہ وہاں
غربت اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔دن رات ان کے حقوق کی بحالی کے نعرے زیادہ
لگتے ہیں حقوق ملتے کم ہیں۔مایوسی اپنی جگہ یہ لکھنے میں مجھے کوئی عار
نہیں کہ ہم بحثیت قوم تکبر کا شکار ہیں۔گھر میں بھلے روٹی پکے یا نہ پکے
مگر ہم پڑوسی کو جوتے کی نوک پر رکھنا فرض سمجھتے ہیں۔نفرتوں کے سفر میں ہم
ایک دوسرے سے بہت دور جا چکے ہیں۔آپ کو یقین نہ آئے تو کسی دن چاروں صوبوں
کے پڑھے لکھے لوگوں کو جنرل گپ شپ کے لئے ایک ساتھ بٹھا کر چیک کر لیں۔پانچ
منٹ کے بعد جگت بازی شروع ہو جائے گی۔ہر کوئی دوسرے کو گھٹیا اور اپنے صوبے
اپنے لوگوں کو عظیم ثابت کرنے پر تل جائے گا۔سب ایک دوسرے کو چور قرار دیتے
نظر آئیں گے۔ کرکٹ کھیلیں یا نہ کھیلیں کم از کم سفارشی کھلاڑیوں کا ٹیم
میں داخلہ بند کر دیں۔ٹیم خود ہی فائٹ کرنے اور جیت کی راہ پر گامزن ہو
جائے گی۔میرٹ پر عمل کرنے کی عادت اپنائی گئی ہوتی تو کسی میدان میں
شرمندگی ہمارا مقدر نہ بنتی۔ہمارے تمام دریا الٹے بہہ رہے ہیں۔اور ہم ان پر
جھوٹی انا اور نفرتوں کے بند باندھنے کی فکر میں ہیں ۔ صرف میرٹ پالیسی پر
عمل سے ہمارے تمام دریا معمول کے مطابق بہنے لگیں گے۔پاکستان کھپے جیسے
نعروں اور نفرتوں کو گڈ بائے کہہ کر ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔دنیا ہمارے جیتے
ہوئے کرکٹ میچز یاد نہیں رکھے گی۔دنیا ہماری ترقی کی بنیاد پر ہماری جانچ
کرے گی۔دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے اور ہم ایشائی ہیں کہ کرکٹ کے
میدانوں میں جیت ہار کو ہی سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں۔ لکھنے والے لکھتے رہیں
گے عمل کرنے کا کوئی وقت متعین نہیں جب مت آجائے تب عمل کر لینا ہی عقلمندی
ہوتی ہے۔میچ ہار جانے کے باوجود ہم ایٹمی طاقت ہیں کیا یہ کم نہیں ۔ہمیں
ایسی جیسی جیت اور کامیابیاں سمیٹنے کے بارے میں سوچناچاہئے ۔ |
|