اسلامی یونیورسٹی میں فکر اقبال پر علمی مذاکرہ
(Dr Khalid Fawad Alazhari, India)
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں
صدرجامعہ ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش کی تحریک اور کوششوں سے مشرق کے مفکر
عظیم اورمسلمانوں کے لئے الگ ملک کا تصور دینے والی شخصیت اور شرق و غرب جن
کی نثر ونظم کا حدی خواں ہے جسے دنیا علامہ محمد اقبال کے نام سے جانتی ہے
،ان کی شخصیت کے علمی و فکری ،اصلاحی و دعوتی پہلوؤں سے استفادہ کرنے کے
لئے اسلامی یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں علمی و مطالعاتی اور فکری مذاکرہ کا
اہتمام کرایا ۔مذاکر میں سعودی سفارتخانے کے مکتب الدعوہ کے سربراہ محمد بن
سعد الدوسری ، محی الدین اسلامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الحق
یوسف زئی، پاکستان جرمن ایسوسی ایشن کے سربراہ پروفیسر چوہدری اعجاز ،
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اقبالیات کے ڈاکٹر محمد ایوب صابر،
دعوہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سہیل حسن ، ادارہ تحقیقات اسلامی کے سربراہ
ڈاکٹر محمد ضیاء الحق ، یونیورسٹی کے دیگر اساتذہ ، افسران اور ملازمین نے
بڑی تعدادمیں شرکت کی۔جس میں حاضرین و سامعین نے فکر اقبال کے مختلف پہلوؤں
پر اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالی ۔اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ
علمی و فکری اور مطالعاتی نشست بڑی حد تک کامیاب رہی ہے ،مگر زیادہ تر
مقررین علامہ اقبال کے فلسفیانہ ،داعیانہ اور اصلاحیانہ پہلوؤں پر گفتگو
کرتے نظر آئے۔لیکن علامہ اقبال ؒ کے موضوع خاص بیداری فکر پر کسی نے کلام
نہیں کیا جبکہ علامہ کی حیات کے زمانہ کو ہم دیکھتے ہیں تو ان کی
ولادت۱۸۷۷ء میں اور ان کی وفات ۱۹۳۸ء میں ہوئی جس سے واضح طورپر ظاہر
ہورہاہے کہ اقبالؒ جس زمانہ میں پیدا ہوئے وہ انگریزوں کے استعمار اور
برصغیر پر قبضہ کا عصر ہے۔
علامہ اقبال ؒ نے انگریز کے قبضہ کے ایام میں بیداری فکر کی دعوت دی اور
انگریزوں کے ناجائز قبضہ سے گلوخلاصی حاصل کرنے پر زوردیتے رہے ۔جو لوگ
انگریز کی دامے درمے مدد کرتے تھے ،ان سے محبت ومودت کی بانگیں ملاتے تھے
ان کی مذمت کرنا اور ان کی خیانت کا پردہ فاش کرنا علامہ کا طرہ امتیاز
تھا۔علامہ یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح کے خائن اور بددیانت لوگوں کے وجود میں
آنے کا سبب ناقص دینی و فکری تربیت کا نتیجہ ہے تو لہذا ان کے ایمان کو
مضبوط اور قوی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی روحانی تربیت کا اہتمام کیا
جائے جس کے نتیجہ میں ان کا اپنا من خود بخود نیکی اور راستی و سچائی کی
طرف مائل ہوجائے گا ۔اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی نظم و نثر میں خودی و
ایمانیات اور بحیثیت مسلم عائد ذمہ داریوں کوبڑے خوبصورت انداز میں بیان
کیا۔
علامہ یہ سمجھتے تھے کہ گروہ پسندی اور فرقہ بندیاں بھی انگریز کے ہتھیاروں
میں سے ایک ہتھیار ہے جس کے سبب اس نے ایک قوم کو کئی گروہوں ،گروپوں ،قوموں
اور فرقوں میں تقسیم کردیا۔مگر افسوس کی بات اب یہ ہے کہ آج کل کے دانشور
علامہ کی علمی مقام و مرتبہ کو جانچنے اور پرکھنے اور اس پر بات کرنے میں
ہی اپنا وقت صرف کردیتے ہیں مگر ان کی فکری و نظری دعوت کی حقیقت کو سمجھنے
اور سماج کو اس سے آگہی دینے کے عمل سے پہلوتہی کا معاملہ کرتے نظر آتے
ہیں۔اگر فکر اقبال کے انقلابی اور خودی کے پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیاجائے
تو اس سے معاشرہ کے مسائل کا حل نکل سکتاہے۔علامہ اقبال ؒ کی سوچ و فکر
مغرب سے متاثر نہیں تھی اور نہ ہی وہ مغرب کی تہذیب و ثقافت کو انسانیت کے
لئے فائدہ مند سمجھتے تھے۔اسی وجہ سے انہوں نے بڑی محنت و لگن اور باریک
بینی کے ساتھ آسان اور جاذب نظر اسالیب کو اختیار کیا ان لوگوں کے سوچ وفکر
کو بدلنے کے لئے جو مغرب کی ثقافت وحضارۃسے انتہادرجہ کی ہمدردی رکھتے تھے
اور یہ عمل بہت مشکل تھا کہ اپنے ملک کے لوگوں کو ماضی اور اصل کی طرف واپس
لایاجائے جو چونکہ برصغیر کی فضادشوار گذار ہے کہ یہاں دعوت و فکرکام کرنا
بے حد مشکل ہے۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ علامہ اقبال ؒ کی حیات کے اہم پہلوؤں کو ہم بآسانی
تقسیم کردیں روحانی و ادبی ،فکری و فلسفی اور تربیتی ۔۔۔۔علامہ کے اشعار
میں فلسفہ کی حدود سے متجاوز نہیں ہیں اورنہ ہی ان کے اصلاحی مؤقف سے
اجنبییت رکھتے ۔اس مذاکرہ میں ایک اہم پہلویہ بھی سامنے آیا کہ بعض لوگ جو
قومیت اور علاقائیت کی بنیاد پر زمین میں فتنہ و فساد اور خون ریزی کا
بازار گرم کرتے ہیں وہ کسی بھی طور پر راہ راست پر نہیں ہوسکتے کیوں کہ
علامہ نے کھلے الفاظ میں اپنے اشعار میں یہ بات بیان کی ہے کہ لازم ہے کسی
ملک و ریاست کی تعمیر اور اس کو حضاۃ و ثقافت کا درجہ دینے کے لئے کہ اس کے
پس منظر میں اسلام و ایمان کی تشجیع موجود ہو اور اگر ایمانی و دینی قوت
کارفرمانہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ یہ سب عمل باطل اور فساد پر مبنی ہے اس کے
نتیجہ میں ملک و ریاست منتشر توہوسکتی ہے مگر متحد ہر گز نہیں ہوگی۔اسی طرح
علامہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر حضارۃ و ثقافت کو قائم کرنے کے لئے ضروری
ہے کہ لوگوں کے دلوں کو صحیح سانچے میں ڈحالا جائے کیوں کہ کسی بھی کامیاب
تہذیب کو اس وقت تک اپنے قدموں پر کھڑانہیں کیا جاسکتاجب تک اس سے منسوب
افراد داخلی طورپر متمدن اور دیانت دارانسان نہ ہوں۔علامہ کی فکر و نظر اس
قدر عمیق و وسیع ہے کہ اس کے گوشوں کو سمجھنے اور نکالنے کا عمل سماج میں
جاری رہے گا۔ |
|