اس کروڑوں کی آبادی رکھنے والے شہر
کراچی میں ایک رات ایسی بھی گذری جب دو انسان تنہائی میں اپنی جان کی بازی
ہار گئے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔ المیہ یہ کہ دونوں افراد کی لاشیں الگ
الگ فلیٹ سے ملیں۔ فلیٹوں پر مشتمل پلازہ جہاں دروازے سے دروازہ جڑا ہوتا
ہے وہاں کے مکین بھی ایک دوسرے سے اس قدر غافل ہو جائیں تو اس صورتحال کو
المناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ پہلے کبھی مغربی ممالک کے بارے میں پڑھا کرتے
تھے کہ پڑوسیوں نے بو سونگھی تو پولیس کو فون کیا یا دودھ والے نے دیکھا کہ
کوئی دروازے پر سے دودھ کی بوتلیں نہیں اٹھا رہا تو پولیس کو مطلع کیا اور
فلیٹ سے لاشیں برآمد ہوئی لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہا ں رہنے والوں کو ان
کے دین کی ہدایت ہے کہ چالیس گھروں تک کا علاقہ پڑوس کہلاتا ہے اور یہ کہ
وہ مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھا لے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔
ایسے میں پڑوس میں رہنے والے تنہا بوڑھوں کے ساتھ یہ معاشرہ کیا سلوک کر
رہا ہے،قابل غور ہے۔معاشرہ میں یہ رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ اچھے
مستقبل کا خواب لئے نوجوان نسل بیرون ملک آباد ہو جاتی ہے اور پیچھے بوڑھے
ماں باپ تنہا رہ جاتے ہیں۔اولاد سمجھتی ہے کہ وہ پیسے بھیج کر اور نوکر رکھ
کر اپنا قرض ادا کر رہی ہے لیکن یہ بھول جاتی ہے کہ نوکر اور پیسے رشتوں کی
عدم موجودگی کا مداوا نہیں کر سکتے۔ جب تک ماں باپ دونوں موجود ہوں تو پھر
بھی ایک دوسرے کی سنگت میں گذارا کر لیتے ہیں لیکن کسی ایک فرد کے دنیا سے
چلے جانے کے بعد وہ خود تنہائی کے اک ایسے عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں جہاں
ان کے لئے دکھ سکھ بانٹنے والا کوئی فرد موجود ہوتا ہے نہ وہ اپنے دل کی
باتیں کسی سے بیان کر سکتے ہیں۔ اس ایک طبعی موت آنے سے قبل نہ جانے کتنی
مرتبہ وہ موت جیسی کیفیت سے گذرتے ہوں گے کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟دیکھا جائے تو
والدین ،اولاد،معاشرہ سب ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔جو والدین شروع سے بچوں کے
گریڈز اور پوزیشن کی فکر میں تو گھلیں اور اس میں کمی پر انھیں تنبیہ بھی
کریں لیکن رشتوں کی اہمیت اور ان کے تقاضے نہ سمجھائیں یا ان کی ادائیگی
میں کمی کو تنبیہ کے قابل نہ سمجھیں وہ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ کل جب مادی
ترقی اور رشتوں کی سنگت کا مقابلہ ہوگا تو اولاد رشتوں کو فوقیت دے گی؟پھر
جب اولاد کی تعداد زیادہ ہوتی تھی تو ایک دو بچے بیرون ملک چلے جاتے تھے تو
پیچھے بھی کچھ موجود ہوتے تھے جو بوڑھے ماں باپ کو مل جل کر سنبھال لیتے
تھے لیکن جب ایک یا دو بچے ہی رہ جائیں تو عموماً یہی ہوتا ہے کہ بیٹی شادی
ہو کت باہر چلی گئی ، بیٹا پڑھنے کے لئے باہر چلا گیا پھر وہیں آباد ہوگیا
اور ماں باپ اولاد کو پال پوس کر پھر اکیلے رہ گئے۔
اب جو ائنٹ فیملی سسٹم کا وہ نقشہ بھی کم ہی دیکھنے میں آتا ہے جب خاندان
کے ایسے افراد جو کسی وجہ سے اکیلے رہ گئے ہوں پورا خاندان اپنے اندر سمو
لیتا تھا اور ایسے افراد جگّت ماموں یا جگّت خالہ بن کر مانوس رشتوں کے
درمیان اپنی عمر گذار جاتے تھے۔ اب گھر تو بڑے ہوگئے ہیں لیکن دل چھوٹے رہ
گئے ہیں۔
ایسے میں حقیقی حل یہی ہے کہ ہم اپنے آج کو گذارتے ہوئے آنے والے کل کو
سامنے رکھیں۔صلہ رحمی وہ نیکی ہے جس کا اجر اﷲ تعالی دنیا میں بہت جلد دکھا
دیتے ہیں۔اپنے سے جڑے رشتوں کی قدر دانی کرنا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا،ان
کا سہارا بننا، ان کا دکھ سکھ بانٹنا ہمارے آج اور آنے والے کل کی فلاح کا
باعث بنے گا۔بچے ہمارے قول سے کم اور عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں۔جب ہم اس بات
کو سمجھ لیں گے کہ ٹی وی اور نیٹ پر وقت گذارنے سے کسی رشتہ دار کے گھر جا
کر اس کی خیریت دریافت کر لینا زیادہ اہم ہے تو ہمارے بچے بھی یہ بات سمجھ
لیں گے۔
بوڑھے افراد کی رہائش کے لئے تیزی سے قائم ہوتے ہوئے اولڈ ہاؤسز ایک مصنوعی
اور مسلمان معاشرہ کے لئے نا مناسب حل ہے۔ اس کے بجائے اگر اس بات کی ترغیب
دی جائے کہ ایسے افراد کو قریب تر رشتہ دار اپنے ساتھ رکھیں اور اگر ان کی
کفالت ان کے لئے مشکل ہو تو ان کے مقام پر ہی حکومت یا فلاحی تنظیمیں ان کے
لئے وظیفہ مقرر کر دیں۔بعض مرتبہ انا کی مار بھی رشتوں میں جدائی ڈال دیتی
ہے اور رشتے ہوتے ہوئے بھی انسان تنہا رہ جاتا ہے ایسے میں ہمارا فرض ہے کہ
صلح صفائی کرانے کے لئے اپنا کردار انجام دیں۔اگر محبت اور دل سوزی کے ساتھ
اس کی کوشش کی جائے گی تو یقینا اثر کرے گی کہ روٹھے ہوؤں کو منانے کے لئے
تو جھوٹ بول دینا بھی جائز ہے اور اﷲ تعالی معاف کرنے والے کو پسند فرماتا
ہے۔اپنے پڑوس اور خاندان کی خبر رکھیں تاکہ کل کوئی اور المیہ اخبار کی خبر
نہ بن سکے۔ |