تعلیمی بجٹ کا ضیاع
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
تعلیم کی اہمیت سے تو کوئی بھی انکار نہیں
کرتا اور ہر کوئی ملک میں تعلیم کو عام کرنے اور معیاری تعلیم دینے کی بات
کرتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ہمارے حکمران چاہے وفاقی ہو یا صوبائی
ان کے نزدیک تعلیم حاصل کرنا اور اپنے غریب عوام کو معیاری تعلیم دینا پیسے
کا ضیاع ہے اگرچہ اس کا اظہار یہ لوگ کھلے عام تو نہیں کرتے لیکن تعلیم کو
عام کرنے اور اسکولوں کو بہتر کرنے کی پالیسی صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ
نہیں ۔ وفاقی حکومت نے تعلیمی بجٹ میں پہلے سے کمی لائی اور یونیورسٹیز کو
ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جس کی وجہ سے یونیورسٹیز نے اپنی فیسوں میں
مزید اضافہ کیا اور آخر کار غریب کا بچہ ایک دفعہ پھر اعلیٰ تعلیم کو حاصل
کرنے کا خواب پورا نہ کرسکا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب مڈل کلاس لوگ بھی اپنے
بچوں کو سرکاری یو نیورسٹیز میں نہیں پڑھا سکتے ہیں کہ وہ لاکھوں کی فیس ہر
چھ ماہ بعد یونیورسٹیز کوادا کر یں گے۔ اب تو یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ
مسلم لیگ نون کے نزدیک تعلیم اور ہسپتالوں کا نمبر میٹرو بسوں اور ٹرین کے
بعد ہی آتا ہے بقول ان کے کہ عوام نے ہمیں اس لئے منتخب کیا کہ ہم ان کو
صرف پنڈی اور لاہور میں چار سو ارب کی میٹرو بس اور ٹرین دیں باقی ملک اور
غریبوں کاﷲ ہی حافظ ۔ اس لئے وفاقی حکومت سے گلہ نہیں بنتا کیوں کہ انہوں
نے عوام کو تعلیم یا صحت دینے کی بات نہیں کی اور نہ ہی ان کے نزدیک یہ ملک
وقوم کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔ اسلئے انہوں نے اپنے تر قیاتی کاموں کے لئے صحت
اور تعلیم کا بجٹ کم کر دیا ہے لیکن ہم بات کریں گے تبدیلی کے نام پر آنے
والے حکومت کی جنہوں نے تاریخ میں پہلی دفعہ صوبے کے چار سو ارب روپے کے
بجٹ میں سو ارب روپے تعلیم کے لئے رکھ دیے جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ
صوبے میں اسکولوں سے باہر رہنے والے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرایا جائے
گا۔ میٹرک تک تعلیم مفت ہو گی ۔ معیاری تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے کام
شروع کیا جائے گا جبکہ اساتذہ کی ٹر نینگ سمیت اسکولوں کی پوزیشن کو بہتر
بنایا جائے گا ، تعلیم میں ایسا انقلاب لائیں گے کہ والدین بچوں کو
پرائیویٹ اسکولوں کے بجائے سرکاری اسکولوں میں داخل کر ائیں گے۔ان باتوں
اور وعدوں کو پوری قوم نے سراہا کہ اگر سو فی صد نہیں تو کم از کم
70سے80فیصد عمل تو کیا جائے گا لیکن یہ خواب اس وقت چکنار چور ہوئے لیکن جب
صوبائی حکومت کو تقریباً تین سال کا عرصہ گزر گیا اور اسکولوں کے حالات جوں
کے توں رہیں ۔100ارب روپے کا بجٹ تو رکھا گیا لیکن فنانشل سال ختم ہونے کو
ہے وہ بجٹ استعمال نہیں ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک میں اور خیبرپختونخوا میں
دہشتگردی سے متاثرہ ہونے والے عوام اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دینے
کے لئے اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کو بھی آج تک پورا نہیں کیا گیا۔ ابتدا
میں کسی حد تک میرٹ سسٹم کو قائم اور پوچھ گچھ کی جاتی تھی لیکن وہ عمل بھی
وہیں روک دیا گیا ۔ بلدیاتی نمائندوں کو سرکاری اسکولوں اور ہسپتالوں کو
مانٹرنینگ کرنے کے دعوے بھی صرف دعوے رہ گئے۔ حال تو یہ ہے کہ ہزاروں کی
تعداد میں اسکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے۔ ملک کے باقی صوبوں کی طر ح
خیبرپختونخوا کے اکثر اسکول بھی بنیادی سہولتوں یعنی پینے کے صاف پانی ،
لیٹرین، کھیل کے میدان ،اسکولوں میں فرنیچرز، پنکھے وغیرہ تین سال گزرنے کے
باوجود مہیا نہیں کیے گئے ہیں ۔ اگر ہم وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک
کے ضلع نوشہرہ کی بات کر یں تو وہاں اسکولوں کی حالت انتہائی خراب اور خستہ
حال ہے۔ماضی میں بنائے گئے دور دراز گھوسٹ اسکولوں کی کہانیا ں تو اپنی جگہ
لیکن جن اسکولوں میں بچے کافی تعداد میں موجود ہے وہاں پر اساتذہ کی کمی ہے
، عملے کی کمی سمیت بچوں کو بیٹھنے کیلئے ڈیسک، کرسی او رپنکھوں کا بھی
کوئی بندوبست نہیں ہے۔سال پہلے جب بلدیاتی انتخابات اسکولوں میں ہورہے تھے
تو اندازہ ہوا کہ اسکولوں میں کوئی بہتری نہیں آئی سال گزرنے کے باوجود اب
بھی اسکولوں میں تبدیلی خواب ہی ہے ۔ جتنے بلند دعوے اور وعدے ہوئے تھے اس
کے بر عکس سرکاری اسکولوں کی وہ پوزیشن ہے جو پہلے تھی بلکہ عوامی نیشنل
پارٹی نے سرکاری اسکولوں کی مد میں جوکرپشن کی تھی وہ بھی آج تک بے نقاب
نہیں ہوئی ۔پارٹی چیئرمین عمران خان کو چاہیے کہ اب تک کی اسکولوں میں
تبدیلی کے حوالے سے صوبائی حکومت سے رپورٹ لیں اور سرکاری اسکولوں میں
بہتری نہ آنے اور بجٹ کے ضیا ع پر وزیر تعلیم سمیت سب کی چھٹی کر دیں ۔
چیئرمین کو چاہیے کہ سرکاری اسکولوں میں اب تک اساتذہ اور دوسرے عملے کی
کمی کو پورا نہ کرنے پر تحقیقات کر یں ۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ بیوروکریسی
اپنی روایتی حربے استعمال کرکے صرف ٹائم پاس کر رہی ہے۔صوبائی حکومت کی
تعلیم میں تبدیلی بھی وہی ہے جس طرح انہوں نے پولیس ، پٹواری یا ہسپتالوں
میں لائی ہے جس طرح توقع تھی اس طرح تبدیلی سرکاری اسکولوں اور تعلیمی کے
شعبوں میں نہیں لائی گئی ہے جس پر پارٹی قیادت کو غور کرنا چاہیے۔ |
|