زانی کو رجم کرنے کی تحقیق (قسط اول)

تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ شادی شدہ مسلمان مرد یا عورت زنا کرے تو اس کی حدرجم ہے اور فقہاء اسلام میں سے کسی مستند شخص نے اس اجماع کی مخالفت نہیں کی۔ بعض خارجیوں نے اس اجماع کی اگر مخالفت کی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ ہمارے زمانے میں منکرینِ حدیث کی ایک جماعت پیدا ہوئی جنہوں نے سنت کی حجیت کا انکار کیا اور مستشرقین نے اسلام کے خلاف جو کچھ زہر اُگلا اس کو انہوں نے قبول کرلیا۔ ان لوگوں نے جہاں اسلام کے اور بہت سے اجماعی اور مسلمہ عقائد کا انکار کیا ہے ان میں سے ایک رجم کا مسئلہ ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں زانی کی سزا صرف کوڑے مارنا ہے اور جن احادیث میں رجم کا ذکر ہے وہ اخبار آحاد ہیں اور خبر واحد سے قرآن مجید کو منسوخ کرنا جائز نہیں ہے۔

منکرین سنت کا یہ قول قطعاً باطل اور مردود ہے اوّل تو یہ غلط ہے کہ قرآن مجید میں رجم کا اصلاً ذکر نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں ارشارتاً جم کا ذکر موجود ہے جیسا کہ انشاء اللہ عنقریب ہم واضح کریں گے اور ثانیاً یہ مفروضہ بھی غلط ہے کہ رجم کا حکم اخبار آحاد سے ثابت ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رجم کا حکم پچاس سے زیادہ صحابہ سے مروی ہے اور یہ احادیث معناً اخبار متواترہ ہیں جیسا کہ ہم انشاء اللہ اس پر تفصیلا گفتگو کریں گے اور اخیر میں ہم منکرین سنت کے مشہور اور اہم اعتراضات کے جوابات ذکر کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق و بہ الاستعانۃ یلیق۔

قرآن مجید سے رجم کا ثبوت

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
………(المائدۃ: ٤٣ )
اور وہ کیسے آپ کو منصف بنائیں گے حالانکہ انکے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے !

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث نمبر ٤٣٢٥ میں ہے) یہود زنا کرنے والوں سے یہ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو اگر وہ منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کا حکم دیں تو اس پر عمل کرنا اور اگر رجم کا حکم دیں تو ان سے دور رہنا۔ علامہ ابن کثیر نے ان آیات کے شانِ نزول میں لکھا ہے کہ سنن ابو دائود میں ہے حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مرد اور ایک عورت کا مقدمہ لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا، آپ نے فرمایا تم اپنے مذہب کے دو سب سے بڑے عالموں کا لائو وہ صوریا کے دو بیٹوں کو لائے آپ نے ان کو قسم دے کر پوچھا ان زنا کرنے والوں کا حکم تورات میں کیا لکھا ہے ؟ انہوں نے کہا تورات میں ہے کہ جب چار آدمی یہ گواہی دیں کہ انہوں نے ان کو اس طرح زنا کرتے دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں جاتی ہے تو ان کو رجم کردیا جائے، آپ نے فرمایا تم ان کو رجم کیوں نہیں کرتے ؟ انہوں نے کہا ہماری حکومت چلی گئی اور ہم قتل کو ناپسند کرتے ہیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گواہوں کو بلایا اور چار آدمیوں نے آکر یہ گواہی دی کہ انہون نے اس طرح دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں ہوتی ہے، تب رسول اللہ و نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تورات کے حکم کے مطابق انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٢٩۔ ٢٨، دار الفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)
امام رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
………(تفسیر کبیر ج ٤ ص ٣٦٢ )

اس آیت میں حکم اللہ سے مراد بالخصوص رجم ہے کیونکہ یہودیوں نے رخصت حاصل کرنے کے لئے آپ کو حکم بنایا تھا۔

قرآن مجید اور احادیث میں جو یہ ذکر ہے کہ تورات میں حکم اللہ یعنی رجم موجود ہو، اس کی تفصیل تورات میں حسب ذیل ہے :
پر اگر یہ بات سچ ہو کہ لڑکی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے گئے ۔ تو وہ اس لرکی کو اس کے باپ کے گھر کے دروازہ پر نکال لائیں اور اس کیشہر کے لوگ اسے سنگسار کریں کہ وہ مر جائے کیونکہ اس نے اسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر میں فاحشہ پن کیا۔ یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا (استثناء : ٢٢۔ ٢١ )

اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہوگئی اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پاکر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کردینا کہ وہ مرجائیں لڑکی کو اس لئے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لئے کہ اس نے اپنی ہمسایہ کی بیوی کو بے حرمت کیا۔ یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا (استثناء : ٢٤۔ ٢٣ )

یہ قرآن مجید کا عجاز ہے کہ تورات میں آج تک یہ آیت موجود ہے حالانکہ ہر دور میں تورات میں تحریف ہوتی رہی، بلکہ قدرتِ خداوندی دیکھئے کہ یہ آیت انجیل میں بھی موجود ہے، یوحنا کی انجیل میں ہے :
اور فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی اور اسے بیچ میں کھڑا کرکے یسوع سے کہا اسے استاد ! یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے۔ توریت میں موسیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں۔ پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے ؟ انہوں نے اسے آزمانے کے لئے یہ کہا تاکہ اس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا جب وہ اس سے سوال کرتے ہی رہے تو اس نے سیدھے ہو کر ان سے کہا کہ جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اس کو پتھر مارے (یوحنا : باب ٨ آیت : ٨۔ ٣)

تورات اور انجیل کے ان اقتباسات سے یہ واضح ہوگیا کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا حکم پچھلی آسمانی کتابوں میں موجود تھا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اس وقت (نزولِ قرآن کے وقت) کی موجودہ کتابوں کا جو مصدق قرار دیا ہے وہ اسی حکم کے اعتبار سے ہے اور اللہ کی قدرت ہے کہ ہزار ہا تحریفات کے باوجود رجم کا یہ حکم تورات اور انجیل میں آج بھی موجود ہے۔

رسول اللہ و نے دو زانی یہودیوں کے متعلق جو رجم کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے متعلق سورۂ مائدہ میں جو آیات نازل ہوئی تھیں، اسی سیاق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
………(المائدہ : ٤٨ )
ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب آپ پر نازل کی ہے اور آنحالیکہ یہ ان آسمانی کتابوں کی مصدق اور نگہبان ہے جو اس کے سامنے ہیں سو آپ ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ کیجئے اور جو حق کے پاس آیا ہے، اس سے دور ہو کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آسمانی کتابیں تورات اور انجیل موجود تھیں اور خود قرآن مجید ناطق اور شاہد ہے کہ ان کتابوں میں تحریف کی جاچکی ہے، ان کے باوجود قرآن مجید فرماتا ہے کہ قرآن کا مصدق اور نگہبان ہے اور جس چیز کا قرآن مجید مصدق ہے وہ رجم کا حکم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم اللہ قرار دیا ہے اور اسی کا قرآن مجید نگہبان ہے اور یہ وجہ ہے کہ آئے دن کی تحریفات کے باوجود تورات اور انجیل میں رجم کا حکم آج بھی موجود ہے اور یہ قرآن مجید کا معجزہ اور اس کی صداقت کی زبردست دلیل ہے۔

رجم کی منسوخ التلاوت آیت

اما بہیقی متوفی ٤٥٨ ھ روایت کرتے ہیں :
زربن حبیش کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب (رض) نے فرمایا تم سورۃ احزاب میں کتنی آیات شمار کرتے ہو ؟ میں نے کہا : تہتر (٧٣) آیتیں ! حالانکہ ہم دیکھتے تھے کہ یہ سورۃ، سورۃ البقرہ کے برابر تھی اور اسمیں یہ آیت تھی (ترجمہ) جب بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت زنا کرے تو ان کو ضرور رجم کردو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے اور اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے۔
” سورۃ احزاب ابتادء سورۃ البقرہ کے برابر تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد میں اس کی بعض آیات کی تلاوت منسوخ کردیا گیا، قرآن مجید میں ہے :

جس آیت کو ہم منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو ان سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آتے ہیں۔

جیسا کہ آیت رجم کو منسوخ کردیا گیا، بعض علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ اس سورت میں قرآن مجید کی آیات کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام تفسیر بھی لکھ لیتے تھے جس کو بعد میں حذف کردیا۔
نیز امام بہیقی روایت کرتے ہیں :

کثیر بن صلت کہتے ہیں کہ ہم مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہم میں حضرت زید بن ثابت (رض) بھی تشریف فرما تھے، حضرت زید نے کہا، یہ آیت ہم پڑھتے تھے جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو ان کو ضرور رجم کرو، مروان نے کہا ہم اس آیات کو قرآن مجید میں کیوں نہ داخلکریں ؟ حضرت زید نے فرمایا نہیں ! کیا تم نہیں دیکھتے کہ شادی شدہ جوان آدمیوں کو بھی رجم کیا جاتا ہے۔ حضرت زید نے کہا کہ صحابہ اس پر بحث کر رہے تھے اور اس وقت ہم میں حضرت عمر بن الخطاب بھی تھے۔ انہوں نے کہا اس مسئلہ میں میں تمہاری تسلی کروں گا اور کہا کہ میں نبی و کے پاس جا کر اس کا ذکر کروں گا اور جب آپ رجم کا ذکر کریں گے تو میں کہوں گا یا رسول اللہ ! آیر رجم لکھوا دیجئے حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا، جب آپ نے آیت رجم کا ذکر کیا تو میں نے کہا یا رسول اللہ ! آیت رجم لکھوا دیجئے آپ نے فرمایا مجھے اس کا اختیار نہیں ہے۔ امام بہیقی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اور اس سے پہلی حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ آیت رجم کا حکم ثابت ہے اور اس کی تلاوت منسوخ ہے اور میرے علم کے مطابق اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ (سنن کبریٰ ج ٨ ص ٢١١، ملتان)
Syed Imaad
About the Author: Syed Imaad Read More Articles by Syed Imaad: 144 Articles with 344741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.