بات تو معمولی سی ہے اور انہوں نے کرلی
معذرت بھی ہے۔ایک طویل عرصہ کے بعد بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں اس
دوسرے کے مقابل تھیں۔ بظاہر تو یہ ایک میچ تھا لیکن پاکستان کی ٹیم کے لیے
یہ ایک ’موقع‘ تھااپنی پے در پے شکست کا بدلہ لینے کا لیکن کیا کریں کہ جب
جذبہ ہی ہار جائے تو میچ کیا، کچھ بھی نہیں جیتا جاسکتا۔
ایک طویل عرصہ کے بعدT20کرکٹ ورلڈ کپ کا میچ پاکستان اور بھارت کے درمیان
کھیلا جانا تھا۔ جس کی تیاریاں زور وشور سے جاری تھیں۔ یہ ایک میچ ہی نہیں
بلکہ ایک جنگ تھی جسے کرکٹ کے میچ میں کھیلا جانا تھا۔ دونوں ہی طرف عوام
کے جذبات عروج پر تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کھیل جذبات سے نہیں بلکہ
اپنی صلاحیتوں سے جیتے جاتے ہیں لیکن جذبات کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں
کیاجاسکتا۔
1965ءکی جنگ ہم نے اسی جذبہ کے تحت جیتی جب ہمارے پاس جنگ کے لیے سامان بھی
ناکافی تھا۔پی ٹی وی پر جس طرح عین موقع پر ملی نغمے لکھے ،پڑھے اور گائے
گئے وہ آج بھی عوام کے جذبات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف 1971ءکی جنگ
ہے جس میں ہم باوجود تعداد میں اکثریت کے میدان جنگ میں ہار گئے۔
کھیل کے میدان میں اسی جذبہ کو مہمیز دینے کے لیے قومی ترانہ پڑھا
جاتاہے۔اس ورلڈکپ کے لیے پاکستان کی طرف سے شفقت امانت علی کو یہ اعزاز
سونپا گیا اور دوسری طرف بھارت نے امیتھابھ بچن کو یہ اعزاز دیا کہ وہ
میدان میں آئیں اور قومی ترانہ پڑھیں۔
اگر آپ نے یہ تقریب دیکھی اور سنی ہو تو یقینا آپ نے بھی یہ بات محسوس کی
ہوگی کہ کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔ جس جذبہ اور انداز میں
پاکستان کا قومی ترانہ شفقت امانت علی نے پیش کیا شاید اس سے کئی گنا بہتر
ہمارے وطن کا کوئی بھی بچہ اسے جذبہ کے پڑھ سکتا تھا۔جذبہ اگر دل میں ہو تو
چہرے پر بھی صاف دکھائی دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ آپ
نے جس بھونڈے انداز میں قومی ترانہ پڑھا، پھر اس میں بھی الفاظ کی ادائیگی
اس طرح سے کی جیسے کسی اور زبان کا قومی ترانہ پڑھنے کے لیے بلا لیا گیا ہو۔
دوسری طرف امیتابھ بچن کا جذبہ دیکھیں جنہوں نے قومی ترانہ پڑھنے کے لیے
کلکتہ سے یہاں آنے تک کا سفری خرچ و رہائش 30لاکھ روپیہ نہ صرف خود برداشت
کیا بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ انہوں نے 4کروڑ روپیہ بھی قومی ترانہ پڑھنے
کے اعزاز کے طور پر ادا کیا۔ پھر ان کے پڑھنے کا انداز دیکھیں کہ الفاظ
زبان سے نہیں بلکہ دل سے ادا ہو رہے تھے۔
اس تقریب کے بعد جذبہ تو ہار چکا تھاپھر میچ ہارنے کا کیا غم کریں۔ شفقت
امانت علی نے سوشل میڈیا پراس بات پر معذرت بھی کرلی لیکن مجھے یہ بات سمجھ
نہیں آتی کہ معذرت کس کس بات پر قبول کی جائے۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ جیسے
کوئی اپنی ماں کا نام بھی بھول جائے۔ جس قومی ترانہ کوپڑھتے اور سنتے ہوئے
ہم جوان ہوئے ، جو اسکول کی اسمبلیوں میں روز پڑھا جاتا رہا، اسے ہی ہم
بھول گئے۔
لیکن کیا کریں جب وطن کی عزت پر پیسہ حاوی آجائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کتنے
بے ضمیر پاکستانی ہیں جنہوں نے ملک کی شہریت پر دوسرے ملکوں کی شہریت کو
ترجےح دے رکھی ہے۔ کتنے بے ضمیر ایسے ہیں جو بھارت جا کر اپنی ماں کی محبت
اور پیار کو بھول جاتے ہیں اور انہیں وہاں کی محبت اپنی ماں سے بھی زیادہ
محسوس ہونے لگتی ہے۔ کتنے بے ضمیر ہیں جنہوں نے بھارت سے مدد کے لیے پکار
کر اپنی ماں کی عزت بیچی ہے۔ ہمارے فنکار روز بھارت یاترا کے لیے بے چین
دکھائی دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کل وہ ہمارا ٹی وی دیکھتے تھے اور آج ہم ان
کا دیکھ رہے ہیں۔
بھارت کی ثقافت اور کلچر ہمارے قوم کے جذبہ کو سرد کرچکا ہے لیکن میں ابھی
بھی اپنی قوم سے مایوس نہیں کہ یہاں آج بھی جنید جمشید جیسے لوگ موجود ہیں
کہ جن کے دل سے ’دل دل پاکستان‘ نکلتا ہے۔ کیا ہوا جو ایم ایم عالم جیسے
لوگ اس دنیا سے رخصت ہوگئے جنہوں نے بنگالی ہونے کے باوجود زبان پر نظریہ
کو ترجیح دی اور پاکستان میں رہنا پسند کیا۔ کیا ہوا جو مہندی حسن جیسے’
شہنشاہ جذبات ‘ اس دنیا سے رخصت ہوگئے جنہوں نے باوجود بھارت کی مالی پیشکش
کے اپنی ماں’ پاکستان ‘کی گود میں مرنا پسند کیا لیکن علاج کے لیے بھارت
نہیں گئے۔
یہ شاید آپ کے لیے معمولی بات ہوگی لیکن یاد رکھیں جو قومیں اپنا قومی
ترانہ بھول جائیں انہیں عوام تو شاید معاف بھی کردے اور بھول جائے لیکن
تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی اور اگرہم نے جذبہ کو بیدار نہیں کیا تو ہم دشمن
سے اسی طرح ہر میدان میں ہارتے رہیں گے۔ |