چھٹے آئی سی سی ورلڈ کپ کا ٹی 20سپر ٹین
مرحلے اوردنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا اعصاب شکن مقابلہ دوروایتی حریف پاکستان
اور ہندوستان کے مابین ایڈن گارڈن کو لکتہ گروانڈ میں لاکھوں تماشیوں ا ور
پوری دنیا میں بسنے والے کروڑوں کرکٹ کہ پرستاروں نے ٹی وی پر
دیکھاہندوستان میں اس کرکٹ گروانڈ کی تاریخ کہ مطابق بھارت کو اس سے پہلے
ہمیشہ ہی اس گروانڈ میں پاکستان سے شکست کا سامنا رہا لیکن اب کی بار اس
مفروضے کو غلط ثابت کرتے ہوے کہ یہ پچ،گروانڈ کبھی ہندوستان کے لیے ساز گار
نہیں رہا اور ہارنے کی روایت کو توڑتے ہوے جیت کا سہر ااپنے اور پوری
ہندوستانی قوم کے سر سجایا ،پاکستانی تجربہ کار کوچ اور کپتان کی ناقض حکمت
عملی ،اسپین بولر ز کا نہ ہونا،فلاپ بیٹنگ اورہارنے کہ خوف کا بھرپورفاہد ہ
اٹھاتے ہوئے دھونی الیون نے 6وکٹوں سے نہ صرف بڑی کامیابی حاصل کی بلکہ
فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پرامید بنیاد مہیا کر کہ ورلڈ کپ میں
واپسی کہ سفر پر گامزن ہو گیا اسپنیرز کی جانب سے بہترین بولنگ ،بہترین
فیلڈنگ ،کوہلی ،یوراج سنگھ کی عمدہ اورذمہ دارانہ بیٹنگ ،دھونی کی بے مثال
کپتانی کی بدولت فتح سے ہمکنار ہوئی ابھی ایشا کپ میں ہار کے زخم ہرے نہیں
ہوے کہ اک اور شکست کا منہ دیکھنا پڑااس کہ برعکس پاکستان کہ شاہنوں نے جن
سے پوری قوم اورکرکٹ کہ دیوانوں کو اک امید تھی ،آس تھی ،اک جوش جذبہِ جیت
تھا کہ اب کی بار پاکستان ہارنے کی روایات کو توڑ ڈھالے گا اورشکست
ہندوستان اور ہندوستانی انتہا پسندوں کی ہی ہو گی لیکن پھرروایت کو برقرار
کرتے ہوئے اور’’میں نہ مانوں’’، میں نہ جیتوں گا ’’کی پالیسی کو اپناتے
ہوئے ہمیشہ کی طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا،اور کرڑوں شائقین کرکٹ کو سوائے
مایوسی ،افراتفری ،توڑ پھوڑ کہ پاکستانی ٹیم کچھ نہ دے سکی۔البتہ مردوں کی
کرکٹ ٹیم سے بہتر اور ذمہ دار پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کلکتہ کے میدان
میں ڈٹ گئی اورہندوستانی ٹیم کو ناکوں چنے چبائے پاکستانی قوم کو فتح کی
نوید کے ساتھ ساتھ حققوق نسواں کے علمبرداروں کوخبردار کیا کہ پاکستان کی
خواتین کسی بھی شعبے میں مردوں سے کم نہیں ہیں اوران کے شانہ بشانہ چلنے کی
بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
ون ڈے میں آٹھویں نمبراور ٹوٹئٹی میں ساتویں پویشن پر براجمان پاکستان ٹیم
ریت کی دیوار ثابت ہوئی اگرچہ محمد عامر اور محمد سمیع نے کچھ مزاحمت کی
اور پاکستانی شائقین کو ڈھارس باندھئی اور ابتدائی پلییر ز کو پولین کی جلد
ہی راہ دکھائی لیکن بعد میں آنے والے انڈین بیٹسمین درد سر بن کے رہ گے اور
اپنی ٹیم کے لیے جیت کی راہ ہمراہ کی۔پاکستانی کرکٹ کی یہ بد قسمتی رہی ہے
کہ بورڈ اورٹیم دونوں میں ہی سفارشی کلچر پروان چڑھتا رہا ہے اور قوم کو
صرف مایوسی کا سامنا کرنا پڑاشرجیل خان جیسے پلیر جن کو صرف پاکستان
پریمیئر لیگ میں صرف ایک میچ میں سنچری سکو ر کرنے کی وجہ سے شامل کیا گیا
تھا کی ایشاء کپ سے لیکر ورلڈ کپ تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں
آتی،کوچ اور کپتان آفرید ی کی جن کو اب کرکٹ چھوڑ کر اپنے بزنس جو
لاہو،کراچی ،پشاور کے اندر ریسٹورنٹس ہیں کی طرف توجہ دے کی غلط حکمت علمی
نے اوپنر پروفیسرمحمد حفیظ کی پروفیسری کی بجائے اپنی کاری گری کرتے ہوئے
6نمبر پر کھیلانااور دوسری جانب قومی ترانے گانے کی ذمہ داری ایسے شخص کو
پی سی بی کی جانب سے سونپی گئی جہنوں نے گانے کے دوان قومی ترانہ کہ الفاظ
جذبات سے عاری اور اور چہرے پہ غیر یقینی کی کیفیت میں ا دا کیے جو سراسر
قومی ترانہ اور پاکستان کہ عوام کے ساتھ نا انصافی ہے کرکٹ بوورڈ کو اس
معاملہ میں ان کی باز پرس کرنی چاہیے کہ دشمن ملک میں ایسی حرکت ناقابل
برداشت ہوتی ہے جب پوری دنیا آپ کو مانیٹر کر رہی ہو ایسے فیصلے تو سٹریٹ
کرکٹ کھیلنے والے بھی نہیں کرتے جوایڈن گارڈن میں دیکھنے کو ملے اتنے بڑے
ایونٹ خصوصا پاک بھارت جو صرف کھیل ہی نہیں بلکہ سمجھنے والوں کہ لیے دو
قوموں کے درمیان مقابلہ کی جنگ ،جیت کی جنگ ،ریاست کے دفاع کی جنگ، اتحاد
واتفاق کے عظیم جذبے کی جنگ ہوتی ہے جو پوری قوم کو اگھٹا کرتاہے کوئی مسلک
،مذہب درمیان میں حائل نہیں ہوتا سب ایک ہی پیچ پہ جمع ہوتے ہیں۔اگر کرکٹ
میں غلط پالیسوں ،سفارش،سیاست،اور میر ٹ کی پامالی کا سلسلہ اسی طرح جاری
رہاتو پاکستان کرکٹ کا اﷲ ہی حافظ ہو گا،پاکستان میں پہلے ہی کرکٹ دہشت
گرددی کے ناسور کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ،کوئی انٹر نیشل ٹیم کھیلنے کے
لیے تیار ہی نہیں ایسے میں ٹیم اگر باہر جا کر جہاں کھیلتی ہے وہ بہتریں
سپورٹس مین کے طو پر اپنا امیج ہی برقرار نہیں رکھ پا رہی وہ انٹر نیشل
کرکٹ کی بحالی کے لیے کیا کر سکے گی۔پاکستان پریمیئر لیگ کا اگرچہ کامیاب
انعقاد ہوا لیکن بدقسمتی سے سوائے محمد نواز کے کوئی نیا ٹیلنٹ متعارف نہ
ہو سکا کافی ٹائم سے پاکستان میں کوئی نیا چہرہ ،نیا ٹیلنٹ نہیں آسکا،اس کی
یہ وجہ نہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے بلکہ ہمارے سربراہان ،ہمارے
نمائندے جو قوم کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں اوراختیارات والے اداروں کی عدم
دلچسپی ،اقروباپروری ،سفارش اور بد دیانتی کے ہتھکنڈوں کو استعما ل کرتے
ہوے کرکٹ کا جنازہ نکال رہے ہیں کو چاہیے کہ اہل قابل اور کرکٹ سے واقفیت
والے لوگوں کو بورڈ کی ذمہ داریاں دی جائیں جس کا کام اس کو ساجھے کہ مطابق
کام لیا جائے،پاکستان میں موجودبچھی کچھی کرکٹ کی اکیڈمیزجن کی حالات نا
گفتہ بہ ہے کہ سربراہان کو چاہے کہ تمام چھوٹے بڑے شہروں کا وزٹ کر یں تا
کہ نیا ٹیلنٹ متعارف ہواورکرکٹ ٹیم میں کوئی خاطر خواہ بہتری آ سکے اور
ہماری کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہو سکے،کرکٹررز کے رویوں میں مثبت تبدلی لائی
جائے ،ٹیم میں موجودگروپنگ کی سیاست کو ختم کیا جائے اور ان کو باور کروایا
جائے کہ میدان میں کیے جانے والے فیصلوں سے قوم بنتی بھی ہے اورافرتفری کا
شکار بھی بن جاتی ان کی جیت ہار نہ صرف ان کی ہوتی ہے بلکہ پوری قوم کی
ہوتی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ یونیں کونسل ،سٹی ،ضلع،صوبے لیول پہ
مقابلے کرواے جائیں تاکہ کرکٹ پروموٹ ہوسکے اور ایسے مقابلوں سے میرٹ کی
بنیاد پر نئے کھلاڑی متعارف ہوسکیں،کرکٹ کی بحالی اورمیرٹ کے پرچار کے لیے
میڈیا کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کر نا چاہے اور ایسے عناصر کی بلا خوف
نشاندہی کرے جوکرکٹ بورڈاورٹیم میں اپنے غیر قانونی ہتھکنڈوں کو استعمال کر
تے میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوں،پاکستان میں موجود بزنس مین اور سپاونسر
کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ آگے آئے اورپاکستانی ٹیم کی بہتری کے لیے
اپنا کردار ادا کریں تاکہ کھیل اور کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے
ہوئے پاکستان کا امیج بلند کر سکیں۔پاکستان میں فٹ بال تو ہے نہیں ،ہاکی
تباہی کے دہانے پر ،سکواش بھی ختم اک صرف کرکٹ ہی باقی رہ گئی ہے ا س
کاعلامتی جنازہ تو روز ہی نکلتا ہے اگر ایسی ہی پوزیشن برقرار رہی تو علامت
کی بجائے حقیت میں ہی جنازہ نکل جائے گا۔پاکستان کہ اس یونٹ میں اب صرف دو
میچز ہی باقی ہیں اور دنوں میچز بڑی ٹیموں نیوزی لینڈ جو کہ اپنی دنوں میچز
جیت کرکوالیفائنگ روانڈ میں پہنچ چکی ہے ،دوسری آسڑیلیا ان کہ خلاف اچھی
کارگردگی دیکھائے تاکہ جیت پاکستان اور پاکستانی قوم کا مقدر بنے۔ |