برطانیہ: ممبران پارلیمنٹ پبلک بس میں سفر کریں گے

ہمارے ملک میں جب بھی بجٹ آنے لگتا ہے تو عوام کے دلوں کی دھڑکن بے قابو ہونے لگتی ہے، ان کو وسوسوں کے ناگ ڈسنے لگتے ہیں کہ پتہ نہیں اس بجٹ میں ہمارے اوپر کیا بجلی گرائی جائے گی۔ ہر حکومت اپنے پیش کئے ہوئے بجٹ کو عوام دوست کہتی ہے۔ (ویسے وہ بھی درست ہی کہتی ہے کیوں کہ اربوں پتی لوگوں کے لئے لکھ پتی لوگ بھی عوام ہوتے ہیں اور ہر بجٹ لکھ پتی لوگ ہی برداشت کرپاتے ہیں آٹھ دس ہزار روپے ماہانہ کمانے والے تو بجٹ کے نام سے ہی دہل جاتے ہیں) پچھلے سال میں ایک بجٹ آتا تھا پھر میاں نواز شریف صاحب کے دور میں منی بجٹ کی بدعت شروع ہوئی اور سال میں دو بجٹ آنے لگے لیکن اب سال میں بارہ مہینے بجٹ آتا ہے، ہر پندرہ دن بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں۔ سال کے کسی بھی مہینے میں کوئی بھی نیا ٹیکس لگا دیا جاتا ہے اور ستم تو یہ ہے کہ اگر کسی ٹیکس کا اعلان یکم مئی 2010 کو کیا جاتا یے تو اس کو نافذ العمل جنوری 2010 سے کیا جاتا ہے اور گزشتہ مہینوں پر بھی ٹیکس لاگوں کر کے اس کو واجبات میں ظاہر کر کے عوام کی جیب سے وہ رقم بھی لوٹی جاتی ہے۔
ہماری ہر حکومت ہر سال بجٹ کے موقع پر دو کام بڑے خشوع و خضوع سے سر انجام دیتی ہے ایک عوام پر نئے ٹیکس لگانا اور ان کو کسی بھی چیز پر حاصل برائے نام سبسڈی کو بجٹ خسارے کے نام پر ختم کرنا اور دوسرا منتخب نمائندوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا اور وہ جو برائے نام ٹیکس وغیرہ ادا کرتے ہیں ان میں چھوٹ دینا یا ارکان اسمبلی کو ان سے مستثنیٰ قرار دینا۔

ایک بار پھر بجٹ آرہا ہے اور عوام ایک بار پھر منتظر ہیں کہ دیکھیں اس دفعہ ہمارے اوپر کونسی بجلی گرائی جاتی ہے۔ قارئین ہمارے حکمران ہمیں مختلف ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں ملک میں مہنگائی ہم سے زیادہ ہے۔ فلاں ملک میں بجلی ہم سے زیادہ مہنگی ہے۔ فلاں ملک میں بیروزگاری ہم سے زیادہ ہے۔ اس طریقے سے حکمران طبقہ عوام پر یہ احسان جتلاتا ہے کہ میاں شکر کرو اگر ہم بھی فلاں فلاں ملک کی طرح مہنگائی کردیں تو تم کہیں کے نہ رہو گے۔ آج ہم بھی ایک گستاخی کرتے ہوئے حکمرانوں کو بھی ایک دوسرے ملک کی مثال پیش کرتے ہیں اور یہ ملک ہمارے لیے کوئی اجنبی ملک نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا سابق آقا برطانیہ ہے (ہمارا تو یہ سابق آقا ہے لیکن مقتدر طبقہ کا آقا ہمیشہ یہ مغربی ملک ہی رہے ہیں ) برطانیہ میں حالیہ عام انتخابات کے بعد ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی اور اس مخلوط حکومت نے رواں ماہ اپنا بجٹ پیش کیا ہے۔ اور اس بجٹ میں انہوں نے کئی ایسے اقدامات کئے ہیں جن کو انقلابی کہا جاسکتا ہے اور ہمارے حکمرانوں کے لئے یہ ایک آئینہ ہے وہ اس میں اپنا چہرہ دیکھ لیں کی عوامی حکومت اور حقیقی جمہوریت کیا ہوتی ہے۔؟

سب سے پہلی بات کہ وہاں وزیر اعظم کی سیکورٹی کے لئے کوئی لمبا چوڑا قافلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وزیر اعظم صاحب کے کہیں سے گزرنے کے لئے گھنٹوں پہلے سڑکیں بند کردی جاتی ہیں بلکہ وہاں وزیر اعظم کے پروٹوکول کے لئے تین موٹر سائیکلیں ہوتی ہیں ایک موٹر سائیکل ان کی گاڑی کے آگے جاری ہوتی ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وزراعظم کی گاڑی کے راستے کو کلیئیر کرنا تاکہ وزیر اعظم کی گاڑی کا کہیں ایکسیڈنٹ نہ ہوجائے اور دو موٹر سائیکلیں انکی گاڑی کے دائیں بائیں چلتی ہیں تاکہ دیگر گاڑیاں وزیر اعظم کی گاڑی سے نہ ٹکرا جائیں۔ ان موٹر سائیکلوں پر کوئی کمانڈو وغیرہ نہیں ہوتے بلکہ فقط ایک ٹریفک پولیس کا افسر ہوتا ہے جو کہ بائسیکل چلا رہا ہوتا ہے اور بس یہ ہوتا ہے وہاں وزیر اعظم کا پروٹوکول۔

اب بات کرتے ہیں وہاں کے بجٹ کی! وہاں کی نو منتخب حکومت نے جو نیا بجٹ پیش کیا ہے اس کی جھلک ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ وہاں کی وزارت خزانہ نے ملک کے خسارے کو کم کرنے کے لئے نئے ٹیکسز کے بجائے بجٹ میں چھے ارب پونڈ کی کٹوتیاں کیں ہیں اور یہ کٹوتیاں بھی عوامی سہولیات یا سبسڈی کو ختم کرنے کے بجائے زیادہ تر حکومتی مشیروں اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کر کے کی ہے۔ ان کی بجٹ کٹوتیوں کے مطابق اب وزارء کو کاریں اور ڈرائیور رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ وزارء کو جہاں جانا ہوگا وہ اس کے لئے پبلک بس میں سفر کریں یا پیدل جائیں۔ اسی طرح وزرا کو فضائی سفر کی صورت میں فرسٹ کلاس کے بجائے اکانومی کلاس میں سفر کرنا ہوگا اس سے وہاں کے بجٹ میں پیتالیس ملین پونڈ کی بچت ہوگی۔ جبکہ سرکاری ملازموں سے کہا گیا ہے کہ وہ فضائی سفر سے گریز کریں تاکہ ملکی خزانے پر بوجھ کم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ضروری سرکاری بھرتیوں کو روک کر بجٹ میں سات سو ملین پونڈ کی بچت کی جائے گی۔

یہ تو بجٹ کی بات تھی اس کے اگلے روز ملکہ برطانیہ نے بھی ایک اصلاحاتی بل پیش کیا ہے جس کو پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کیا جائے گا انہوں نے بائیس اصلاحات پیش کی ہیں جن میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کریں گے۔ ملکہ برطانیہ کی پیش کردہ اصلاحات کے مطابق بیورو کریسی کے غیر ضروری اخراجات میں کمی کر کے سالانہ ایک ارب پونڈ کی بچت کی جائے، جبکہ ایک اہم تجویز یہ پیش کی گئی ہے کہ وزیر بننے کے لئے ڈالے گئے ووٹوں کا پچاس فیصد حاصل کرنا لازمی ہے اس کے بغیر کوئی رکن پارلیمنٹ وزیر نہیں بن سکے گا۔ جبکہ یہ تجویز بھی پیش کی گئی پے کہ ووٹروں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی سنگین غلطی پر اپنے وزیر یا رکن پارلیمنٹ کو ہٹا سکیں اور اس کے لئے سادہ سے طریقہ کار یہ ہے کہ کسی بھی حلقے کے دس فیصد ووٹر اگر ایک پیٹیشن پر دستخط کر کے اس ممبر پر اظہار عدم اعتماد کریں تو اس ممبر کی رکینت ختم کر کے وہاں ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے یعنی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا اگر اچھی کارکردگی نہ دکھائے تو اس ممبر کو عوام خود ہی برطرف کرسکیں گے۔

قارئین کرام یہ ایک جھلک تھی کہ اچھی جمہوریت اور عوامی حکومت کیا ہوتی ہے۔ اچھی جمہوریت اور عوامی حکومت میں ہمیشہ عوام کی بھلائی کی بات کی جاتی ہے نہ کہ عوام سے تن سے کپڑا اور منہ سے نوالہ چھینا جاتا ہے۔ برطانیہ کے بجٹ اور وہاں کی اصلاحات کو سامنے رکھیں تو ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہم مغربی معاشرے کی ہر برائی، ہر خرابی کو تو فوراً اپنا لیتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں وہاں کی اچھی چیزوں کو اپناتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کو خوف آتا ہے۔ ہمارے ملک کا وزیر اعظم تو دور کی بات ہے ایک عام وزیر یا رکن پارلیمنٹ بھی کم از کم آٹھ دس گاڑیوں کے قافلے کے بغیر سفر نہیں کرتا، اور صدر اور وزیر اعظم کے پروٹوکول کے لئے پچاس سے ستر گاڑیاں مختص ہوتی ہیں اور ان سب چیزوں کے اخراجات عوام سے وصول کیئے جاتے ہیں۔ حکمران اپنی عیاشی کے لئے غیر ملکی بینکوں اور دیگر ممالک سے قرض لیتے ہیں اور ان قرضوں کی ادائیگی عوام کو ٹیکسوں کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ گزشتہ پندرہ سالوں میں صرف دو دفعہ ایسا ہوا ہے حکمرانوں نے اپنے اخراجات کو کنٹرول کیا ہے۔ ایک دفعہ اس وقت جب ملک معراج صاحب عبوری وزیر اعظم بنے اور انہوں نے اپنا یہ دور انتہائی سادگی کے ساتھ مکمل کیا اور دوسری بار اس وقت جب ٢٠٠٢ میں صوبہ خیبر پختونخواہ اور اس وقت صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اپنے بجٹ میں وزراء کی تنخواہوں میں دو ہزار ماہانہ کی کمی کا اعلان کیا اور سب سے پہلے سینئر وزیر سراج الحق نے اپنی تنخواہ میں چار ہزار کی کمی کا اعلان کیا اور اس کے بعد تمام ممبران کی تنخواہ میں دو ہزار روپے ماہانہ کی کمی کا اعلان کیا گیا۔ اس کے علاوہ کوئی ایسی مثال ہمیں نہیں ملتی کہ ممبران نے اپنی مراعات کو کم کیا ہو یا اپنی تنخواہ کو کم کیا ہو۔ اب ایک بار پھر بجٹ کی آمد آمد ہے اور دیکھنا ہے کہ اس بار عوام پر کیا بجلی گرائی جاتی ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520433 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More