سنئیر صحافی اکثر جونئیر صحافیوں اور
پولیس صحافتی تقریبات میں ایک فقرہ ضرور کہتے ہیں کہ پولیس اور صحافی کا
آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ چولی کس کی ہے اور
دامن کس کا ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم
ہیں دونون ہاتھ ملا کر چلیں تو ہر کس کا جرم ختم ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ اس
طرح کی کئی مثالیں زد عام ہیں جن کا حقیقت سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے
پولیس نے کبھی بھی صحافی کو اپنا دوست اور چولی ،دامن نہیں سمجھا بعض ایس
ایچ او صحافی کوہمیشہ نظر کی عینک سے دیکھ کر دور رکھنے کی کوشش کی اور جب
جب کسی صحافی نے سچ لکھا وہاں ،وہاں ،وہاں ،چند ایک چھوڑ کر اکثریتی پولیس
اسکی مخالف نظر آئی ۔محکمہ پولیس کی ٹرینگ ہے یا حاکمیت اور اختیارات کا
نشہ چڑھ جاتا ہے اکثریتی ایس ایچ اوز جہاں تعینات ہوتے ہیں خود کو اس تھانہ
کی حدود کا بے تاج اور بے لگام بادشاہ سمجھنے لگتے ہیں غرور سے اکڑی گردن
کو جھکانا،منہ سے نکلی بات کا پورا نہ ہونااپنی توہین سمجھتے ہیں اور اگر
انکی سوچ اور خیالات کی نفی ہو جائے تو قاعدہ اور قانون بھول جانے میں ایک
منٹ بھی ضائع نہیں کرتے۔ اکثریتی ایس ایچ اوز کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے
علاقہ کے صحافی اپنی قلم کو بند کر کے ،آنکھوں پر پٹی باندھ کرخاموشی کی
چادر اوڑھ کے کانوں میں روئی دیکر لمبی اور گہری نیند سو جائیں ،کسی قسم کا
کرائم شائع نہ ہو خصوصا ڈکیتی،پولیس گردی،تھانوں میں چلنے والی سرعام
رشوت،لتر پولا،اور وڈیروں کے ظلم و ستم کی خبریں نہ لگائی جائیں اگر قلم
لکھے تو ان کے قصیدے بیان ہوں صحافی تھانے آئے تو دو بوتل پکڑی گئی شراب کو
چالو بھٹیاں لکھے،بکری برآمد ہو تو اونٹ بنا کر شائع کرے انکار کی صورت میں
پہلا انعام بلیک میلر،جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے والا،قبضہ مافیاء
کا سرغنہ،منشیات فروشوں سے بھتہ لینے والا سمیت نجانے کن کن القابات سے
نوازا جاتا ہے جو اس صحافی بیچارے کے باپ ،دادا نے بھی نہیں سنے ہوتے ہیں
۔اگر صحافی کسی وڈیرے،با اثر سیاسی شخصیت،ان کے چمچوں ،کڑچھوں ،کے مظالم
اور پولیس کی روایتی بے حسی اور مظلوم کو انصاف نہ دینے کے حوالے سے حقائق
بیان کر دے تو دونوں مل کر صحافی بھائی کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں اور پھر
ان کی طرف سے جھوٹی درخواستیں ،جھوٹے گواہ سامنے آنے لگتے ہیں اور پولیس
،ڈکیتی،دہشت گردی،زنا بالجبر،گینگ ریپ،سمیت سنگین نوعیت کی دفعات کے مقدمات
کا اندراج کر کے حقائق لکھنے کا سبق سکھانا شروع کر دیتی ہے اور جھوٹی
کمپین چلا کر بڑے افسران کو من گھڑت کہانیاں سنا کر جلتی پر تیل کا کام
کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہمنوا بناتے جاتے ہیں کیونکہ صحافی
جس ایس ایچ او یا اہلکاروں کے خلاف حقائق لکھ رہا ہوتا ہے افسران انہیں سے
ان الزامات کی تصدیق اور رپورٹ مانگ کر مزید شہ دے دیتے ہیں اور شہ ملتے ہی
،ایسی پولیس ،اخلاق،انسانیت،چادر اور چار دیواری تقدس کو بھول کر صحافی کے
پیچھے پڑ جاتی ہے اگر جھوٹے مقدمہ میں قلمی مزدور پولیس کے ہتھے چڑھ جائے
تو وحشیانہ تشدد کی انتہاء کر دی جاتی ہے ایسا سب کرنے سے قبل یہ سب بھول
جاتے ہیں کہ صحافت اور صحافی کسی بھی ریاست کا اہم ستون ہوتے ہیں انکی
تذلیل اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ اس علاقہ کے صحافتی گروپس میں سے کوئی نہ
کوئی گروپ پولیس کی آشیر باد حاصل کرنے کے لیے خوشامد کا ڈھول گلے میں
لٹکائے اپنے ہی ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم میں برابر کی شراکت داری کر
رہا ہوتا ہے ان صحافیوں میں پروفیشنل جرنلسٹ کم جبکہ حادثاتی،دولت کے بل
بوتے،اپنے اپنے کاروبار کو بچانے کے لیے صحافتی کارڈ حاصل کرنے والے ،اور
ان پڑھ افرادزیادہ ہوتے ہیں جنکو صحافت کی الف ب بھی نہیں آتی اور نہ ہی
،،پریس،،کے مفہوم کا علم ہوتا ہے خبر لکھنا تو دور کی بات اپنا نام تک
لکھنا نہیں آتاہے ایسے افراد کے ساتھ سے پولیس کا کام اور آسان ہو جاتا ہے
جسکی وجہ سے وہ من مانیان اور ظلم و زیادتیاں کرتے چلے جاتے ہیں گذشتہ دنوں
سے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ہی پولیس گردی کی خبر چل رہی ہے جسمیں ،وڈیرے کا
ظلم عیاں کرنے اور جبری شادی کی نشاندہی کرنے و خبریں شائع کرنے پر
بہاولپور کے شہر خیر پور ٹامیوالی کے سنئیر صحافی محمد اقبال انجم پر ایس
ایچ او ،تھانہ خیر پور ٹامیوالی ،اﷲ یار نے جھوٹا مقدمہ درج کر کے ،وحشیانہ
تشدد کی انتہاء کر کے ایک آنکھ تک ضائع کر دی جس کے خلاف پاکستان جرنلسٹ
ویلفئیر ٹرسٹ نے آواز بلند کی اور پولیس گردی کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے
اور صحافی کو انصاف دلانے کے لیے ،وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور
خادم اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو خط لکھا ہے خط میں صحافیوں کے حقوق کے
علمبردار،علاقائی،صحافیوں کی آواز،مرد آہن،ظلم و زیادتی کے سامنے سیسہ
پلائی دیوار،مرکزی صدر پاکستان جرنلسٹ ویلفئیر ٹرسٹ ،ملک شاہد جاوید نے کہا
ہے کہ مورخہ 19-03-2016کی شام خیر پور ٹامیوالی کے علاقہ بستی چاکری موضع
جندو شاہ میں ایک لڑکی کی شادی اسکی مرضی کے خلاف زبردستی کی جا رہی تھی
معلوم ہونے پر مقامی صحافی ،ٹی وی رپورٹرر محمد اقبال انجم نے اپنی صحافتی
ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ایس ایچ او خیر پور ٹامیوالی کو اطلاح دی اور خبر
نشر کر دی ایس ایچ او اﷲ یار نے چند پولیس ملازمین کو موقع پر بھیجا جنہون
نے شادی والے گھر جا کر روایتی ،کاروائی کرنا چاہی جس پر شادی والے گھر سے
لوگوں نے پولیس اہلکاروں کو ،،پھینٹی،،لگا دی اور شیر جوانوں نے وہاں سے
دوڑ لگاتے ہوئے پیشہ وارانہ فرائض ادا کیے جس پر ایس ایچ او اﷲ یار نے کوئی
نوٹس نہ لیا نہ ہی انکی امداد کے لیے مزید فورس روانہ کی اور نہ ہی جبری
شادی کے بندھن میں بندھنے والی لڑکی کو برآمد کیا گیا بلکہ الٹا صحافی محمد
اقبال انجم کے خلاف جھوٹا ،بے بنیاد،مقدمہ نمبری،75/16درج کر لیا اور
مذکورہ صحافی کو جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کر کے وحشیانہ تشدد کرنے لگے
انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ،وحشیانہ تشدد سے صحافی کی ایک آنکھ مبینہ
طور پر ضائع ہو گئی ہے جو اس دور کی بدترین دہشت گردی،ظلم ،پولیس گردی،اور
آزادی صحافت پر کاری وار ہے ۔ملک شاہد جاوید نے مزید لکھا کہ اس واقع کے
بارے میں ڈی آئی جی ،بہاولپور اور ڈی پی او کو اطلاح کی گئی مگر کوئی
کاروائی نہ ہوئی ہے راقم نے خبر کے حوالے سے مزید معلوم کیا تو پتہ چلا کہ
دراصل کچھ عرصہ قبل اسی علاقے کے با آثر وڈیرے ،چکڑ چوہدری نے ایک غریب گھر
کی جوان لڑکی سے زبردستی کر کے بے آبر و کر دیا تھا ایس ایچ او اﷲ یار
وڈیرے کا نمک حلال کرتے ہوئے انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا تھا حقائق
معلوم ہونے پر محمد اقبال انجم نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے خبر بریک کی تھی
جس پر وڈیرے کو جیل جانا پڑا تھا جسکا رنج بھی تھا مگر ظلم کی انتہاء کہ
صحافی محمد اقبال انجم کو مذکورہ نیوز بریک کرنے پر سرعام وحشیانہ تشدد کا
نشانہ بنانا ،مقدمہ درج کرنا اور وحشیانہ تشدد سے آنکھ کا ضائع کر دینا کسی
کو پولیس کا ظلم نہیں لگ رہا کیسا بے لگام محکمہ ہے جسمیں اکثریت
،کرپٹ،بدعنوان ملازمین کی ہے جو سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر ایس ایچ او شپ
حاصل کرتے ہیں اور اختیارات کے نشہ میں جرائم پیشہ افراد کو نکیل ڈالنے کی
بجائے انکی سر پرستی کرنے لگتے ہیں بعض دولت کی ہوس میں اس قدر گر جاتے ہیں
کہ اپنے اختیارات،منصب،اور محکمانہ وقار سیاسی وڈیروں اور جرائم پیشہ افراد
کی ڈوری ہلانے والوں کے قدموں میں رکھ کر شرفا کی تذلیل اپنا مقصد حیات بنا
لیتے ہیں ۔تھانہ خیر پور ٹامیوالی کا ایس ایچ او اﷲ یار سیفی اس صحافی کا
گناہ کیا بتائے گا یہی کہ اس نے خبریں بریک کی تھیں جس میں پولیس کی کمی
،کوتاہی،غفلت سامنے آتی ہے ۔مقام افسوس ہے کہ بہاولپور کے سنئیر افسران
پولیس نجانے کیوں خاموش بیٹھے ہیں کیا ان کے نزدیک ایس ایچ او کی غنڈہ گردی
ضروری ہے یا انصاف کی فضاء کا قائم ہونا ضروری اتنے دن کی خاموشی صحافی
برادری کو سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ اگر صحافت کو بچانا ہے تو پھر گروپس
کی جنگ چھوڑ کر سب کو آگے بڑھنا ہو گا ورنہ آج محمد اقبال انجم کو پولیس نے
نشانہ عبرت بنایا تو کل آپ اور مجھ میں سے بھی کسی کو بنایا جا سکتا ہے
معذور کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب بھی کسی صحافی نے آئینہ اٹھایا ہے اسے تشدد
کا نشانہ بننا پڑتا ہے ان حالات میں مرکزی صدر پاکستان جرنلسٹ ویلفئیر ٹرسٹ
،ملک شاہد جاوید کا آواز حق بلند کرنا اور محمد اقبال انجم کے لیے شہر شہر
اپنی آواز بلند کرنا وقت کی ضرورت ہے جس پر انہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش
کیا جائے کم ہو گا۔وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور خادم اعلی پنجاب
میاں شہباز شریف کو اب آنکھیں کھولنا ہونگی کیونکہ آپکے دور حکومت میں
صحافیوں کا جینا دو بھر کیا جا رہا ہے صحافی جو اپنے علاقہ کی عوام کی
آواز،زبان،کان،آنکھ،ہوتا ہے جو عوام کی آواز آپ تک پہنچاتا ہے جس سے لوگ
امید رکھتے ہیں کہ اگر سرکاری محکمے ہماری آواز نہیں سن رہے تو یہ ہماری
آواز اعلی ایوانوں تک پہنچائیں گے ۔صحافی برادری جو قدم قدم پر قربانیاں
دیکر ،عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے وقت کے ہر فرعون سے ٹکرا جاتی ہے تمہارے
دور حکومت میں پولیس گردی کا شکار ہے ۔کیا کوئی بتائے گا کہ محمد اقبال
انجم کا گناہ کیا تھا ؟اسکو سزا کس گناہ کی دی گئی اور دی جا رہی ہے ؟کیا
کسی بھی جرم کی نشاندہی کرنا پاکستان میں جرم بنا دیا گیا ہے ؟اگر ایسی
ترمین کر دی گئی ہے تو یہ جرم ہر صحافی کرے گا کیونکہ ہمارا منصب ہے کہ ہم
حقائق سامنے لائیں اور سچ لکھتے جائیں کسی کی نوکری جاتی ہے یا حکومت سچ
لکھنا ہماری مجبوری ہے۔ |