کھلاڑی سفیر اور دھرتی ماں
(Shahzad Saleem Abbasi, )
سولویں صدی میں انگلینڈ کی ایجاد کردہ اس
گیم نے ہمیں کبھی سکھ نہیں دیا سوائے 92 وولڈ کپ کے جوہم عمران خان کی
سربراہی میں غلطی سے جیت گئے تھے ۔ پاکستان کرکٹ بورڈکا باقاعدہ افتتاح یکم
مئی 1948کو کیا گیا ، جولائی 1952 میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں اسے تسلیم
کیا گیا اور افتخار حسین خان (ممدوٹ کے نواب) کو پہلا چیئرمین بنایا گیا
ایوب خان اور جسٹس اے آر کارنیلس سمیت بورڈ کے تین وائس صدور لگائے اور
پہلا ٹیسٹ میچ انڈیا میں اکتوبر نومبر دسمبر میں ہوا۔پاکستان کرکٹ بورڈکے
31 چیئرمینوں اور صدور میں چوہدری نذیر احمد خان، عبد الستار پیر زادہ ،
امین الدین، محمد علی بوگرہ، میجر جنرل سکندر مرزا، میلڈ مارشل محمد ایوب
خان،عبد الحفیظ کاردار، ائیر مارشل نور خان، جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ،مجیب
الرحمان، شہریار خان،ڈاکٹر نسیم اشرف، اعجاز بٹ، ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی
کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ پاکستانی کرکٹ کے مختلف فارمیٹس ہیں جن میں ہمارے
کھلاڑی وقتاََ فوقتاََ مہارتیں دیکھاتے رہتے ہیں۔ پی سی بی کا ہیڈ کوارٹر
قذافی اسٹیڈیم لاہو ر میں رکھا گیا ، اس اسٹیڈیم کا افتتاح کرنل قذافی
مرحوم نے کیا تھا ہماری شاہانہ کرکٹ کے شاہی درباریوں نے بھی دربانوں کا
کردار ادا کیا اور عیش و عشرت کا وہ سامان کیا کہ کرکٹ کے میدان میں انڈیا
مکار کے سا تھ ملکر کرکٹ سے سپورٹس مین سپرٹ کا نہ صرف خاتمہ کیا بلکہ
عوامی امنگوں کا قاتلِ عام کرتے ہوئے کرکٹ کو ماتم کدہ بنادیا ۔پی سی بی
کارپوریٹ اسٹریکچر میں مینجمنٹ کے 19 لوگ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں،
میڈیا اور پی آر ڈیپارٹمنٹ میں پانچ لوگ، پاکستان نیشنل کرکٹ ٹیم مینجمنٹ
میں 16 افراد، پی سی بی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں9 لوگ، پس سی بی ویمن ونگ میں
ایک، نیشنل سلیکشن کمیشن میں چار لوگ، جونیئر سلیکشن کمیٹی مین تین لوگ، پی
سی بی الیکشن کمیشن میں ایک، سیکورٹی کمیٹی پی سی بی میں پانچ لوگ کا رہائے
نمایاں سر انجام دے رہے ہیں۔ پی سی بی کے کارپوریٹ اسٹریکچر میں 9 شعبہ جات
ہیں اور ان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز قوم کے خادموں کی تعداد 58 ہے جو کہ
قومی کرکٹ پر احسان کے بدلے میں تنخواہوں، الاؤنس، ٹی اے ڈی اے اور ان آؤ ٹ
وزٹ کی مد میں خطیرمشاہرے وصول کر رہے ہیں ۔
کچھ بھولے لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے لیجنڈ کھلاڑی ہوتے تھے ،عمران خان ہوں،
وسیم اکرم ، وقار یونس، ثقلین مشتاق، جاوید میاں داد ، عبد القادرگگلی،
عاقب جاوید ،یا شعیب اختر وغیر ہ جو قوم کا سرمایہ افتخار تھے اور ان قومی
ہیروز نے اپنی ذاتی انا ء کو پسِ پشت ڈال کر تمغوں، کمرشلوں، ڈالروں اور
رنجشوں سے بے نیاز ہو کر ملک و قوم کے لئے کرکٹ کھیلی ، بدلے میں محبتیں ،
کامیابیاں اور عزتیں سمیٹیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ عمران خان صاحب
اگر چاہتے تو سیاست کے بجائے کرکٹ کے لئے کچھ نہیں سکتے تھے؟ وسیم اکرم
باہر کی دنیا میں عیش و آرام کے بجائے بورڈ میں اہم ذمہ داریاں نہیں نبھا
سکتے تھے ، وقار یونس سب کچھ ہوتے ہوئے کرکٹ کو کچھ نہیں دے سکتے تھے؟ اسی
طرح کرکٹ کے پرانے ستاروں کی ایک بڑی کھیپ بھی باہر بیٹھ کر طعن و تشنیع ،
لعن طعن کے سوا کرکٹ کیلئے کچھ نہ کر سکی! دولت کی حوس، شہرت کا نشہ اور
اناء پرستی نے ان لیجنڈز کو بھی کچھ نہ کرنے دیے ،ان لوگوں نے بھی نسیم
اشرف،شہریار خان، نجم سیٹھی کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور چل سو چل کی پالیسی
کو پروان چڑھاتے رہے بلکل اسی طرح جیسے سیاسی اخبارات کو کوئی کارکردگی نہ
دکھا کر بھی سرکاری اشتہار ملتے ہیں اسی طرح ان لوگوں بھی فرمانبرداری کا
صلہ ملتا رہا۔ان لوگوں کو چوہدری نثار سے سبق لینا چاہیے کہ جس طرح سے اس
نے کچھ حکومتی ٹولوں کی پروا کیے بغیر داخلہ منسٹری کو سیاست کے چنگل سے
آزاد کرایا ، بیرونی و اندرونی پریشر کے باوجود نادرا کا ڈیٹا وریفائے
کرایا ، نادرا کے کرپٹ آفسروں کو فارغ کیا ، پاسپورٹ کے نظام کو فعال بنایا
وغیرہ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں اتفاق، جذبہ، کرکٹ فوبیا، لگن کم
اور گروپ بندی ، اختلافات اور ٹانگیں کھنچنا زیادہ ہے ۔ یہ بات تو طہ ہے کہ
اگر ایک اسکول کاپرنسپل بچوں کو وقت کا پابندبنانا چاہے تو وہ قوانین بنا
کر والدین کو مجبورکر سکتا ہے کہ بچے وقت پر سکول آئیں اور ایسے ہی ہوتا ہے
کہ وقت کی پابندی ہوتی ہے ۔ لیکن ہمارے نکمے بورڈ کے افسران تو ایسے کھونچے
نکلے کہ ہارنے کے بعد بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ اور قومی
کھلاڑیوں کی تو کچھ نہ پوچھیں ، سفارشی بھرتی ہوتے ہیں ، کمرشل ملتے ہیں ،
باہر کے ٹورز ملتے ہیں، تو کھیل کر اپنی توانائی کیوں ضائع کریں !کوئی کہتا
ہے کہ شاہد آفریدی گروپنگ کرتا ہے اور انکے پیچھے نجم سیٹھی صاحب ہیں۔ کوئی
کہتا ہے کہ شعیب ملک، عمر اکمل، سرفراز اور محمد حفیظ کی اپنی گروپنگ ہے۔
اب اکیلا محمد عامر اور وہاب ریاض تو میچ جتانے سے رہے۔ اگر گروپنگ ہے تو
ان کھلاڑیوں کو باربار چانس کیوں دیا جارہا ہے ؟شاہد آفریدی نے اتنا طویل
کریئر کھیلا لیکن کرکٹ کی نیہ کو کبھی سہار ا نہ دیا ۔ایسا بندہ جو بلکل
غیر یقینی کیفیت میں رہتا ہے تو ایسے بند ے کو ٹی ٹوئنتی کپتان بنایا ہی
کیوں گیا؟جس کپتان کو پلاننگ ہی نہیں کرنا آتی تو وہ میچ کیا خاک جتوائے گا
؟ "کرکٹ مناپلی" اور" کرکٹ ڈپلومیسی "کی انتہا ہو گی !!باہر کی چڑیا، میچ
فکسنگ پہ دولت کے انبار، کھلاڑیوں کی لاپرواہی اور گروپ بندی ،قومی
کھلاڑیوں کے اعصاب پر سواربھارتی پریشر، بورڈ مینجمنٹ کی بے شرمی اور ہمارے
حکمرانوں کی کوتاہی و غفلت نے کرکٹ کشی کے لئے پر طول لیے ہیں۔ صدراول پی
سی بی جناب نواز شریف صاحب نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ جیسے کرکٹ مشرف اور
زرداری کے ادوار میں چلی ایسے ہی چلتی رہے گی نہیں تو" امن کی آشا"
اور"عشقِ ممنوع" کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔کہتے ہیں کہ کھلاڑی سفیر ہیں اگر
سفیر ہیں تو سفارت تو بڑا پاک پیشہ ہے ، سفارت میں لاتیں کھینچا ، گروپ
بندی اور دولت، شہرت کونہیں بلکہ دھرتی ماتا ، اور عزت کو فوقیت دی جاتی ہے
۔ہم نے ہمیشہ غلط بندے کو غلط جگہ پر فٹ کیا ہے اورہمیشہ اسکا خمیازہ بھگتا
ہے ۔ہم نے ہمیشہ ہر شعبے میں اور خاص کر کرکٹ کے شعبے میں ہر اس بندے کو
انتخاب کیا ہے جو پہلے سے ہی ایک ایک دو دو جاب کر رہا ہے ۔ ڈبل عہدے دے دے
کر ہم نے نہ صرف اس شخص کے ساتھ زیادتی کی ، اس شخص کی ساخت کو نقصان
پہنچایا ، اسکے تحت کام کرنے والوں کو برباد کیا بلکہ کرکٹرز اور کرکٹ
بھاری نقصان پہنچایا۔مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ ہم ہر ریٹائیرڈ شخص کو
کیوں کارآمد بنانا چاہتے ہیں ؟ پاکستا ن میں ہر شعبے میں جوانوں کی لاٹ
خدمات دینے کے لیے تیار ہے لیکن ہم نے آج بھی رویت حلال کے لئے بیچارے
بوڑھے مفتی منیب الرحمان صاحب کو رکھا ہے اور کرکٹ کے لیے شہریا ر خان کو
رکھا ہے ۔ "شریعت مطہرہ بتاتی ہے کہ جب انسان بوڑھا ہونے لگتا ہے تو اسکی
عقل ٹخنوں میں چلی جاتی ہے ـ"
آخر میں میری چند گزارشات ہیں اگر ان پرعمل ہوجائے تو کرکٹ دن دگنی رات
چوگنی ترقی کریگی۔پہلی گزارش یہ ہے کہ تمام کھلاڑیوں کو فارغ کر کے نئے سرے
سے نئی ٹیم کو میرٹ پر لایا جائے ۔دوسرا گزارش یہ ہے کہ پورے بورڈ کو فارغ
کر کے میرٹ پر نیا بورڈ تشکیل دیا جائے۔تیسری گزارش یہ ہے کہ چہرے بھلے
پرانے ہوں لیکن بورڈ کے تمام افسران کا کل مشاہرہ 30,000 روپے اور ہر
پاکستانی کھلاڑی کی تنخواہ 20,000 ماہانہ کر دی جائے اور بورڈ ایک آزاد
ادارہ ہو اور ہر قسم کا سیاسی اثر و رسوخ بے دخل کر دیا جائے ۔ چوتھی گزارش
ہے کہ پاکستان کی کرکٹ اسوقت نہ تو ہماری خوشی کا باعث بن رہی ہے !نہ
اکانومی بڑھا رہی ہے ! بلکہ ہمارے کھلاڑیوں کے رویوں کو خراب اور ہماری
عوام کا خواہ مخواہ وقت ضائع کررہی ہے۔ اسلئے گزارش ہے کہ کرکٹ کو ختم کر
کے قوم کھیل ہاکی کو پروموٹ کیا جائے کہ اب ان بیچارے فاقہ کاٹنے والے ہاکی
کھلاڑیوں کا بھی کچھ حق ہے۔پانچویں گزارش ہے کہ اگر کرکٹ ایسی ہی چلنی ہے
تو پھر کھلاڑیوں کو چوڑیاں پہنائیں ، بورڈ کے افسران کو ڈھول تھمائیں
اورکرکٹ کے ان کھلاڑیوں کو رفتہ رفتہ کبڈی، یسو پنجو، پھٹو گیرم، گلی ڈنڈا،
اورکوٹلا چھپاتی وغیرہ کا عادی بنائیں کہ کسی وقت بھی اس کی ضرورت پڑھ سکتی
ہے ۔ |
|