مسلمانوں کا تعلیمی گراف؟

علم کی اہمیت ہمیشہ رہی ہے۔اب یہ الگ بات ہے کہ کوئی کس شدت سے اس اہمیت کو محسوس کرتا ہے اور اس کو اپناتا ہے ۔بہت سے لوگ اس اہمیت کو محسوس کرتے ہیں لیکن اپناتے نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بھارت میں تعلیمی تناسب 64.8ہے۔ تعلیم میں مسلمان بہت پیچھے ہے جس کا اندازہ ان اعداد سے لگایاجا سکتاہے کہ ہندو کا تعلیمی تناسب 64.1فی صد ، عیسائیوں کا تعلیمی تناسب 80.3 فی صد، سکھوں کا تعلیمی تناسب 96.4فی صد ہے وہیں بودھوں کا تعلیمی تناسب 72.7فی صدہے ۔مسلمانوں کا صرف 59.1فی صدہے جب کہ مردوں کا67.6فی صد اور عورتوں کا50.1فی صد ہے۔

مسلمان تعلیم کے معاملہ میں کیوں ’بیک بنچر ‘ ہیں۔ مسلم ادارے پہلے بھی تھے اور نئے ادارے بھی قائم ہو رہے ہیں۔اس طرح کی بھی کوئی پابندی نہیں ہے کہ مسلمان بچے صرف مسلم ادارے میں ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔یہ بھی اپنی جگہ پر سچ ہے کی مدارس کی تعداد بھی کم نہیں ہے اور اضافہ ہی ہو رہا ہے۔دارالعلوم بھی بہت ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ تعلیمی تناسب سب سے کم۔مسلم ادارے بہت ہیں،ہر شہر میں ہیں ان میں نئے بھی ہیں اور پرانے بھی ہیں۔مدارس کی بھی تعداد شمار نہیں کی جا سکتی لیکن یہ سب کمائی کے اڈّے ہیں۔جو ادارے کمائی کاذریعہ بنے ہوئے ہیں ان سے خدمتِ خلق کی امید نہیں کی جا سکتی۔خدا کرے خدمتِ خلق اور تعلیم کی اہمیت ان کی سمجھ میں آجائے۔

اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں مذہبی تعلیم کی کوئی پابندی نہیں ہے ان کو صرف دنیاوی تعلیم ہی حاصل کرنا رہتا ہے جب کہ مسلمان بچوں کو عصری تعلیم اور دنیی تعلیم دونوں حاصل کرنی ہوتی ہے کیونکہ دینی علم حاصل کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔اﷲ رب العزت نے دین کی بنیاد ہی علم پر رکھی ہے اور اسی لیے قرآن کی جو پہلی آیت نازل ہوئی وہ لفظ ہے ’اقرأ‘ یعنی ’پڑھ‘۔سب سے پہلی جو پانچ آیتیں نازل ہوئیں ان سے قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہو تی ہے۔اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں’’ پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہے، جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعہ سکھلایا آدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھا ‘‘ (سورۃ القلم آیت 4,5)۔وحی کے شروع میں ہی جس چیز کی طرف حضور اقدس ؐ کے ذریعہ انسان کو توجہ دلائی گئی وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم اور تربیت کے جوہر و زیور سے انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا۔

لیکن مسلمان ابھی تعلیم کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکا ہے جبکہ تعلیم نہ صرف شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے بلکہ جسمانی اور ذہنی طور پر سر گرم رکھتی ہے۔یہ بڑے فکر کی بات ہے کہ مسلمان کا وہ طبقہ جن کا خاندانی کاروبار ہے جیسے بنکر، زردوز، مزدور پیشہ،دودھ کا کاروبار کرنے والوں کے بچے پانچ سات سال کے ہوتے ہی اپنے پشتینی کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگتے ہیں۔ان لوگوں کے یہاں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ان کا کہنا رہتا ہے کہ’ پڑھ کر کیاکریں گے؟ ان کو یہی خاندانی کاروبار کرنا ہے کوئی نوکری تھوڑی ملنی ہے۔

تعلیم کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا نہیں ہے،اگر علم حاصل کر کے اپنا پشتینی کاروبار ہی کیا جاتا ہے تو بہتر ڈھنگ سے کر کے زیادہ نفع کمایا جا سکتا ہے اور کچھ لوگوں کو روزگار بھی دستیاب کرایا جا سکتا ہے۔

خاندانی پیشہ کو زندہ رکھنے والی ایک قوم فقیروں کی بھی ہے جو اپنا شاہی کام ترک نہیں کر سکتے۔ تقریباً نصف صدی پہلے بہرائچ شہر کے باہر ، لکھنؤ روڈ پر ڈفالی پروا ایک محلہ تھا جو فقیروں کی بستی تھی۔اس محلہ کا ایک لڑکا بچپن میں ہی گھر سے کہیں چلا گیا تھا۔بڑا ہونے پر کسی طرح سے فوج میں بھرتی ہو گیا ۔کئی سال کے بعد اس کو اپنے گھر کی یاد آئی تو وہ اپنے گھرآیا۔فوجی وردی میں جب اُسے دیکھا تو اس کے گھر والوں نے گھر میں گھسنے نہیں دیا۔اس کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ تو نے خاندان کی ناک کٹائی، شاہی کام چھوڑ کر غلامی کر لی۔یہ قوم بھی خاندانی و شاہی پیشہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے یہاں بھی تعلیم کی ضرورت نہیں۔

نا خواندگی کا گراف بڑھانے کے لیے ہمارے مدارس بھی بہت اہم رول ادا کر رہے ہے۔جگہ جگہ مدرسے کھلتے چلے جا رہے ہیں، لوگ صدق دِل سے تعاون بھی کرتے ہیں۔مولوی صاحب نے کسی طرح سے ایک کمرے کی جگہ حاصل کی کچھ غریب بچوں کو جمع کیا اور مدرسہ شروع ہو گیا۔مہتمم صاحب نے ایک نگراں رکھا اور خود زکوٰۃ و صدقہ جمع کرنے نکل پڑے۔پانچ چھہ سال میں بچوں کو قرآن حفظ کرا دیا ان کی دستار بندی کر ادی اور ان کو بازار میں لانچ کر دیا۔ان بیچاروں کاپہلا کام ہو تا ہے مساجد کو تلاش کرنے کا ۔بڑے خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جن کو مسجد مل جاتی ہے۔ایک آدھ اُسی مدرسے میں چپکے رہتے ہیں جہاں سے فارغ ہوتے ہیں۔یہ بیچارے کسی دوکان پر بیٹھ کر حساب کتاب بھی دیکھنے لائق نہیں رہتے۔کئی بیچارے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مزدوری بھی کرنے لگتے ہیں۔

صرف قرآن حفظ کرا دینا تعلیم کے دائرے میں نہیں آتا،مدارس میں’ قلم ‘ کا استعمال نہیں کرایا جاتا،یہ اپنے گھر جانے کے لیے بس کا نمبر یا بس کہاں جا رہی ہے اس جگہ کا نام بھی نہیں پڑھ سکتے۔حافظ بنائے جانے والے مدارس سے فارغ حفاظ کرام کا ’آئی․کیو(IQ)‘ صفر ہوتا ہے۔مردم شماری کرنے والے لوگ ان کو (حفاظ کو)پڑھے لکھوں میں شامل نہیں کرتے ’انیہ(Other)‘ کے کالم میں رکھتے ہیں۔علماء حضرات اس طرف توجہ فرمائیں اور دینی مدارس جہاں صرف قرآن حفظ کرایا جاتا ہے وہاں کا تعلیمی نصاب ایسا ہو کہ ان کے علم میں ’قلم‘ بھی شامل ہو، تاکہ مسلمانوں کے تعلیم کا تناسب بڑھے۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 74228 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.