گزشتہ کئی برسوں سے اعلانات کئے جا رہے ہیں کہ ملک میں
یکساں نصاب تعلیم رائج کیا جائے گا۔ تعلیمی پالیسی میں اصلاح کی جائے گی۔
تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل پر خاص توجہ دی جائے گی۔یہ دعوے اور وعدے وفا نہیں
ہو سکے ہیں۔ وفاق چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی مشاورت سے
ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں یکساں تعلیمی نصاب متعارف نہ کراسکا۔تمام
مذہبی مکتبہ فکر کے سکالرز اور تعلیمی ماہرین کی منظوری بھی حاصل نہ کی جا
سکی۔18ویں ترمیم کے بعداب وفاقی اور صوبائی شعبہ جات کا معاملہ بھی سر اٹھا
رہا ہے۔ اگر کوئی غلط ہو تو ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ نئی
یونیورسٹیاں، میڈیکل، انجیئرنگ کالجز، دیگر پروفیشنل ادارے قائم کرنے کے
ساتھبنیادی تعلیم کو ملکی ضروریات اور وسائل سے ہم آہنگ کرنے کی بھی ضرورت
ہے۔
متعلقین اگر عزم کر لیں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلیں تو وہ ہر
شعبہ میں بہتری لا سکتے ہیں۔ تا ہم تعلیم بنیادی عنصر ہے۔ اس کے لئے من
پسند نصاب اور من مانی کا تسلسل جاری ہے۔ ا کوئی سٹنڈرڈ نہیں ۔ جو کسی کا
دل کرے ، وہی ہوتا ہے۔ بعض پبلشرز کی ملی بھگت بھی قوم کے مستقبل کے ساتھ
کھلواڑ میں شامل ہے۔ یہ پبلی کیشن ہاؤسز متعلقہ لوگوں کو کمیشن دیتے ہیں۔
یہ ایسی کرپشن ہے جس سے قوم کے معماروں کے ذہن منتشر کر دیئے جاتے ہیں۔ ان
کو مختلف راستوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ ملک کے مستقبل کے ساتھ دشمنی کی
انتہا ہوتی ہے کہ چند افسران یا سیاستدان مل کر چند سکوں کے لئے اپنے ضمیر
فروخت کر دیتے ہیں۔
شہروں اور قصبوں کا کیا کہنا، دوردراز دیہات میں بھی بے شمار سکول کھل چکے
ہیں۔ نئے سکول ایسے کھل رہے ہیں کہ جیسے یہ ریڑھیاں، دکانیں ہوں۔ ان سکولوں
کے مالکان والدین اور طلباء کو کسٹمرز سمجھتے ہیں۔ ان سکولوں میں کوئی
معیار یا اعتباریت نہیں ہوتی۔ جبکہ کسی سکول کے لئے اس کے محل و وقوع کا
مناسب اور تعلیم دوست ہونا اولین شرط ہوتی ہے۔ لیکن پتہ نہیں کہ جب ان
سکولوں میں کھیلنے کا چھوٹا سا میدان، لیبارٹری، لائبریری، واش روم تک نہیں
ہوتا ہے۔لیبر لاز سے آزاد ان سکولوں کے اساتذہ کو چند ہزار کی معمولی
تنخواہ دی جاتی ہے۔ جن کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کی بھاری
فیسیں اور حیران کن مدعات کے چندے اور ڈونیشن الگ سے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے
ان سکولوں کا یہ بھی کرتب ہوتا ہے کہ یہ فلاحی منصوبوں کے نام پر میدان میں
آتے ہیں۔ یہ باور کراتے ہیں کہ ان کی ترجیحات سماج کے نادار، متاثرہ طبقات،
یتیم، مسکین بچے ہیں۔ لیکن ان کے نام کو استعمال کرنے کے بعد جب ان کی
تعداد بڑھ جاتی ہے تو یہ پروفیشنل ہو جاتے ہیں۔ ان کی نظریں بھاری فیسوں پر
جم جاتی ہیں۔ یہ والدین کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ ہر روز نئی فیس، نیا شوشہ۔
رجسٹریشن کے بغیر کھلنے والے ان سکولوں میں سب سے پہلے داخلوں کا مرحلہ آتا
ہے۔ من پسند یونیفارم کا تقاضا ہوتا ہے۔ یونیفارم بھی مخصوص سٹورز سے
خریدنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ جو کہ موقع کا فائدہ اٹھا کر والدین کو لوٹتے
ہیں۔ جب کہ ان کا معیار بھی ناقص ہوتا ہے۔ اس کے بعد نصابی کتب اور سٹیشنری
خریدنے کا مرحلہ آتا ہے۔ کتابوں اور سٹیشنری کے لئے بھی یہ سکول مخصوص کتب
خانوں اور سٹیشنرز کے ساتھ ساز باز کر لیتے ہیں۔ جو کہ والدین کو کوئی
ڈسکاؤنٹ دینا گوارا نہیں کرتے۔ بلکہ مارکیٹ سے بھی زیادہ دام وصول کرتے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سکول اپنیبراند اور کمپنی کی مشہوری اور اس کی
تشہیر کے لئے مخصوس سٹیشنری اور کاپیوں کا پرنٹ کراتے ہیں۔ اگرایک کاپی کی
مارکیٹ میں قیمت 20روپے ہے تو یہ اپنے طلباء کو وہی کاپی 60روپے میں خریدنے
کے لئے بھیج دیتے ہیں۔جب تعلیمی ادارے طلباء کے نتائج ترتیب دیتے ہیں تو
دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ یہ سب کو سو فیصد مارکس دے کر طلباء اور والدین
کا جذباتی مذاق اڑاتے ہیں۔ اس پر روک لگانے کا کوئی بندوبست نہیں ہو سکا ہے۔
سرکاری سکولوں کے اساتذہ بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول میں داخل کرتے ہیں۔
جبکہ استاد اور علاقے کے سرکاری ملازمین یا افسران کا بچہ بھی اسے علاقے کے
سرکاری سکول میں داخل ہو۔ حکومت اسے پابند بنائے ۔ تو بھی ان سرکاری سکولوں
کا معیار بہتر ہو سکتا ہے۔ لوگ مجبور ہو کر پرائیویٹ سکولوں کا رخ کرتے
ہیں۔باقی رہا نصاب تو اس میں کھلی من مانی ہوتی ہے۔ بچوں کو ایک راستے پر
ڈالنے اور ان کی ذہنی ہم آہنگی کے بجائے انہیں منتشر کر دیا جاتا ہے۔ ایک
محلے میں جتنے سکول ہیں ان کا نصاب بھی اسی طرح یکسر مختلف ہے۔ اس طرح نئی
نسل میں ذہنی دوریاں فروغ پاتی ہیں۔ یہ کھیل عرصہ دراز سے جاری ہے۔
اس تعلیمی نظام کے ناقص ہونے کا متعلقہ لوگ بالکل احساس نہیں کرتے۔ بلکہ ان
میں پیسہ کمانے اور عوام کو بے وقوف بنانے کا مقابلہ ہو رہاہے۔ ان پر کوئی
نگران، چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ مالکان کمائی کرتے ہیں۔ لیکن اس میں سے
10فی صد بھی اپنے سٹاف یا طلباء کی فلاحی سرگرمیوں پر خرچ نہیں کرتے۔ اس
طرح یہ ایک طبقہ کے لئے منافع بخش صنعت بن چکی ہے۔ جس میں بعض سکول مالکان،
پبلشرز اور کتب خانوں ،سسٹیشنرز کے درمیان ساز باز جھلکتا ہے۔ یہ سکول کم
اور کاروباری یونٹس زیادہ بن چکے ہیں۔ تعلیم کے نام پر دکانداری کی اجازت
کس نے دی ہے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا۔ نہ ہی کوئی اس غلطی کا اعتراف کرنے کو
تیار ہے۔ نہ ہی اصلاح کی کوشش ہوتی ہے۔
ہر سکول نے کمسن بچوں کی طاقت سے زیادہ ان پر کتابوں کا بوجھ ڈال دیا ہے۔
اس بوجھ تل بچوں کے ذہن دب رہے ہیں۔ آج کے بچے ان کتابوں کے بوجھ تلے آ کر
ان کے قد بھی متاثر ہوتے ہیں، ان کی جسمانی نشو ونما پر بھی اس کا منفی اثر
پڑتا ہے۔ ان پر ہر وقت سکول کام کا بوجھ ہوتا ہے۔جس سے ان کی ذہنی نشو نما
بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ آج کا بچہ قد آور اور جسمانی طور پر مضبوط
بننے کے بجائے’’ للی پوت‘‘بن رہا ہے۔
ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے اور جدید تقاضوں کے مطابق تعلیمی
اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ فوری طور پر اس جانب ضروری توجہ دینے اور بنیادی
اقدام اٹھانے چاہیئں۔ یہ کثیرالجہتی ایشو ہے۔ ایک طرٖف سکولوں کے لئے ضابطہ
اخلاق بنانے ہوں گے اور دوسری طرف پبلشرز کا قبلہ درست کرنا ہو گا۔ اس
کاروباری گٹھ جوڑ کو توڑے بغیر حکومتی اقدام محض دکھاوا ثابت ہوں گے۔ جن کے
پس پردہ یہ کاروباری مافیا متعلقہ افسران کو شیشے میں اتار کر قوم کے
مستقبل سے کھلواڑ کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ آپ اپنی قیمتی تجاویز
03009568439پروٹس ایپ / ایس ایم ایس کر سکتے ہیں۔ |