وہ پیدائشی ابنارمل تھا۔اُس کو دیکھ دیکھ کر اُس کے
والدین اُداس ہو جاتے ‘ عام بچوں کی طرح زندگی کا پہلا قدم اُس نے ایک سال
کے بجائے پانچویں سال میں رکھا‘ والدین اُس بچے کی نگہداشت خصوصی بچوں کی
طرح کیاکرتے تھے‘اُس بچے کا پیر بلکُل سیدھا تھا‘ جس کے باعث وہ تیزدوڑنے
کے قابل نہ تھا‘اُس کا بازو بھی نارمل بچوں سے مُختلف تھا‘ اُس میں کوئی
بات تھی تو اُس کی لگن تھی‘وہ محنت کا عادی بن رہا تھا‘سائیکل چلانے کا شوق
پیدا ہوا تو والدین نے تنگدستی کے باوجود اُس کو سائیکل خرید کر دی اور کچھ
ہی دنوں میں وہ اپنی عمر سے بڑی عمر کے بچوں سے سائیکل ریس میں آگے بڑھنے
لگا‘یہ جنون، یہ محنت اور یہ لگن اُس کو کچھ کر دکھانے پر اُکسا رہی تھی
اور ایک دن وہ کھیل کے میدان میں اُترا‘ تاریخ میں ایک مثال بھی موجود نہیں
کہ کوئی محنت کرے اور منزل نہ پا سکے‘ مسلسل محنت اور لگن اُس بچے کو کرکٹ
کی تاریخ کا سب سے تیز رفتار اور باولر بناتا ہے ‘دنیائے کرکٹ اُس کو شعیب
اَختر کے نام سے پہچانتی ہے ۔
کہتے ہیں کہ ڈینس لیلی اور جیک تھامسن کے دہشت سے تو سارا زمانہ ہی واقف
تھا لیکن جب ٹرائب لایئڈ نے لائیکل ہولڈن، جوئل گارنر اورکالنگ کرافٹ
اوراینڈی روبٹس پر مشتمل خطرناک باولنگ اٹیک میدان میں اُتاراتوشائقینِ
کرکٹ لیلی اور تھامسن کو بھول گئے‘90ء کی دہائی میں پاکستانی ٹو
ڈبلیوز(وسیم اور وقار)کی خطرناک یارکلز تو بلہ بازوں کیلئے وبال ِجان ثابت
ہونے لگی‘لیکن ان سب کے بعد کرکٹ کے اُفق پرایک ایسا باولر اُبھرا جس نے
رفتار کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیااور جلد ہی اسکی برق رفتار یارکلزاور
باونسرزکے سامنے بڑے بڑے بلہ باز ڈگھمگاتے نظر آئے‘برائن لارا، رکی
پونٹنگ،جیک کیلس اورمیتھیو ہیڈن جیسے ماہربلے باز بھی راولپنڈی ایکسپریس کے
سامنے بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دینے لگیاور لٹل ماسٹر سچن ٹنڈولکر تو
بار بار شعیب اختر کے تیز رفتار گیندوں کا نشانہ بنے ‘ایک زمانے میں فاسٹ
باولرز بغیر ہیلمٹ کے انے والیبلہ بازوں کو نشانہ بنا دیتے لیکن شعیب نے تو
ہیلمٹ پہنتے ہوئے بلہ بازوں کے چہرے بھی سُرح کر دئیے ‘شعیب اختر اپنے
کئیریر میں تنازعات کا بھی شکار رہے اور انہیں فٹنس مسائل بھی درپیش رہے
تاہم ایسا شائد ہی کبھی ہوا کہ اُن پر میچ فکسنگ کا الزام لگا ہو‘اس حوالے
سے شعیب اختر کا ریکارڈ بالکل صاف ہے‘شعیب اختر بلہ بازوں کیلئے ایک ڈراونا
خواب تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ کی خبر سُن کریقینا بہت سے بلہ بازوں نے سکون
کا سانس لئے۔ ایک ایسا بچہ جسکی زندگی اور جس کے مُستقبل سے اُس کے والدین
مایوس ہوں‘وہ اپنی محنت سے دُنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔
محنت چار الفاظ پر مُشتمل ، دُنیا کی ہر کامیابی کی چابی ہے‘آپ اس چابی سے
دُنیا کا کوئی بھی تالہ کھول سکتے ہیں‘ابنارمل بچہ کرکٹ کا سپُر سٹار بن
سکتا ہے‘موچی کا بچہ ، جوتے بنانے والے فیکٹری کا مالک بن سکتا ہے‘لکڑ
ہارنے کا بچہ، مُلک کا صدر بن سکتا ہے‘ میں اور آپ اس مُلک کی تقدیر بدل
سکتے ہیں‘ امریکہ کی پالیسی سے دُنیا کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر جو امریکہ
جاتا ہے وہ تعریف کرنے پر مجبور ہوتا ہے ‘امریکہ نے جنگ آزادی اٹھارویں صدی
میں لڑی اور دُنیا کا سُپر پاور اکسویں صدی میں بنا‘اس کے درمیان کے دو
سوسال محنت سے لبریز ہیں‘مرد بیمار سے پہچانے جانے والا ملک چین کسی بھی
مُلک کی عوام کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے‘ وقت کی رفتار کو روکا نہیں
جا سکتا، وقت نے گُزرنا ہے، چاہے آپ سو کر وقت گُزاریں، چاہے محنت کر کے اس
کوکیش کروایں‘ محنت کے لیے میدان کا تعین آپ نے خود کرنا ہے‘وہ میدان کتنا
ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، آپ کی محنت اس میدان کو وسیع کر دے گی‘آپ کی محنت کا
ثمر مہینوں میں بھی مل سکتا ہے اور عشروں میں بھی‘عین ممکن ہے آپ وہاں ہمت
ہار جائیں جب منزل آپ سے ایک قدم کے فاصلے پر موجود ہو‘ جہدمسلسل کا جنوں ،کامیابی
کو آپ کی گھر کی باندی بناد ے گا۔یہ جنوں اورمحنت آپ کو اقبال ؒ کے شاہین
کی مانند آسمانوں کی وسعتوں تک پہنچادے گا۔
مملکت پاکستان آزمائیشوں کے دور سے گُزر رہا ہے‘ہمارے پاس دو راستے ہیں، ہم
مُلک کو اسی حالت میں رہنے دیں، مُختلف تجزئیے کر کے دل کو تسلی دیں یا ہم
مُلک کی بدلنے کا تہیہ کر لیں‘عین ممکن ہے ہم میں مُستقبل کے عمر بن
عبدالعزیزکی صلاحیتوں والے افراد موجود ہوں جو مُلک کی تقدیر بدل کر رکھ
دیں ، نیلسن منڈیلا اور میلکم ایکس ہو، جنہوں نے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے
ہیں۔ کیایہ افراد بغیرمحنت اور جنوں کے اس مقام تک پہنچے ہیں ؟ یقینا جواب
نفی میں ہوگا،یاد رکھیے ان سب کی زندگی جہد مُسلسل سے لبریز تھی‘جنہوں نے
دوسروں کی آرام کی خاطر اپنے آرام کو قُربان کیا‘زندگی کے میدان میں آگے
بڑھنے کے لئے فیصلے لمحوں میں کئے جاتے ہیں‘ آپ کے آج کے لمحوں کا فیصلہ،
آپ کی جہد مُسلسل کا مُنتظر کائنات کی وسعتیں ہیں‘آپ کی کامیابی میں آپ کے
وطن کی کامیابی اور ترقی پوشیدہ ہے۔ـــــ
|