اس وقت پاکستان میں شائقین کرکٹ مایوسیوں
کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مایوس کیوں نہ ہوں کہ کرکٹ سے
جذباتی وابستگی جو ہیں۔ کرکٹ کے میدان سے آنے والی ہر خوشی پاکستانیوں کے
لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہے۔ پاکستانی سب غم بھلا کر کرکٹ کی خوشی
مناتے ہیں، لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کو اِس خوشی سے بھی
محروم کرنے کی ذمہ داری پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی انتظامیہ نے قبول
کرتے ہوئے کرکٹ کی بربادی کا بیڑا اٹھا لیا۔
ایشیاکپ اور ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں شرمناک کارکردگی کا ماتم تاحال جاری ہے
اور کھلاڑیوں سے لے کر ٹیم انتظامیہ تک ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرایا
جارہا ہے۔ قوم کو میگا ایونٹ سے قبل ہی پاکستانی ٹیم سے کوئی خاص امید تو
نہ تھی لیکن ایونٹ سے پہلے ٹیم اور انتظامیہ کی جانب سے اچھی کارکردگی کے
مسلسل بلند و بانگ دعوے کے ذریعے قوم کو بے وقوف بنایا گیا۔ نتیجہ سب کے
سامنے ہے۔ محترم چیئرمین پی سی بی شہریار خان کی عقل کا معیار دیکھئے کہ
ایونٹ کے درمیان ہی بیان داغ ڈالا کہ رینکنگز میں ٹیم ساتویں نمبر پر ہے
لہذا قوم کو ٹیم سے امید نہیں رکھنی چاہیئے۔ پھر وہ یہاں بھی نہیں رکے بلکہ
ورلڈ کپ کے دوران یہ بھی بیان دے ڈالا کہ خراب کارکردگی کے سبب کپتان کو
بدل دیا جائے گا۔ جنگ کا اصول ہوا کرتا ہے کہ جنگ کے درمیان گھوڑے نہیں
بدلے جاتے لیکن یہاں پر تو سپہ سالار تک بدلنے کا اعلان کردیا گیا۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے کوئی ٹس سے مس
نہیں ہوتا اور جب ذمہ داری لینے کا وقت آتا ہے تو قربانی کا بکرا کسی کو
بنا کر اصل ذمہ داران کو بچا لیا جاتا ہے۔ میگا ایونٹ سے قبل جب کپتان
بدلنے کی بات کی گئی تو چیئرمین نے ملکی مفادات کو پرے کرکے کہا کہ وہ زبان
دے چکے ہیں۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وہ بھی کپتان اور کوچ کے ساتھ ذمہ داری
قبول کرتے ہوئے قوم پر احسان کرتے اور چلتے بنتے لیکن وہ تو میں نہ مانوں
کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
ٹیم میں گروہ بندی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، جس کا آغاز 1954 میں میاں سعید
نے رکھا کیونکہ ان کو دورہ انگلستان کے لیے ٹیم کی قیادت چاہیے تھی، بس وہ
دن ہے اور آج کا دن، یہ سلسلہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ ایسی
صورت میں نوجوان سرفراز احمد کو عوامی دباؤ کے نتیجے میں ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا
کپتان بنا دینا کافی ہے؟ یہ اک سوال ہر پاکستانی کے دماغ اور زبان پر موجود
ہے کیونکہ سرفراز احمد کو انہی کرپٹ اور مافیا کے درمیان لا کھڑا کیا ہے جس
سے آفریدی بھی نہ نبٹ سکے، تو ایسی صورت میں کیا سرفراز کامیاب ہوسکیں گے؟
انتظامیہ کے ارادے سب کچھ کھو کر بھی ٹھیک نہیں معلوم ہوتے، پاکستان کرکٹ
کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی نیا کپتان بنا اس کے خلاف لابنگ کی
گئی اور اسے غیر مستحکم بنانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اگر مجھ سے ذاتی طور پر پوچھا جائے تو اِس حوالے سے سب سے افسوسناک واقعہ
1980ءمیں رونما ہوا جب ٹیم نے جاوید میانداد کی زیر قیادت دورہ سری لنکا
میں جانے سے انکار کردیا اور مجبوراً بورڈ کو نئے لڑکوں پر مشتمل ٹیم
بھیجنی پڑی۔ پھر 1982 میں جب عمران خان پہلی مرتبہ قومی ٹیم کے کپتان بنے
تو سرفراز نواز اور جاوید میانداد کو وہ ایک آنکھ نہیں پسند نہیں آئے اور
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان کو کپتانی سے ہٹادیا گیا اور جاوید
میاںداد کو کپتان بنادیا گیا۔ لیکن یہ زیادہ دیر نہ چل سکا اور ایک سال میں
ہی عمران خان واپس کپتان بنے اور آتے ہی انہوں نے سرفراز نواز کو ٹیم سے
اور جاوید میانداد کو کپتانی سے ہٹوادیا۔ پھر 1993میں میانداد کو ایک بار
پھر ایسے ہی حالات کا سامنا رہا کہ وسیم اکرم، سلیم ملک اور رمیض راجہ کی
مشترکہ حکمت عملی کے سبب کپتانی سے ہٹادیا گیا۔
اِس کے بعد 1995ءسے 2002تک قومی ٹیم میں دو گروہوں کے درمیان سرد جنگ جاری
رہی۔ ایک گروپ کی قیادت وسیم اکرم کررہے تھے اور ان کے دست بازو معین خان
تھے جبکہ دوسرے گروہ کی قیادت وقار یونس کررہے تھے اور ان کے قریبی ساتھیوں
میں راشد لطیف کا شمار ہوتا تھا۔ ان 7 برسوں میں دونوں گروہ قیادت کے حصول
کے لیے لڑتے رہے اور قومی ٹیم کی نیّا ڈبوتے رہے۔ پھر اگلے 5 سال انضمام
الحق اور یونس خان کے خلاف سازشوں کا بازار گرم رہا جن کے خلاف محمد یوسف،
شعیب ملک اور شاہد آفریدی بطور مرکزی کردار سامنے آئے۔ اگر انضمام مضبوط
کپتان نہ ہوتے تو وہ کبھی لمبے عرصے کے لیے ٹیم کی قیادت نہ کرسکتے۔
ماضی سے ہٹ کر آج بھی ٹیم کی صورتحال دیکھی جائے تو معاملہ جوں کا توں ہی
ہے کہ کبھی شعیب ملک پر سازش کا الزام لگتا ہے تو کبھی شاہد آفریدی پر،
کبھی محمد حفیظ کو مرد الزام ٹھہرایا جاتا ہے تو کبھی احمد شہزاد اور عمر
اکمل کو سازشی کہا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں سرفراز احمد کو نہ صرف ٹیم کی
کارکردگی بہتر کرنے کے لیے بھرپور محنت کی ضرورت ہے بلکہ ساتھ ساتھ ان
سازشی عناصر سے خبردار بھی رہنا ہوگا کہ قومی ٹیم کی تاریخ گواہ ہے کہ ایک
دو نام کے علاوہ تمام ہی کپتان سازشی گروہ کا شکار بن چکے ہیں۔
آئیے اب سرفراز احمد کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ٹیسٹ کیرئیر میں 21
میچز کھیل کر 46 کی اوسط، 58 ون ڈے میچز میں تقریباََ 30 کی اوسط جبکہ ٹی
ٹوئنٹی کرکٹ میں 21 میچز کھیل کر 29 کی اوسط کے حامل ہیں۔ سرفراز احمد کا
نمایاں کارنامہ انڈر 19 ورلڈ کپ 2006 کی کپتانی کرتے ہوئے پاکستان کے لیے
ٹائٹل جیتنا تھا۔ اس کا فائنل روایتی حریف بھارت کے ساتھ تھا، پاکستانی ٹیم
پہلے بلے بازی کرتے ہوئے بمشکل 109 رنز ہی بناسکی تھی اور اس قدر کم اسکور
کے ساتھ قومی ٹیم کا جیتنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا لیکن سرفراز احمد کی
بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں پاکستان نے بھارت کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے
نام کیا۔
اِسی طرح پاکستان سپر لیگ میں سرفراز احمد نے مہنگے کھلاڑیوں اور مہنگی
ٹیموں کی موجودگی میں کوئٹہ گلیڈیئٹرز کی نمائندگی کرتے ہوئے شائقین کو
حیرت میں ڈال دیا اور پھر لیگ کے فائنل میں جگہ بنا کر اپنی سپہ سالاری کا
لوہا منوایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپہ سالار کمزور فوج کے ساتھ بھی اپنی
بہترین حکمت عملی کے ذریعے جنگ جیت سکتا ہے، لیکن اگر فوج میں ایک بھی غدار
ہو تو ٹیپو سلطان جیسا سالار بھی ناکام ہوسکتا ہے۔
لہٰذا قوم کا مطالبہ ہے کہ سرفراز احمد کو مضبوط بنانے کے لیے گروہ بندی کا
خاتمہ کرکے اہل لوگوں پر مشتمل بورڈ بھی ترتیب دیا جائے۔ آخر میں ثقلین
مشتاق اور عاقب جاوید کے بیانات موجودہ حالات کی تصویر دکھانے کے لیے کافی
ہیں کہ دونوں نے ہی کہا کہ،”موجودہ سیٹ اپ اور انتظامیہ میں موجود افراد کے
ساتھ کام کرنے سے قاصر ہوں“۔ |