ماضی قریب تک سست اور غیر تعلیم یافتہ خاندانوں کے
بچے نصاب کی تیاری کیلئے جنوری تا مارچ ٹیوشن رکھ لیا کرتے تھے،اچھا زمانہ
تھا 50سے100 روپے میں اچھی ٹیوشن مل جاتی تھی، غریب طبقہ طالبعلم بھی چند
روپوں میں با آسانی ٹیوشن کی سہولت حاصل کرلیا کرتے تھے، اساتذہ بھی مستحق
طالبعلموں سے پیار کیا کرتے تھے، ابھی تعلیم کا کاروبار شروع نہیں ہوا
تھا،جبکہ تعلیم یافتہ گھرانوں کے طالبعلم اپنے والدین کی زیرنگرانی نصاب کی
تیاری کرتے تھے۔اسوقت گائید رکھنا جرم تصور کیا جاتا تھا اور بازاری نوٹس
کا رجحان ابھی پرورش کے مراحل میں تھا، طالبعلم ،اساتذہ و والدین بچوں کو
کتابوں کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کی ہدایات جاری کرتے تھے،طالبعلم مکمل باب
کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد ہی مشق کے سوالات کے جوابات تحریر کیا کرتے تھے،
اگر اساتذ ہ کسی طالبعلم کے بیگ میں گائیڈ دیکھ لیتے تو اسے کلاس روم میں
مرغا بنا دیا جاتا تھا اور گائیڈضبط کرلی جاتی تھی، سکولوں میں املاء اور
تختی سسٹم اپنے عروج پر تھاباقاعدگی سے ان کے پیریڈ رکھے جاتے تھے، املاء
سے گرائمر میں بہتری آتی اور تختی لکھنے سے لکھائی میں خوشخطی آتی، پانچویں
پاس طالبعلم آسانی سے خط لکھ وپڑھ سکتا تھا۔ لیکن دور جدیدمیں کتاب کی جگہ
پہلے گائیڈ آئی پھر آہستہ آہستہ نوٹس نے جگہ حاصل کرلی۔کتاب میں ہرموضوع پر
ایک مختصر مگر جامع باب ہوتا تھا، ہر باب ایک سبق آموز کہانی رکھتا تھاجو
مطالعہ کے ساتھ ساتھ طالب علم کی ذہنی نشوونما بھی کرتا تھا، اکثر طالبعلم
بچپن کا سبق بڑھاپے تک یاد رکھتے تھے اورمختلف محفلوں میں بچپن کے سبق
کاذکر کرتے خوشی محسوس کرتے تھے، مگر آہستہ آہستہ طالبعلموں نے گائیڈ سے
مطالعہ شروع کردیا،جس میں ہر سوال کے مختصرجوابات ہوتے ہیں، گائیڈ نے
سوالات کی تلاش کیلئے کی جانے والی محنت کا خاتمہ کردیا تھا، طالبعلم گائیڈ
کے ذریعے ہوم ورک کرنے لگئے۔ شروع شروع میں صرف چند ہی طالبعلم گائیڈ کا
استعمال کرتے تھے،لیکن پھر آہستہ آہستہ ہر طالبعلم کے بیگ میں گائیڈ نے جگہ
لے لی ،گائیڈنے تعلیم سے کتاب کا تصورہی ختم کردیا تھا، کلاس روم میں کتاب
کا مطالعہ تقریبا ختم ہوگیا تھا، اساتذہ بھی گائیڈ سے سبق دینا شروع ہوگئے
، حکومت نے تعلیم پالیسی تبدیل کرتے ہوئے معروضی سسٹم متعارف کروایا،
معروضی کی تیاری کیلئے ہر باب کا عمیق مطالعہ ضروری تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ
تعلیم میں نوٹس کی آمد شروع ہوگئی۔اساتذہ نے ہرباب کے معروضی سولات کے نوٹس
تیارکیے ، ایک دفعہ پھرتعلیم نظام سے کتاب کا مطالعہ ختم ہوگیا ہے۔ماضی
قریب میں ہر گورنمنٹ سکول وکالج میں لائیبریری ہوا کرتی تھی، جہاں طالبعلم
فری ٹائم میں مطالعہ کرنے جایا کرتے تھے، اس کے علاوہ ہر تحصیل میں سرکاری
ونجی لائیبریری ہواکرتی تھی، لائیبریری کی بدولت معاشرہ میں کتاب کے مطالعہ
کا رجحان موجود تھا مگرحکومتی نااہلی نے لائیبری سسٹم کو خاتمہ کردیا، اب
لائیبریری کتاب کی جگہ شوشل میڈیا کی فیس بک نے لیکرہمارے تعلیمی نظام کو
تباہ کردیا ہے، میٹرک پاس طالبعلم بھی آسانی سے کتاب یا اخبار نہیں پڑھ
سکتا، ہمارے معاشرے میں ڈگریاں تو بہت ہیں، لیکن تعلیم یافتہ افراد کی
تعداد بہت کم ہے، بیرون ملک ہماری تعلیمی اسناد کی وقعت تقریبا ختم ہوچکی
ہے، جاہلی ڈگریوں نے ہماری اصل اسناد کوبھی شک میں ڈال دیا ہے۔حکومت وقت کو
چاہیے کہ جلد ازجلد گائیڈ پرپابندی عائد کرئے، سکولوں و کالجوں میں صرف
اورصرف کتاب کا داخلہ ہو۔ اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ وہ کتاب کا مطالعہ
کلاس روم میں لازمی کرئے۔ روزانہ املاء وتختی کا پیریڈہو،تاکہ طالبعلم کی
لکھائی میں بہتری کے ساتھ معلومات میں اضاضہ ہو۔ اگر حکومت وقت نے تعلیم کے
محکمہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو جلد ہمارا معاشرہ ان معاشروں میں
شامل ہوگا جہاں ڈگریاں سب کے پاس ہوگی لیکن تعلیم والے چند افراد ہونگے۔ |