نصاب کے انتخاب میں احتیاط کے تقاضے
(Rizwan Ullah Peshawari, Peshawar)
چند دن قبل اخبار میں ایک خبر دیکھی جس کی
عبارت کچھ یوں تھی’’چالیس سال سے جو کوا پیاسا تھا وہ آج بھی پیاسا ہے ‘‘
اس کامطلب یہ تھا کہ پرانا نصاب مفید نہیں ہے اب نصاب کی تبدیلی ناگزیرہے ۔
جدید دور کے ساتھ نصاب بھی جدید ہونا چاہیے ۔میں اپنی رائے ظاہر کرنے سے
پہلے اس جملے کا جواب دوں گا ۔پھر تفصیل سے اس موضوع پر اپنے تاثرات پیش
کرتا چلوں گا ۔ میں کہوں گا کہ تم نے کیاکیا؟ نصاب تبدیل کرتے کرتے تو
ماہرین نصاب تھک کر بیٹھ گئے مگر تعلیم کا معیار گر رہا ہے ۔ مقدار کو
بڑھانے سے تعلیمی مقاصد حاصل نہیں ہوں گے، بلکہ تعلیم کااعلیٰ معیار ہی
ہمیں تعلیم کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچا سکتا ہے۔ ’’پیا سا کوا ‘‘ والا سبق جس
نے پڑھا ہے تمہاراماسٹر( Master)لیول بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ پیاسے
کوے نے تو لوگوں کو جہازاڑانا سکھایا،جنرل بنایا ،قوم وملک کو اچھے اچھے
ڈاکٹرز ، بیوروکریٹس اور سیاستدان دیے ۔ ماضی میں نصاب مختصر اور سادہ تھا
جس کی وجہ سے پورا پڑھایا جاتا تھا اور طلبہ پوراکا پورا سبق حرف بہ حرف
سمجھ لیتے تھے ۔آج کا نصاب تو مقدار کے لحاظ سے اتنا بڑھ گیا ہے کہ
K.Gکابچہ جب اپنا اسکول بیگ اٹھا تا ہے تو خدا کی قسم اس پر ترس آتا ہے۔ تم
نے کتابو ں کو خوب بڑھایا، لیکن اس کے نتیجے میں ایک کتاب پورے طور پر بچے
سیکھ نہیں سکتے ۔ تعلیم باب تفعیل کاصیغہ ہے اس میں تدریج ہے ۔یکمشت تعلیم
نہیں سیکھی جاسکتی ۔ بچوں پر اتنا ذہنی بوجھ ڈالنے سے ان کی نفسیات برباد
ہوجاتی ہیں ۔ہوم ورک(Home Work)کے بوجھ کی وجہ سے انہیں گیم کھیلنے کا موقع
نہیں ملتا ۔ذہن ان کا مفلوج ہوتاہے جو بچہ بچپن میں کھیل سے محروم رہے گا
وہ مستقبل کاایک بزدل شخص بنے گا ۔اس کی فطری تقابلی صلاحیتیں ضائع ہوجاتی
ہیں اور احساس کمتری کاشکار ہوکر کسی کام کانہیں رہ جاتا۔کیا کبھی آپ نے
سوچا ہے کہ ہم بچوں کے ساتھ کتنا ظلم کررہے ہیں ؟ کتابوں کے بڑھانے سے فیس
تو بڑھ سکتی ہے مگر تعلیم کا معیار کبھی بلند نہیں ہوگا یہ یادرکھیں۔ نصاب
کو مشکل پیش کرنا اور مشکل بنا کر پڑھا نا نہ کمال ہے اورنہ یہ کوئی طریقہ
تعلیم ہے ۔نصاب کو مشکل بنانے سے بچہ پریشان ہو گا اور بچپن ہی سے وہ پڑھنے
کو پسند نہیں کرے گا، بلکہ سمجھ بوجھ کرجان چھڑانے کی کوشش کرے گا ۔ سچ تو
یہ ہے کہ بعض پبلک اسکول کا نصاب ایم اے(M.A) والے بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ ہم
آج اتنے گرگئے کہ ہم نصاب تعلیم میں بھی مغرب کی تقلید کرتے ہیں اور اس کی
سزاہمارے بچوں کو ملتی ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اکتا جاتاہے ۔ایک اور
بڑا نقصا ن جو ہمارے نصاب میں ہے وہ یہ ہے کہ دینیات کو توجہ نہیں دی جاتی
۔ پڑھانے والے اور پڑھنے والے سب فارمیلیٹی پوری کرتے ہیں ۔ حکومت نے تو
اسلامیات کو لازمی قرار دے کر اسے اہمیت دی، لیکن تعلیمی اداروں میں
اسلامیات پڑھانے کے لیے ادنیٰ سے ادنیٰ معلم (Teacher) پر اکتفا کرنے
کامقصد عدم اہمیت نہیں تو اور کیا ہے ؟ جس مضمون کو ادارے کی طرف سے اہمیت
نہ ملے وہ مضمون اہم کیسے سمجھاجاسکتا ہے ۔ناظرہ کی ترتیب کچھ نہ کچھ
اسکولوں میں چلتی ہے مگر برائے نام ہے، حالانکہ ناظرہ کو مستقل توجہ سے
پڑھانے کی وجہ سے طالب علم کابہت سارا وقت بچ سکتا ہے ۔لہٰذا تعلیمی اداروں
میں اسلامیات کے حوالے سے مکمل کوالیفائیڈ سٹاف رکھنا چاہیے جو کتاب کو
دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہوئے طلبہ کی توجہ کا باعث بنے۔ہماری دینیات میں
بنیادی چیزیں عقائد،احکام اور تاریخ ہونی چاہیے۔ہمارا نصاب ایسا ہو کہ وہ
بیک وقت کلچر ،روایت ،مذہب اور فنون کا ترجمان ہو ۔ہمارے نصاب کا وضع اس طر
ز پر ہو جو حب الوطنی کاجذبہ پیدا کرے اور طلبہ کے اذہان میں پاکسانیت کھوٹ
کھوٹ کر بھرجائے، تاکہ کل اس نصاب کو پڑھنے والا سیاستدان پاکستان کے
وفادار شہر ی ہونے کی حیثیت سے سیاست کے میدان میں قدم رکھے۔ اسی طرح
ہرشعبے کے لوگ پاکستان کے ساتھ محبت کرنے پر فخر کیا کریں ۔ اسلام کی محبت
اور اسلام پر بھی مرمٹنے والے ہوں،اس لیے نصاب میں اگر ایک طرف حب الوطنی
کاجذبہ ہوتو دوسری طرف اسلام اور اسلامی کلچر سے محبت وعقید ت کاسبق بھی ہو
۔
ایک اور بڑامسئلہ نصاب کے حوالے سے انگریزی کاہے ۔ ہماری تعلیم اگر انگریزی
سیکھنے پر موقوف ہو تو تعلیم یافتہ طبقہ وہ کہلائے گا جو انگریزی جانتا ہو
اور جوانگریزی نہیں جانتا وہ تعلیم یافتہ نہیں، حالانکہ انگریزی ایک زبان
ہے ۔تعلیم کے ساتھ اس کا اتنا گہرا تعلق نہیں جتنا ہم نے بنایا ہوا ہے۔ چین
کے لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور انگریزی نہیں جانتے ۔فرانس کے لوگ تعلیم یافتہ
کہلاتے ہیں مگر انگریزی نہیں جانتے ۔آج جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک دنیا میں
ہیں ان کی تعلیم ان کی اپنی زبانوں میں ہے ،اس لیے انہوں نے دنیا کے لحاظ
جلد ترقی کی ہے اورہم ان سے پیچھے ہیں، کیوں کہ ہم احساس کمتری کے شکار ہیں
اورتعلیم سے زیادہ انگریزی سے متاثر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ
طبقے پر مغربی کلچر کااثرزیادہ ہے۔ جوتعلیم انگریزی سیکھنے پر موقوف ہو وہ
تعلیم ادھوری ہوگی وہ تعلیم خاص طبقوں کے لیے ہوگی ۔ اس تعلیم کو عام طبقوں
میں عام کرنا مشکل ہے ۔لہٰذا ہمارے نصاب کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ہماری
تعلیم انگریزی سیکھنے پر موقوف ہے ۔ سب سے زیادہ موثر تعلیم وہ ہوتی ہے جو
مقامی (Local)زبان میں پڑھائی جائے ۔ جب تک ہمارا میڈیم اردو ،پنجابی
،سندھی ،پشتو اور بلوچی نہیں ہوگا ۔ہم شرح خواندگی کے مسئلے پر قابو نہیں
پاسکتے ۔ انگریزی کابین الاقوامی زبان ہونے کی وجہ سے سیکھنا ضروری ہے یہ
ایک الگ مسئلہ ہے لیکن تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کو اس پر موقوف کرنا یقینا
ہماری بہت بڑی تعلیمی غلطی ہوگی ۔اگر ہم اس سلسلے میں بھارتی نظام تعلیم پر
قیاس کرتے ہیں تویہ قیاس درست نہیں اس لیے کہ بھارت میں تو گھر گھر انگریزی
بولی جاتی ہے ۔ وہاں کابچہ بچہ انگریزی جانتا،بولتا اور سمجھتاہے جب کہ
ہمارا تو ٹیچر بھی انگریزی نہیں بول سکتا، اس لیے چراغ تلے اندھیرا کامصداق
بن کر ہمارے بچے ناخواندہ رہ جاتے ہیں اور شرح خواندگی میں اضافہ صرف خواب
بن کر شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔یہاں ایک عجیب بات بتا تاچلوں ۔میں ایک
پرائمری اسکول گیا ،ٹیچر نے بور ڈ پر انگریزی میں ایک جملہ لکھا بچوں کو
سکھایا پھر میرے پاس آیا کان میں ایک بات کہی کہ یہ جملہ گرائمر کے لحاظ سے
غلط تو نہیں ۔ اس سے آپ سمجھ گئے ہوں کہ میں کیا کہناچاہتا ہوں؟
تعلیم جتنی آسان ہوگی اتنی عام ہوگی اور آسان تب ہوگی جب نصاب تعلیم آسان
ہوگا اور نصاب وضع کرتے وقت ماہرین نصاب اس پہلو کو نظر انداز نہ کریں ۔
مختصریہ کہ نصاب جامع اور مانع ہو ۔نصاب میں جدت بھی ہو، مگر ایسی جد ت
قابل برداشت ہوتی ہے کہ جدیدیت کے ساتھ روایات ،کلچر اور مذہبی تشخص برقرار
رہے اس کے برعکس وہ نصاب جو ان مذکورہ امور کو متاثر کرے ،معاشرہ کبھی بھی
ایسے نصاب کو قبول نہیں کرے گا۔ میری ان باتوں سے ماہرین اور واضعین نصاب
یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ اس سے پہلے نصاب کے تعین میں ہم سے کیا
کیاغلطیاں سرزد ہوئی ہیں ۔ اوریہ کہ نصاب کی تیاری میں ہم نے احتیاط کے کون
کو ن سے تقاضوں کو نظر انداز کیا ہے ۔ نصاب کی تیاری اور تقرری نظام تعلیم
میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔یہاں تھوڑی سی غلطی، کمی اور تقصیر بہت
بڑی مشکلات پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہیں ۔ نصاب میں معیار اورمقدار دونوں
ملحوظ نظر ہونے چاہیے ۔نصاب کی تیاری میں یقینا ماہرین کے پاس اپنے فارمولے
اورکلیات ہوں گے جن کی بنیاد پر نصاب تیار کیاجاتاہے ۔ ماہرین اپنی مہارتوں
اور (Skills)کو استعمال کرتے ہوئے نصاب تیارکرتے ہوں گے ،تاہم بہتر یہ ہوگا
کہ نصاب سے پہلے اہداف مقرر کیے جائیں ۔ پھر ان اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے
نصاب تیارکیاجائے ۔پھر سالانہ سروے رپورٹ تیار کی جائے اور دیکھا جائے کہ
کیا ہم مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں یانہیں؟ اگر کامیابی
سے ہم کنار ہیں پھر تو نصاب معیار کے مطابق ہے ورنہ نہیں۔سروے رپورٹ کے
حوالے سے میری ایک تجویزیہ ہے ،یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ایک فارمولہ ہے جس سے
نصاب کامعیاری اور غیرمعیاری ہونا آسانی سے معلوم ہوگا ۔چند کوالیفائیڈ
ایماند ار لوگوں کی ایک سالانہ سروے کمیٹی بنائی جائے ۔سالانہ امتحان کے
بعد وہ ریزلٹ دیکھ کر یا بالمشافہہ امتحان لے کر یہ معلو م کرے کہ ہم نے جو
اہداف مقرر کیے تھے ۔ کیا وہ اہداف حاصل کرنے میں ہم کامیاب ہیں ؟اگر
کامیاب ہیں تو کتنے فیصد؟ لہٰذا پچاس فیصد یا اس سے زائد اہداف حاصل کرنے
کی صورت میں ہمارا نصاب یقینا معیاری ہوگا ورنہ ہمیں ان اہداف کے حصول کے
لیے نیانصاب تیار کرناہوگا یا اسی نصاب میں ترمیم کرنی پڑے گی ۔لازمی بات
ہے کہ نصاب میں ترمیم یانیا نصاب تیارکرنے کی صورت میں جوبجٹ سے منظور ہوگی
وہ لاچار اور غریب طلبہ سے داخلہ فارم کے ساتھ وصو ل کی جائے گی ۔یہ الگ
فقہی مسئلہ ہے جو مفتیان کرام سے پوچھنا ہوگا کہ پرانے نصاب کی تیاری میں
غفلت برتنے والوں پر ضمان آئے گا یانہیں؟ بدقسمتی سے ہمارے منتخب حکمران
اورکوئی کام کریں نہ کریں مگر حکومت کے تبدیل ہوتے ہی پہلا کام ان کا نصاب
تبدیل کرنا ہوتا ہے ۔یہ کام ہمارے حکمرانوں کے لیے بہت آسان ہے ،شاید بجلی
بند کرنے سے بھی زیادہ آسان ہے ۔ مگرمیری رائے یہ ہے کہ نصاب کی تبدیلی
کاخرچہ اپنی جگہ خود ایک بڑامسئلہ(Problem) ہے اس سے بڑ ا مسئلہ اساتذہ اور
طلبہ کا ذہنی انتشار ہے ،کیوں کہ نصاب کی تبدیلی سے اذہان منتشر ہوجاتے ہیں
۔پھر جب تھوڑی بہت انس اورہم آہنگی پیدا ہوتی ہے تو پھر سے نصاب میں ترمیم
کااعلان کیاجاتاہے ۔ ٹھنڈے دل سے ایک مختصر جامع مانع نصاب تیار کیاجائے
پھر اس کو مستقل جاری رکھاجائے ۔ ہر سال نصاب میں تبدیلی ناقص نظام تعلیم
اور ناقص پالیسی کانتیجہ ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔ |
|