غزوہ خندق (احزاب)
دشمن کی صفوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش
ایک طرف دشمن کے حوصلے بہت زیادہ کمزور ہو چکے تھے اور دوسری طرف مسلمان
بھی بہت زیادہ دباؤ محسوس کر رہے تھے۔ ایسے حالات میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے کوشش کی کہ دشمن کی صفوں میں اختلاف پیدا ہو جائے اور احزاب
کے فوجی اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے، اس غرض سے آپ نے قبائل غطفان کے
سربرآوردہ افراد کے پاس پیغام بھیجا کہ کیا تم لوگ اس کام کے لیے تیار ہو
کہ مدینہ کے خرمہ کا تیسرا حصہ میں تم کو دے دوں اور تم اپنے خاندان کی طرف
پلٹ جاؤ اور دوسرے قبیلوں میں بھی اس بات کی تبلیغ کرو کہ وہ جنگ سے دست
بردار ہو جائیں۔ ان لوگوں نے مصلحت کے لیے نصف خرمہ کا مطالبہ کیا اور
پیغمبر کے پاس مذاکرہ کے لیے حاضر ہو گئے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے کاغذ، قلم اور دوات لانے کا حکم دیا تاکہ۳/۱ کی قرارداد لکھی جائے۔ اس
وقت مدینہ کے سربرآوردہ افراد سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ آگئے۔ انہوں نے
کہا کہ اے رسول اللہ یہ حکم خدا کی طرف سے ہے یا آپ کا ذاتی نظریہ ہے۔ ہم
اس کے فرمانبردار ہیں لیکن اگر آپ ہمارا نظریہ جاننا چاہتے ہیں تو ہم ان کو
باج ٹیکس نہیں دیں گے۔ جاہلیت کے زمانہ میں جب ہم مشرک تھے تو اس وقت
خریدنے یا مہمان بننے کے علاوہ ہمارا خرما ان تک نہیں پہنچتا تھا۔ اب جب ہم
اسلام سے سرفراز ہیں تو کیا ان کو ٹیکس ادا کریں۔ ہمارے اور ان کے درمیان
تلوار کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۳۴)
غطفان کے قبیلہ کے سربرآوردہ افراد جب خالی ہاتھ واپس جا رہے تھے اس وقت وہ
آپ سے باتیں کرتے جا رہے تھے کہ ان لوگوں نے جنگ جاری رکھنے کے علاوہ اور
کوئی راستہ ہی اختیار نہیں کیا اور آخری فرد تک اپنے ہدف کے دفاع کے لیے
تیار ہے اور ایک ہم ہیں کہ اس سخت سردی اور خشک بیابان میں اپنے اونٹ اور
گھوڑوں کو فنا کر رہے ہیں۔
بنی قریظہ اور مشکین کے درمیان پھوٹ
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مشرکین کے ان قبائل کے درمیان اختلاف پیدا
کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو آپ کے ساتھ جنگ لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے
تاکہ بنی قریظہ کے یہودیوں کے مشرکین سے تعلقات بگڑ جائیں اور آپ میں ایک
دوسرے کو بدظن کر کے ان کے فوجی اتحاد میں تزلزل پیدا کر دیں۔ اسی وقت ایک
مناسب موقع بھی ہاتھ آگیا۔ دشمن کے محاذ کا ایک آدمی جس کا نام نعیم بن
مسعود تھا مسلمان ہوگیا۔ وہ ایک طرف تو بنی قریظہ کے یہودیوں سے اچھے
تعلقات رکھتا تھا تو دوسری طرف مشرکین کے لیے مکمل طور پر قابل اطمینان تھا۔
وہ جس کے دل میں نور ایمان جگمگا رہا تھا، رات کے اندھیرے میں اپنے خیمہ سے
باہر نکلا اور پیغمبر کے خیمہ میں پہنچ گیا اور عرض کی” اے اللہ کے رسول!
میں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ لیکن میرے قبیلہ والے میرے مسلمان ہونے سے بے
خبر ہیں آپ جو حکم فرمائیں میں اس کی تعمیل کے لیے حاضر ہوں۔ رسول خدا صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا” جہاں تک ہوسکے جنگ میں دشمن کے ارادہ
کو کمزور بنا دو۔ ان کو پراگندہ کردو اس لیے کہ جنگ ایک فریب ہے۔
نعیم بن مسعود محلہ بنی قریظہ میں پہنچا، پہلے یہ ان لوگوں کا ندیم رہ چکا
تھا اور کہا کہ اے بنی قریظہ تم اپنے ساتھ میری دوستی اور یکرنگی سے واقف
ہو۔ ان لوگوں نے کہا ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں اور تمہارے بارے میں
بدگمان نہیں ہیں۔ نعیم نے کہا” کہ جو بات میں تم سے کہنے جا رہا ہوں اس کی
شرط یہ ہے کہ تم میرے راز کو چھپا کر رکھو گے اور وہ یہ کہ جنگ دشوار طلب
ہے اور قریش و غطفان جنگ میں سست پڑ رہے ہیں۔ عمر بن عبدود ان کا پہلوان
مارا گیا اور قبیلہ غطفان کے لوگ محمد سے خفیہ طور پر یہ سازباز کر رہے ہیں
کہ وہ مدینہ کے خرما کا آدھا محصول لے لیں اور اپنی راہ لیں۔ ایسی صورت میں
اگر قریش و غطفان کو موقع ملا تو ممکن ہے فتحیاب ہو جائیں اور اگر ہار گئے
تو اپنا بوریہ بستر لے کر اپنے وطن چلے جائیں گے۔ اس صورت میں تم ایسا کام
نہیں کرسکتے۔ تمہارے بال بچے، گھر بار، کھیتی باڑی اور تمہارے نخلستان یہاں
ہیں۔ قریش و غطفان کی شکست کی صورت میں محمد تم سب کا محاصرہ کرلیں گے اور
تمہاری امانتیں تم کو نہیں دیں گے۔ اس لیے تم قریش و غطفان کو ساتھ لے کر
جنگ نہ کرو مگر یہ کہ ان کے سربرآوردہ افراد کو یرغمال بنا کر اپنے پاس رکھ
لو۔ اس طرح ان کو محمد کے ساتھ معاہدہ صلح کرنے کے لیے نہ چھوڑ دو تاکہ وہ
تم کو بے سہارا چھوڑ کر اپنے کام میں لگ جائیں۔
بنی قریظہ کے یہودیوں نے کہا کہ تم ہم کو بہت پرخلوص مشورہ دے رہے ہو۔ ہم
تمہارا شکریہ ادا کرتے ہیں اور تمہارے نظریئے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
نعیم وہاں سے ابوسفیان اور قریش و غطفان کے دوسرے برسرآوردہ افراد کے پاس
آیا اور کہا ایک بات میں نے سنی ہے جو ازراہ خیر خواہی تمہیں بتانا چاہتا
ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ اس راز کو چھپا کر رکھنا۔ ان لوگوں نے کہا”بہت خوب،
کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔
نعیم نے کہا”بنی قریظہ محمد کے ساتھ اپنی پیمان شکنی پر پشیمان ہیں اور
چاہتے ہیں کہ جو بھول ان سے ہوئی ہے اس کا جبران کرلیں۔ انہوں نے محمد کو
یہ پیغام بھیجا ہے کہ ہم قریش و غطفان کے ستر سرکردہ افراد کو پکڑ کر آپ کے
حوالے کر دیں گے تاکہ آپ ان کو قتل کردیں اس کے بعد جنگ کے خاتمہ تک باقی
افراد کو ختم کرنے کے لیے ہم لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے بھی یہ پیشکش قبول کرلی ہے اب ہوشیار رہنا اگر یہود تم سے ضمانت
کے طور پر کچھ افراد مانگیں تو ایک آدمی بھی ان کے حوالہ نہ کرنا۔
ایک طرف احزاب کے سرکردہ افراد نے جو ٹھنڈی راتوں اور یثرب کے بے آب و گیاہ
بیابان میں اپنی طاقتوں کو ضائع کر رہے تھے، بنی قریظہ کی طرف اپنے نمائندے
بھیجے اور ان سے کہلوایا کہ”ہم تمہاری طرح اپنے گھر میں نہیں ہیں ہمارے
چوپائے دانہ اور گھاس کی کمی کی بنا پر تلف ہوئے جا رہے ہیں، لہٰذا جنگ کے
لیے نکلنے میں جلد سے جلد ہمارے ساتھ تعاون کا اعلان کرو تاکہ مل جل کر
مدینہ پر حملہ کر دیں اور اس جنگ سے چھٹکارا مل جائے۔
یہودیوں نے جواب دیا”پہلی بات تو یہ ہے کہ آج شنبہ ہے اور ہم ایسے دن میں
کسی کام میں ہاتھ نہیں لگاتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ مل کر جنگ
نہیں کریں گے۔ لیکن ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ تم اپنے اشراف میں سے کسی کو
ہمارے حوالہ کر دو تاکہ ہم اطمینان کے ساتھ محمد کے ساتھ جنگ کریں۔ اس لیے
کہ ہمیں ڈر ہے کہ اگر تم جنگ سے عاجز آجاؤ گے تو تم محمد کے ساتھ سازباز
کرلو گے اور ہم کو بے سہارا چھوڑ دو گے۔ ہم تنہا ان سے جنگ کی طاقت نہیں
رکھتے اس طرح کہیں کے نہ رہ جائیں گے۔
جب قریش اور غطفان کے نمائندے واپس آئے اور مذاکرات کے نتیجہ سے آگاہ کیا
تو ان لوگوں نے کہا”بخدا نعیم ابن مسعود نے سچ کہا تھا۔ لہٰذا انہوں نے پھر
سے پیغام بھیجا کہ ہم ایک آدمی کو بھی تمہارے حوالہ نہیں کریں گے اگر تم
واقعی اہل نبرد ہو تو آؤ محمد سے جنگ میں ہماری مدد کرو۔
بنی قریظہ نے بھی اس پیغام کو سننے کے بعد ان کے بارے میں شک کیا اور کہا
کہ:نعیم سچ کہہ رہا تھا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم کو محمد کے ساتھ الجھا دیں
اور خود اگر موقع مل جائے تو اس سے فائدہ حاصل کریں ورنہ ہم کو بے سہارا
چھوڑ دیں اور اپنے شہر کی طرف واپس پلٹ جائیں۔ پھر ایسی صورت میں محمد سے
مقابلہ کی سکت ہم میں نہیں ہے۔ بنی قریظہ کے یہودیوں نے قریش اور غطفان کے
سرداروں کو پھر سے پیغام دیا کہ جب تک ہم کو کچھ لوگ ضمانت کے طور پر نہ دو
گے اس وقت تک ہم تمہارے ساتھ مل کر محمد سے جنگ نہیں کریں گے۔ دشمن کے
درمیان تفرقہ پھیل گیا۔ دل خوف و ہراس سے لبریز ہوگئے۔ ایک دوسرے کے بارے
میں بدگمانی میں مبتلا ہوگیا اور جنگ جاری رکھنے کی تردید شروع ہوگئی اس
طرح خدا نے ان لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد سے باز رکھا۔ جاڑے کی اس سرد رات
میں خدائی مدد لشکر توحید کو مل گئی اور خدا کے اذن سے بہت تیز ہوائیں چلیں
اور دشمنوں کے خیموں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ آگ بجھا دی ان کی دیگ
الٹ گئی اور شدید گرد و غبار نے فضا کو تاریک بنا دیا۔ (طبری ج۲ ص ۵۷۸)
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی |