پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے اور
شاید ہمیشہ اس کے حالات ایسے ہی رہیں گے کیونکہ قسمت ان کی بدلتی ہے جو اسے
بدلنا چاہتے ہوں بہت بڑے بڑے لوگوں کو میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ ہمیں نوجوان
نسل سے بڑی امیدیں اور نوجوان تو ملک کے معمار ہیں ارے کیا خاک معمار ہیں ہم ان
نوجوانوں میں سے ہیں جو بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر ہماری ترقی میں رکاوٹ خود بڑے
لوگ ہیں
کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہر سال تقریباً 30000 طالبعلم امتحانات کی
تیاریاں کرتے ہیں مگر آگے صرف 70 فیصد ہی بڑھ پاتے ہیں کیوں کیا باقی طالبعلم
محنت نہیں کرتے کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ پیپر میں وہ سوال کیوں آتے ہیں جو
نصاب میں شامل نہیں ہوتے
ہماری حکومت اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر انہوں
نے وہ سوال پرچے میں دیے جو نصاب میں شامل ہیں تو 90 فیصد بچے جنہوں نے پورا
سال محنت کی ہے وہ کامیاب ہو کر آگے بڑھ جائیں گے اور بڑھتی ہوئی غربت افلاس کو
دیکھتے ہوئے نوکری کرنا چاہیں جو حکومت کے پاس ہے نہیں اس لیے پرچہ کو اتنا
مشکل بنا دیا جاتا ہے کہ حل کرنے کی کؤئی صورت نہ ہو
جہاں جہالت کی تاریکی تعلیم پر حاوی ہو ایسے ملک ہمیشہ پسماندہ رہتے ہمیں کوئی
حق ہی نہیں ہے اپنے ملک کو “اسلامی جمہوریہ پاکستان کہنے کا کیونکہ یہ وہ
پاکستان نہیں ہے جس کا خواب سرسید نے دیکھا تھا ہمارے سیاستدانوں میں انسانیت
تو نام کو نہیں ہے اور تو اور ہمارے روحانی ماں باپ یعنی کہ ہمارے استادوں میں
بھی اب تعلیم سے زیادہ طعنے دینے کی روش اختیار کر لی ہے
میری اس زمین کا اب الله ہی حافظ ہے |