عدالتی نظام کو مزید بہتر و فعّال بنانے کی ضرورت
(Moulana Nadeem Ansari, India)
قید و بند کی صعوبت کیا ہوتی ہے اسے صرف
اخبار کی سرخیوں اور چند ویڈیوز سے سمجھ پانا ممکن نہیں۔ سچ کہیں تو اس بات
کو سوچ کر ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہیں کہ ہمارے ملک میں مجرم نہیں ملزم کے
ساتھ بھی کس قدر ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں کو خدا نے ان صعوبتوں کے
بعد نجات دی اور انھوں نے اپنی زندگی کے اس تاریک ترین دور کو بیان کیا جو
انھوں نے جیل کی کوٹھری میں گزارا، اسے سن کر دل دہل جاتا ہے پھر جن کے
ساتھ یہ سب ہوتا ہے ان کا کیا حال بنتا ہوگا۔ بیوی، بچوں اور اہلِ خانہ سے
دوری، اپنے پن اور پیار کو ترسنا اور جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی ننگے بدن
پولس کی مار برداشت کرنا اور بجلی کے جھٹکے سہنا کس قدر اذیت دہ ہوتا ہوگا۔
ایسے میں بے جا ظلم و ستم کے شکار یا بے یار و مددگار جو لوگ سالوں بلکہ
دَہوں بعد گھر کو لوٹتے ہیں ان کے جذبات کو آخر کس طرح الفاظ میں بیان کیا
جا سکتا ہے، جس میں بڑی تعداد اُنھی کی ہوتی ہے جنھوں نے کوئی جرم یا گناہ
کیا ہی نہیں ہوتا۔ اُف!!!
گذشتہ دنوں چیف جسٹس کے بیان کو تقریباً پوری میڈیا نے بہترین انداز میں
کوَر کیا، جس میں انھیں مقدمات کے انبار کے باوجود عدلیہ میں ججوں کی کمی
کو لے کر نم آنکھوں کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔یہ جسٹس کی نرم دلی کی علامت
اور میڈیا کا مثبت رویہ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن ہم عرض یہ
کرنا چاہتے ہیں کہ یہ سنگین مسئلہ بھی ملک کے دیگر اہم مسئلوں کی طرح ٹھنڈے
بستے میں ڈال دیا جائے گا یا اس پر مناسب اقدامات بھی کیے جائیں گے؟ اس لیے
کہ مختصر سی زندگی و تجربے سے ہم جتنا اپنے ملک اور اس کے حالات کو سمجھ
سکے ہیں، اس میں اکثر و بیش تر مسائل کا حال ایسا ہی ہے۔
سی جے آئی جسٹس ’ٹی ایس ٹھاکر‘ نے جن مثالوں اور جن اعداد و شمار کے ثبوت
کے ساتھ اپنی بات کہی وہ واقعی ملک کے لیے سوالیہ نشان بن گئے کہ کس طرح
ریاستی حکومت مرکزی حکومت پر اور مرکزی حکومت ریاستی حکومت پر اپنی ذمّے
داری ڈال کر خود کا پلّہ جھاڑ لیتی ہے۔ انھوں نے ججوں کی کمی کا شکوہ کرتے
ہوئے کہا کہ نچلی عدالتوں میں تین کروڑ مقدمات زیرِ التوا ہیں، جب کہ ہر
سال بیس ہزار (20000) جج دو کروڑ مقدمات کی سماعت مکمل کرتے ہیں۔ملک کے
ہائی کورٹ میں اڑتیس لاکھ (3800000)سے زیادہ مقدمات زیرِ التوا ہیں، جب کہ
ہائی کورٹ میں چار سو چونتیس( 434)ججوں کاعہدہ خالی ہے۔سپریم کورٹ میں بھی
ججوں کے اوسط سے بہت زیادہ مقدمات آتے ہیں، حال یہ ہے کہ 2014ء میں ججوں کی
تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا لیکن مقدمات کی تعداد بڑھ کراکیاسی ہزار
پانچ سو تریپن( 81553)ہو گئی۔ امسال چار مہینے میں ہی سترہ ہزار چار سو
بیاسی(17482)مقدمات داخل ہوئے ہیں، حالاں کہ سپریم کورٹ نے پندرہ ہزار چار
سو بہتر( 15472)مقدمات کا تصفیہ بھی کیا ہے۔ہمارے نزدیک ججوں کی تعداد کو
لے کر چیف جسٹس کا مطالبہ تو اپنی جگہ ہے لیکن یہ بھی دیکھنے سمجھنے کی
ضرورت ہے کہ جو لوگ اس عہدے پر بٹھائے جاتے ہیں ان میں سے ہر ایک کو اپنی
ذمّے داری کا احساس ہے بھی یا نہیں۔اس لیے اکہ اگر ایسا ہوتا تو کیس نچلی
عدالت سے، اوپری عدالت میں اور پھر عدالتِ عظمیٰ میں گشت نہ کرتا۔ اس پورے
نظام میں ایک غریب جو صرف کسی بے بنیاد الزام کے باعث جیل میں ڈال دیا جاتا
ہے، اس کی اور اس کے اہلِ خانہ کی جو درگت بنتی ہے وہ کسی اہلِ دل و نظر سے
ڈکھی چھپی نہیں۔کتنے گھر ہیں جو اسی سبب برباد ہو گئے۔
چیف جسٹس کا یہ واقعہ ابھی ماند بھی نہیں پڑا تھا،خبر موصول ہوئی کہ جمعیۃ
علماے ہند 2006 ء مالیگاؤں دھماکہ کیس میں گرفتار 8 مسلم نوجوانوں کو بے
قصور ثابت کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے جس کی ہمیں انتہائی خوشی ہے لیکن ہم
اسے انصاف کا ملنا کیسے کہہ دیں کہ ان میں سے ایک ملزم شبیر احمد کی تو
پہلے ہی موت ہو چکی ہے۔ اس قدر تاخیر سے ملنے والی رہائی کو انصاف سے کیسے
تعبیر کیا جا سکتاہے؟ پھر بھی خبر خوش کُن ضرور ہے لیکن اس کی مقتضی بھی کہ
عدالتی نظام کو مزید بہتر و فعال بنانے پر توجہ دی جائے، اس لیے کہ جب تک
ایسا نہیں ہو جاتا ملک کی ترقی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا!
٭٭٭ |
|