مسلمان خطرے میں ہے

جب سے پاکستان بنا ہے اس کی عظمت ، حرمت ، بقا و سلامتی کے خلاف جس قدر خود پاکستا نیوں نے سازشیں کیں کسی اورنے نہ کیں۔ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد مذہبی سیاسی جماعتوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ذات پر حملے کیے اور تقسیم ہند کی بھر پور مخالفت کی ۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد مسئلہ کشمیر سامنے آیا تو ان ہی سیاسی جماعتوں نے جہاد کشمیرکو فساد قرار دیا اور کشمیری مسلمانوں کے حق میں کبھی کلمہ خیر نہ کہا ۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد اقتدار مسلم لیگی جاگیر داروں ، بیوروکریسی اور غیر ملکی تھپکی داروں کے ہاتھ میں آیا جن کا اولین مقصد اقتدار کی کرسی پر برا جمان رہنا اور اپنے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنا تھا۔

سابق مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ بنگالی مسلمانوں کا رہن سہن ، تہذیب وثقافت مغر بی پاکستانیوں سے مطابقت نہ رکھتی تھی اور نہ ہی وہاں جاگیرداری نظام تھا ۔ مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمان زیادہ روشن خیال ، دینی امور کے پابند ، سادہ زندگی کے عادی ، مزدور ، کسان ، ماہی گیر اور محنت کش تھے ۔ یہ لوگ اپنی ہزاروں سالہ ثقافتی اور روایتی زندگی کے عادی تھے جس کی وجہ سے وہ مغربی پاکستانی متکبر اور خود سربیوروکریسی اور غلامانہ ذہن کی حامل جاگیر دارانہ سیاست سے نبھا ہ نہ کر سکے۔ سوچ و فکر کی نا ہمواری اور مغربی پاکستان میں رائج جاگیردارانہ اور متکبرانہ سیاسی ماحول نے دونوں حصوں کے مسلمانوں میں سوچ ، فکر اور جذبہ حب الوطنی کو مشکوک کر دیا اور ایک ایسا فکری اور تمدنی خلا پیدا ہوا جسے ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اپنی شاطرانہ پالیسیوں سے پر کیا۔ وہ غیر ملکی آقا جو سیاسی اشرافیہ اور جاگیردارانہ سیاسی سوچ کے پشت پناہ تھے وہ بھی بھارت سے جا ملے اور آخر کا راس قوم نے وہ دن بھی دیکھا جب اندرا گاندھی نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کا نعرہ بلند کیا۔ قائداعظم ؒ کے پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے تو دونوں جانب سوشلسٹ نظریات کی پر چارک سیایسی جماعتیں برسر اقتدار آئیں مگر عوام کی حالت ویسی ہی رہی جیسے پہلے تھیں۔ بنگالی مسلمان اس بات پر حیران تھے کہ انہوں نے پاکستان سے علیحدگی سے کیا پایا ہے۔ جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت کے صلے میں بھارتی تسلط ملا تو بھارتی فوجی اور سولین لٹیروں نے شہر اور گاؤں لوٹ لیے ، فیکٹریاں اور ملیں اُٹھا کر بھارت منتقل کر دیں، بینک لوٹے اور ہزاروں جوان عورتیں اغوا کر کے لے گئے۔ بھارتی درندوں اور ڈاکوؤں سے جو بچا وہ مکتی بانہی اور عوامی لیگی غنڈوں نے لوٹنا شروع کیا اور عام آدمی کی زندگی اجیرن کرد ی۔ مسلمان ہی مسلمان کا دشمن بنا ، ایک دوسرے کا خون بہایا ، ملک تباہ کیا اور مغربی پاکستان سے ملی آزادی کو ہمیشہ کے لیے عوامی لیگ اور بھارت کی غلامی میں بد ل دیا۔

1971کے بعد مغربی پاکستان مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کا پاکستان بن گیا اور اس نئے پاکستان میں عوامی نیشنل پارٹی ، پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر علاقائی جماعتوں میں سوچ وفکر کے علاوہ لسانی ، علاقائی ، صوبائی اور مسلکی کشمکش شروع ہو گئی ۔ سازشوں نے بغاوتوں کا روپ دھار ا تو متفقہ آئین بھی کسی کام نہ آیا ۔ عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچ سردار افغانستان روس، بھارت ، عراق ، شام اور مصر کی گود میں جاگرے اور بلوچستان میں بغاوت ہوگئی ۔ آزاد بلوچستان ، پختو نستان اور سندھو دیش کی تحریکوں نے زور پکڑا تو اجمل خٹک سمیت بلوچ اور پختون لیڈروں نے جلال آباد اورکا بل میں ڈیرے ڈال لیے جہاں را، خار، مساد، کے جی بی اور کسی حد تک ساوک نے بھی انہیں مالی ، سیاسی ، صحافتی او رسفارتی امداد فراہم کی ۔ تحریک استقلال کو کچھ عرصہ تک ایران نے سپورٹ کیا مگر بعد میں اسے کسی بھی ملک نے گلے نہ لگایا ۔

بات یہاں ہی ختم نہ ہوئی اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے اپنے ہم مسلک پیڑو ڈالر سے مالا مال عرب بھائیوں سے چندہ ، خیرات ، زکواۃ تو وصولا ہی مگر ساتھ ساتھ مسلکی بنیاد پر قائم ہونے والے لاکھوں مدارس کے لیے اربوں ڈالر بھی وصول کیے ۔ اسی مسلکی ، لسانی اور علاقائی کشمکش نے پاکستان کو سرد جنگ کا تھیڑ بنا دیا اور دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنے سفارتخانوں اور ہمدردوں کے ذریعے پاکستان کو سوچ و فکر کی جنگ کا میدان بنا دیا ۔ رہی سہی کسررو س و افغان جنگ نے پوری کی اور پھر دہشت گردی نے وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اقتدار کی باریاں لینی شروع کیں تو دہشت گردی کے ساتھ کرپشن اور لوٹ مار پاکستانی سیاست کا بنیاد ی جز بن گیا ۔ کک بیک ، بیرون ملک سرمائیہ کی منتقلی اور کمیشن مافیا نے لینڈ مافیا، واٹر مافیا ، پٹرول مافیا اور دیگر مافیا جات کو جنم دیا تو لوٹ مار کی دولت سے بڑے بڑے پلازے ، مارکٹیں اور عظیم الشان ہاؤسنگ سکیمیں معرض وجود میں آگئیں جن سے ملک کے اندر کئی آزاد جزیرے اور خود مختار ریاستیں قائم ہوگئیں۔

دیکھا جائے تو ملک میں نہ جمہوریت ہے اور نہ آمریت بلکہ مافیا کی حکمرانی ہے۔ بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ ، اغوا برائے تاوان ، جبری قبضہ ، بے دخلی اور دہشت گردی کے باقائدہ ادارے قائم ہیں جنہیں پولیس ، میڈیا اور دیگر حکومتی اداروں کی مد د حاصل ہے۔ مشہور صحافی اور دانشور یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پانامہ لیک جیسے قصے حکمران خاندان کا کچھ نہیں بھگاڑ سکتے ۔ آخر کروڑوں پاکستانیوں نے انہیں ووٹ دیے ہیں۔ دانشور صحافی نے ٹھیک کہا ہے ۔ اگر یہ لوگ جیل میں ہوں تب بھی ان ہی کو ووٹ دینگے ۔ اس ملک کے اسی فیصد ووٹر ان لوگوں کی ملوں کے مزدور ، زمینوں پر کام کرنیوالے ہاری اور کسان ،گھروں اور کاروباری اداروں کے ورکر اور کامے ہیں ۔ صحافی ، سرکاری ملازم اور کارندے ان کے تنخواہ دار غلام ہیں ۔ دہشت گرد ، غنڈے اور مافیاکے سرغنے ان کے بزنس پارٹنر اور مفادات کے محافظ ہیں ۔ اگر لوگ انہیں ووٹ نہیں دینگے ، بھتہ اور رشوت سے انکار کرینگے ، لوٹ مار اور کرپشن کی راہ میں حائل ہونگے تو اُن کا حشر بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے مزدوروں ، ماڈل ٹاؤن کے مرکز مہنا ج القرآن ، اقبال پارک میں تفریح کے لیے آنیوالے شہریوں ، آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے طالب علموں جیسا ہوگا ۔ آیان علی کا تفتیش کا ر آفیسر قتل ہو گیااور جرمانہ کرنیوالا مجسٹریٹ تبدیل کر دیا گیا ۔ شاہ رخ جتوائی اور مصطفےٰ کا نجو کو معافی نامہ مل گیا اور جن غریبوں کو ایس ایم ظفر ، اکرم شیخ ، اعتزاز احسن ، بابر اعوان اور دیگر نا مور وکیلوں تک رسائی نہ تھی وہ کب کے پھانسی پر جھول گئے ۔ قانون اور انصاف کا بول بالا غریب ، غیرت مند، بے قصور اور بے سہارا کے خون پر ہوتا ہے۔ جو رشوت کی سکت نہیں رکھتا اسکا چالان کبھی پیش نہیں ہوتا اور نہ عدالتیں انصاف کرتی ہیں۔

آج ملک کرپشن ، مفادات ، لوٹ مار ،مافیا جات اور دہشت گردی کا شکار ہے اور میڈیا ان کی آواز ہے۔ طالبان اور داعش کے علاوہ نان کائینیٹک اور فورتھ جنریشن وار وطن عزیز پر مسلط ہے ۔ جبکہ سیاسی اور دینی قیادت اس قابل نہیں کہ وہ اس چوطرفہ یلغار کا سامنا کر سکے ۔ دیکھا جائے تو محسوس اور غیر محسوس انداز میں ہر سطح کے قائدین کسی نہ کسی طرح ا س جنگ کا حصہ ہیں اور یلغار یوں کے مدد گار اور سہولت کار ہیں۔

ملکی سطح پر دیکھا اور پر کھا جائے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور اُن کے کچھ رفقا ئے کارنان کا ئینیٹک اور فورتھ جنریشن وار سمیت دیگر شرور سے بخوبی آگاہ ہیں اور ہر میدان میں اُنکا مقابلہ بھی کر رہے ہیں مگر جو لو گ عوامی نمائندگی اور جموریت کے لبادے میں بیان کردہ شیطانی اور فسادی قوتوں کے آلہ کار ہیں وہ نہ صرف وطن دوست اور محافظ قوتوں کے مخالف ہیں بلکہ اُن کے دشمن بھی ہیں۔
 
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو کسی بھی جگہ ماحول خوشگوار نہیں ۔ افغانستان ، شام ، لیبیا ، عراق ، یمن اور لبنان دیناکے نقشے پر تو ہیں مگر دنیا کا حصہ نہیں ۔ ان ملکوں کے عوام در بدر ہیں اور وار لارڈ حکمران ہیں ۔ مصر ، اُردن ، مراکش اور سوڈان جیسے ملک اندرونی الجھاؤ میں ہیں اور بیرونی مد د کے سہارے چل رہے ہیں مشرقی بعید اور سنٹرل ایشیائی ممالک پر سکتہ طاری ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش عملاً بھارت کے زیر سائیہ ہے۔ ایران، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں پر بھارت کا اثر غلبے اور تسلط کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ ایرانی صدر نے اسلام آباد آکر بیان دیا ہے کہ بھارت ہمارا دوست ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ بھارت ایران کی بندر گاہ چاہ بہار کو گوادر کے برابر لانے اور چینی سرمایہ کاری کو روکنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف پاکستان چین کو ریڈور منصوبے پر کام کر رہا ہے تو دوسری جانب تائی پی گیس منصوبے کے ذریعے بھارت کو مالا مال کرنے پر بھی کار بند ہے۔ بھارت پاک ایران گیس منصوبے سے الگ ہے اور پاکستان بھی اس پر زیادہ زور نہیں دے رہا ۔ بھارت اور ایران کے دوستانہ تعلقات کے علاوہ ایران سعودی عربیہ مخالفت بھی زورں پر ہے۔ دونوں ملک سفارتی ، معاشی ، صحافتی اور دیگر کئی محاذوں پر حالت جنگ میں ہیں۔

اسلامی تاریخ میں فتح مکہ کے بعد نبی آخر الزماں ﷺ نے کعبہ شریف کو بتوں سے پاک کیا اور اب سوسال بعد سرزمین عرب پر بھارتی وزیراعظم عالم اسلام کے بد ترین دشمن ، لاکھوں مسلمانوں کے قاتل اور دہشت گرد نریندر مودی کی خوشنودی کی خاطرایک جدید بت خانہ قائم ہوا ہے۔ بات یہاں ہی نہیں رکی بلکہ خادم حرمین شریفین شاہ سیلمان نے اسی مودی کو رسول خدا کی دھرتی پر دعوت دی اور سعود ی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ بھی دیا ۔ سعودی عرب کی زمین پر پہلی بار ایک اور کام بھی ہو اکہ مودی جیسے دشمن اسلام کے سامنے عرب حسیناؤں کو پیش کیا گیا جنہوں نے دشمن امت رسول ﷺ کے سامنے اپنے نقاب اُلٹ دے اور مسکراہٹوں کے ساتھ اس ناپاک درندے سے ہاتھ ملائے۔

دیکھا جائے تو ترکی کے بعد پاک فوج ہی میدان میں کھڑی ہے اور ہر طرح کی یلغار کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ترکی یورپ کا دروازہ ہے۔اور یورپین ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی ترکی کی طرفداری پر مجبور ہیں۔ پاکستان گریٹ گیم کا مرکز ہے۔ اور عالمی قوتوں کے نشانے پر ہے۔ سیاسی قیادت ذاتی اور مفاداتی سوچ کے دائرے میں مقید ہے اور مافیا عملاً حکمران اور قانون اور آئین کی حددود اور قید سے آزاد ہے۔

پاک فوج ایک طویل جنگ لڑ رہی ہے جسے اندرونی سازشوں اور بیرونی حملہ آورں کا سامنا ہے۔ پاک فوج کی تربیت اور پاکستانی سپاہی کا جذبہ حب الوطنی اور جذبہ ایمانی اس بات کی دلیل ہے کہ و ہ طویل جنگ لڑنے کا حوصلہ اور ہمت رکھتا ہے۔ آج مسلمان کس قد ر غیر محفوظ اور بے یارو مدد گار ہے کہ ایران اور سعودی عرب جیسے اسلامی ممالک کو مودی جیسے بت پرست کے سامنے جھکنا پڑ گیا ہے۔ پاکستانی سیاستدان ، حکمران ، مافیا اور اشرافیہ بھی خوف میں مبتلا ہے اور اپنے اثاثے اور اولادیں یورپ ، امریکہ اور دیگر ممالک میں منتقل کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف ایک اور طبقہ ہے کہ جب کسی کا بیٹا وطن کی آبرو پر جان نچھاور کرتا ہے تو اُس کی ماں اور باپ دوسرا بیٹا جنرل راحیل شریف کے سپر د کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے اُسی جگہ تعینات کر دو جہاں اس کا بھائی شہید ہوا ہے۔ شہیدوں کی بیوائیں اپنے بچوں کو میدان جنگ میں جانے کی ترغیب دے رہی ہیں اور تربیت کر رہی ہیں ۔بہنیں اپنے شہید بھائیوں کی بہادر ی کے گیت گاتی ہیں اور شہیدوں کی شان میں نظمیں لکھتی ہیں ۔ جس گاؤں میں جس قدر شہیدوں کے مزار ہیں اُس گاؤں کے نوجوان اسی قد ر پر جوش اور پر عزم ہیں جبکہ حکمرانوں کے بچے فخر سے کہتے ہیں کہ الحمد اﷲ بیرون ملک اربوں کھربوں کے اثاثے ہمارے ہیں جو ہم نے اس ملک کو لوٹ کر بنائے ہیں ۔ خون کا نذرانہ پیش کرنے والے اور لوٹ مار کرنیوالے کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ جب انسانوں کے بنائے قوانین انصاف نہ کریں تو خدائی قوانین حرکت میں آجاتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو آج مسلمان ہر جگہ خطرے میں ہے اور اُسکی وجہ بد اعمالی اور دین سے دوری ہے۔ اسلام ایک عقیدہ ہے اور خد ا کامتعین کردہ اصول ہے جسے کبھی زوال نہیں آسکتا ۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100565 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.